"KDC" (space) message & send to 7575

مسئلہ کشمیر اور چناب فارمولہ کا پس منظر

سارک کانفرنس کے دوران پاک بھارت وزرائے داخلہ کے درمیان سرد مہری برقرار رہی اور دونوں وزراء کے درمیان رسمی مسکراہٹ کا تبادلہ بھی نہیں ہوا۔ دونوں ایٹمی ممالک کے درمیان کشیدگی کا عنصر غالب رہا۔کانفرنس میں بنگلہ دیش اور بھارت کے مندوبین پاکستان کے خلاف اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے پاکستان مخالف باتیں کیں۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنمائوں کی پاکستان کے ساتھ یک جہتی کی پاداش میں سزائے موت پر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے سخت گیر موقف کی وجہ سے بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ اسلام آباد نہیں آئے، ان کی جگہ سیکرٹری داخلہ نے اپنے ملک کی نمائندگی کی۔ افغانستان کے نائب وزیر داخلہ کانفرنس میں موجود تھے۔ بھارتی وزیرداخلہ کے خطاب کا چوہدری نثار علی خاں نے موثر جواب دیا جس پر راج ناتھ سنگھ ناراض ہو گئے اور کانفرنس ادھوری چھوڑ کر چلے گئے۔ بعدازاں بھارت پہنچ کر انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی اور پاکستان کے رویے کی شکایت کی۔ کانفرنس کے ورکنگ سیشن میں چوہدری نثار علی خان نے جرأت مندانہ موقف اختیار کیا اور دہشت گردی سے متعلق بھارت کے الزامات مسترد کر دیے۔
متحدہ ہندوستان کی آزادی کے وقت کشمیر مسلم اکثریت کی حامل ریاست تھی اور 3جون1947ء کے معاہدے میں یہ پیش کش کی گئی تھی کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر سکتی ہے۔ کشمیر کے حکمران نے ریاستی عوام کی اکثریتی رائے کے خلاف کشمیر کو بھارت کا اتحادی مگر خود مختار آزاد ریاست برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تو کشمیری عوام نے مزاحمت کا اعلان کر دیا۔ عوام کے اس شدید ردعمل اور سرحدی لشکر کی پیش قدمی کے خوف سے مہاراجہ کشمیر کرن سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویزات پر دستخط کر دیے۔ مسئلہ کشمیر کا ایک اہم اور بنیادی فریق کشمیر کے عوام ہیں۔ بین الاقوامی قانون اور روایات کے تحت جدوجہد آزادی میں مصروف عوامی تحریک کے کارکنوں کی اقوام متحدہ مددگار ہوتی ہے اور مزاحمتی باشندوں کو اپنی جدوجہد قانونی دائرے میں رکھنے کا موقع دیتی ہے۔
پنڈت جواہر لال نہرو اپنے دور اقتدار میں مقبوضہ کشمیر کے دائمی حل کے لیے سنجیدہ ہو گئے تھے اور انہوں نے جموں و کشمیر کے مرد آہن شیخ عبداللہ کو تہاڑ جیل سے رہا کروا کے کشمیر کے معاملے پر ایک طویل مدتی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کا عندیا دیا تھا۔ شیخ عبداللہ کو صدر ایوب خاں نے بھی با مقصد مذاکرات کرنے کے لیے فری ہینڈ دے دیا تھا اور اس کا محور مسئلہ کشمیر تھا۔ وزیر اعظم نہرو تنازع کشمیر کے حل کے لیے جس منصوبے پر بات کر رہے تھے اسے چناب فارمولا کہا جاتا ہے۔ اس فارمولے کے تحت کشمیر کو دریائے چناب کی حد بنا کر تقسیم کر دیا گیا تھا۔ دریائے چناب کشمیر سے بہتا ہوا پنجاب میں اس طرح داخل ہوتا ہے کہ مسلم اکثریتی 
علاقے ہندو اور بدھ اکثریتی علاقوں سے جدا ہو جاتے ہیں۔ یہ دریا دووا‘رامیان‘ سرہ کوٹ‘ سلال‘ ریامی اور اکھنور کے پہاڑی علاقوں سے گزرتا ہوا پاکستانی پنجاب میں ہیڈ مرالہ پہنچتا ہے۔ بھارت نے اس دریا پر سندھ طاس معاہدے کے تحت سلال ڈیم تعمیر کیا ہے۔ کشمیر وادی کا 98 فیصد حصہ مسلم آبادی پر مشتمل ہے؛ چنانچہ وزیر اعظم نہرو نے چناب فارمولے کے تحت صدر ایوب خان کو شیخ عبداللہ کے توسط سے یہ تجویز دی تھی کہ اگر دریائے چناب کو نئی سرحد تسلیم کر لیا جائے تو جموں صوبے کے چھ میں سے کم از کم تین اضلاع پاکستان کا حصہ بن جائیں گے۔ شیخ عبداللہ اور صدر ایوب خان کے مابین اس پر بامقصد تبادلہ خیال ہوا اور وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو ان مذاکرات میں برابر کے شریک رہے۔ شیخ عبداللہ نے اپنی سرگزشت ''آتش چنار‘‘ میں ان ملاقاتوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ وہ مسٹر بھٹو کی ذہانت ‘ قابلیت اور گہرے وژن کی وجہ سے خائف تھے، انہوں نے فیلڈ مارشل ایوب خان سے تنہائی میں ملاقات کے دوران وزیر خارجہ بھٹو کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا تھا اور ان کے امریکی اداروں سے روابط کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ شیخ عبداللہ کا موقف تھا کہ دو بڑی طاقتیں کشمیر کے مسئلہ کے حل میں رکاوٹیں پیدا کریں گی۔ صدر ایوب خان نے نہرو کے چناب پلان پر غور و خوض کے لیے چند روز کی مہلت مانگی اور شیخ عبداللہ کی درخواست پر ان کے لیے مظفر آباد میں جلسہ منعقد کرنے کے انتظامات بھی کروا دیے۔ غالباً اُس وقت آزاد و جموں کشمیر کے صدر کے ایچ خورشید تھے۔ اس دوران وزیر اعظم نہرو انتقال کر گئے اور شیخ عبداللہ کو فوری طور پر دہلی جانا پڑا۔ چناب فارمولہ پر صدر پرویز مشرف کے دور میں 2008ء میں دوبارہ بات چیت ہوئی۔ ٹریک ٹو ڈپلومیسی صدر مشرف کے انتہائی قریبی ساتھی طارق عزیز کے ذریعے شروع ہوئی۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے فرزند اور شیخ عبداللہ کے پوتے عمر فاروق عبداللہ کے توسط سے اسلام آباد میں کانفرنس کا انعقاد کیا گیا اور واجپائی حکومت چناب فارمولے کولے کر آگے بڑھ رہی تھی اور یوں معلوم ہو رہا تھا کہ کشمیر کا معاملہ حل ہونے کی طرف جا رہا ہے۔ دونوں حصوں کے رہنما اس بات پر متفق ہو رہے تھے کہ کشمیر پاکستان کے ساتھ الحاق کرے یا خود مختار حیثیت حاصل کرلے، کم از کم یہ کہ کشمیری عوام بھارت کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اسی دوران چیف جسٹس آف پاکستان اور صدر مشرف کا تنازع کھڑا ہو گیا اور صدر مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہو گیا اور کشمیر پر نئے امکانات یعنی چناب فارمولہ دریائے چناب کی نذر ہو گیا۔ آگرہ کانفرنس میں طے پا گیا تھا کہ چین کو دیے گئے علاقے کا بھی تصفیہ کرلیا جائے گا۔ صدر پرویز مشرف نے بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ کویقین دہانی کرائی تھی کہ اگر بھارت اورپاکستان تنازع کشمیر کے پر متفق ہو جاتے ہیں تو چین کے زیر کنٹرول کشمیری علاقہ بھی اس معاہدہ کا حصہ ہو گا۔ اسی تناظر میں پاک چین اقتصادی راہداری کا بیشتر منصوبہ زیر عمل ہے۔ اس منصوبے کے تحت گوادر بندرگاہ سے چینی مال دنیا بھر سے درآمد اوربرآمد کیا جائے گا۔ گلگت اور بلتستان پاکستان کی شہ رگ ہے۔دراصل کشمیر کے آبی ذرائع، پاک چین اقتصادی راہداری‘ خطے میں سٹریٹیجک توازن اور مسلم آبادی کا ایک جغرافیہ میں ڈھل جانا بھارت مفادات کے خلاف ہے‘ لہٰذا اس نے کشمیریوں کو ان کے حق خود ارادیت سے محروم رکھنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ افواج رکھی ہوئی ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ پاک بھارت کشیدگی کم کرنے کے بجائے اس میں مزید اضافہ کر کے چلے گئے۔ بھارت کو چاہیے کہ اس حقیقت کو تسلیم کرے کہ مسئلہ کشمیر‘ کشمیریوں کی مرضی اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ہی حل ہو گا۔ یہ مسئلہ حل ہو جائے تو برصغیر پاک و ہند میں امن اور اقتصادی ترقی کی رفتار تیز کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں