"KDC" (space) message & send to 7575

نا اہلیت کے خلاف فیصلہ کن جنگ سپریم کورٹ میں

پاکستان کی اشرافیہ نے قائد اعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947ء کی آئین ساز اسمبلی کی تقریر کے آخری پیرا گراف کو بھی یکسر نظر انداز کر دیا جس میں انہوں نے کرپشن کو جمہوریت کے لئے ناسور قرار دیا تھا۔ ہماری اشرافیہ نے کھربوں روپے کے قرضے معاف کرانے کی سیاست میں پاکستان کو دیوالیہ بنانے میں خطرناک کردار ادا کیا۔ سیاستدانوں اور سابق ججز، قومی اسمبلی کے سابق سپیکر ، بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ، سابق وزیر خارجہ اور سابق جرنیلوں کے کلب اور قومی احتساب بیورو کے سابق چیئرمینوں نے قرضے معاف کرائے۔ قرضے معاف کرانے والوں کی جو فہرست سینیٹ میں پیش کی گئی اس سے کچھ اشارے ملتے ہیں، جن کے تحت تقریباً 15 ارب کے قرضے معاف کرائے گئے۔ یوں پاکستان کی خونخوار اشرفیہ بار بار قرضوں کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتی رہی۔ موجودہ سیاسی صورت حال کے حوالے سے حکومتی میڈیا یہی تاثرات پھیلا رہا ہے کہ پاناما لیکس سے اٹھنے والا طوفان گزر چکا ہے کیونکہ نواز لیگ نے آصف علی زرداری سے پس پردہ مفاہمت کر کے اس بحران کی شدت کم کر دی، لیکن زمینی حقائق یوں ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف اب بھی خطرے سے باہر نہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور اسپیکر قومی اسمبلی کے ہاں ریفرنسز ان کے لئے خاص طور پر مسائل کھڑے کر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کے صاحبزادگان کے الیکٹرانک میڈیا کے روبرو بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ آف شور کمپنیوں کے شیئرز میں مریم نواز صاحبہ کا نام بھی ہے اور قومی اسمبلی کے انتخابات 2013ء کے لیے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کراتے وقت اور الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرائی گئی اپنے اثاثوں اور اربوں روپے کی دولت کی تفصیل میں ان کا ذکر نہیں کیا گیا، حالانکہ محترمہ کو ان کے زیر کفالت ظاہر کیا گیا تھا۔
ریفرنسز کے معاملے پر نگاہ ڈالیں تو احساس ہوتا ہے کہ ملک میں خوفناک آئینی بحران کے بادل گہرے ہو رہے ہیں۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی تحریک احتساب اور تحریک قصاص میں عوامی دباؤ خاصا موثر رہا کیونکہ ڈاکٹر طاہر القادری کی تحریک منظم اور موثر رہی۔ ان کی تحریک مظلوموں کی تحریک ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ریفرنسز میں سب سے اہم ریفرنس سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا ہے۔ اپنے طویل عدالتی تجربے اور الیکشن کے قوانین پر گہری دسترس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جسٹس افتخار چوہدری نے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ریفرنس داخل کرنے پر بڑی محنت کی ہے۔ سابق چیف جسٹس نے وزیر اعظم کے خلاف آئین کے آرٹیکل 62(1)F ، 63(2) اور 65 کے ساتھ آئین کے آرٹیکل 5 کی طرف بھی اشارہ کیا ہے ۔ لا تعداد ثبوتوں اور قانونی نکات سے ریفرنس داخل کرایا گیا ہے اور اب بشمول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، عمران خان، ڈاکٹر طاہر القادری، شیخ رشید احمد اور سردار لطیف کھوسہ کے ریفرنسز کا جائزہ لیا جائے تو ان ریفرنسوں
میں سابق چیف جسٹس کا ریفرنس اہم ترین ریفرنس محسوس ہوتا ہے۔ اب حکمرانوں کے خلاف دونوں محاذ گرم رہیں گے۔ اول سڑکوں پر احتجاج ، دھرنے اور مارچ اور دوسری طرف قانونی محاذ جس میں الیکشن کمیشن سے لے کر سپیکر قومی اسمبلی تک شامل ہیں۔ اگر 1969ء سے 4 جولائی 1977 ء اور 1982-83 ء اور اگست2014 ء کے سیاسی نقشے کو ذہن میں رکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ احتجاجی تحریک حکومت پر دباؤ کا باعث بنے گی، اور نواز لیگ کو چین سے نہیں بیٹھنے دے گی اور اس کے نتیجے میں یہ توقع رکھنا کہ وزیر اعظم رضا کارانہ طور پر اقتدار سے دستبردار ہو جائیں، درست نہیں۔ میرے نقطۂ نگاہ کے مطابق یہ معرکہ پارلیمنٹ میں فاروڈ بلاک بنانے کی صورت میں ہی طے کیا جاسکے گا کیونکہ حکومت نے چوہدری نثار علی خان کے سارک کانفرنس کے بیان کو ان کی ذاتی حیثیت قرار دے کر پارلیمنٹ کے ناراض گروپ کو مزید سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ میں طویل تجربے کی روشنی میں یہ اظہار کرنے میں تامل محسوس نہیں کر رہا کہ اس بار اگر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت یہ تمام مقدمات سپریم کورٹ تک پہنچے اور آئین و قوانین کے مطابق بڑی محنت و کاوش سے پیش کئے گئے تو مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے اس بار نواز شریف کی نا اہلیت کی یہ فیصلہ کن جنگ سپریم کورٹ میں لڑی جائے گی۔
جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری نے آرٹیکل 5 کا حوالہ دے کر وزیر اعظم نواز شریف کی ملک سے وفاداری اور آئین پاکستان سے انحراف کو سوالیہ نشان کے طور پر پیش کر دیا ہے اور ان کی وفاداری پر انگلی اٹھائی گئی ہے اور اسی کا تفصیلی مکالمہ سپیکر قومی اسمبلی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے رو برو جب پیش کیا جائے گا تو وزیر اعظم نوا ز شریف کی ساکھ مجروح ہو جائے گی۔ یہ اہم ترین آرٹیکل ہے اور یہ پہلی مرتبہ پاکستان کی اہم ترین شخصیت کے خلاف لگایا گیا ہے جو آرٹیکل 6 کے قریب ترین ہے۔ 
اثاثے پوشیدہ رکھنے کے جرم میں عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ82, 42-A, 12, 14 اور 94 کے تحت وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے داماد کیپٹن (ر)صفدرکو اسمبلی کی رکنیت سے نا اہل قرار دلایا جا سکتا ہے، تاہم اسی آئینی و قانونی نقطہ نظر سے الیکشن کمیشن عمران خان کو بھی اسمبلی کی رکنیت سے محروم کر سکتا ہے کیونکہ جو ریفرنس حکمران جماعت نے عمران خان کے خلاف داخل کئے ہیں، اس کے مطابق عمران خان نے بھی 2013ء کے کاغذات نامزدگی اور سالانہ گوشوارے داخل کراتے ہوئے اپنی آف شور کمپنی کی تفصیل نہیں بتائی تھی۔ اس سے ایسا سیاسی بحران جنم لے سکتا ہے جس کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگر الیکشن کمیشن نظریہ ضرورت کے تحت اجتناب کرتا ہے تو پھر اس کی غیر جانبداری کی ساکھ مجروح ہو جائے گی جس کا اثر آئندہ انتخابات پر گہرا پڑے گا۔ ملک میں بے چینی کی آگ سلگ رہی ہے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقتولین کے لئے انصاف حاصل کرنے کے لئے ڈاکٹر طاہر القادری 30 اگست کو اسلام آباد آنے کا جو ارادہ رکھتے ہیں اس سے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور ان کی انتظامیہ پُر تشدد ماحول پیدا کر دیتی ہے تو پھر یکم ستمبر سے پہلے ہی سابق وزیر اعظم بھٹو کی تاریخ دہرائی جائے گی۔
وزیر اعظم نواز شریف کے اہل خانہ پر کسی خفیہ ادارے کے لگائے ہوئے الزامات نہیں تھے، حکمران خاندان کے لئے وہ صورت حال انتہائی افسوسناک تھی جب صدر مملکت بھی گویا ہوئے تھے کہ پاناما لیکس قدرت کا تحفہ ہے اور اسی طرح تہمینہ درانی، جو وزیر اعلیٰ پنجاب کی اہلیہ ہے، نے بھی کہہ دیا تھا کہ پاناما لیکس کے واقعہ سے سبق سیکھتے ہوئے شریف برادران کو اپنی دولت بیرون ممالک سے واپس لا کر عبدالستار ایدھی کی طرح زندگی بسر کرنا چاہئے، ان تمام سنگین کرپشن کی میگا وارداتوں کے باوجود وزیر اعظم خوش نصیب ہیں کہ ان کو پاکستان کی تاریخ کی کمزور ترین مفاد پرست اپوزیشن ملی ہے اور اب جو جنگ سپریم کورٹ میں لڑی جائے گی اس کے مثبت اور منفی اثرات، اس کے تاریخی فیصلے کے بعد ہی سامنے آئیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں