"KDC" (space) message & send to 7575

نیشنل ایکشن پلان دفن ہوگیا؟

بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے جرأت مندانہ طور پر وزیر اعظم کے رُو برُو کہا کہ ان کے پاس 'را‘ کی سازشوں کے مصدقہ ثبوت ہیں۔ اس کے بر عکس حکومتی اتحادیوں اور ترجمانوں نے نہایت غیر ذمہ دارانہ بیان دیے اور کہا کہ گہرے پانی سے سوئی ڈھونڈ لینے والے ادارے دہشت گرد کیوں نہیں پکڑتے۔ محمد خان شیرانی نے بھی اپنے انداز میں دفاعی ادارے کی تضحیک کی۔ جب حکومت اور اس کے اتحادی اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہے اور جو ادارہ یہ قومی فریضہ ادا کر رہا ہے، اس پر اتنی تند و تیز تنقید سے کیا اندازہ لگایا جائے؟ پاکستان کے ایک اینکر پرسن نے اپنے پروگرام میں چوہدری نثار علی خان کی سارک کانفرنس میں ذوالفقار علی بھٹو کے انداز میں ذو معنی طریقے سے خطاب پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر کشمیر میں دہشت گردی کی آزادی ہے تو بلوچستان میں جنگ آزادی کی کیوں نہیں؟ ان کا یہ تبصرہ نہایت غیر ذمہ دارانہ اور حقائق کے بر عکس تھا کیونکہ مقبوضہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے علاوہ تاشقند اور شملہ معاہدوں کے مطابق ایک متنازعہ علاقہ ہے جبکہ بلوچستان ستمبر 1947ء میں آزادی ایکٹ 47 کے تحت اپنی آزاد مرضی سے پاکستان میں شامل ہوا تھا اور اب یہ وفاق کی ایک اکائی ہے۔
بلوچستان صوبہ کی حیثیت سوویت یونین کی ریاستوں سے مختلف ہے۔ بلوچستان میں آزادانہ انتخابات ہوتے ہیں جن کے نتیجے میں صوبائی اسمبلی وجود میں آتی ہے، اس کے نمائندے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے رکن بنتے ہیں۔ اس صوبے کے لیڈروں اور عوام کی بھاری اکثریت محب وطن پاکستانی ہے۔ مفاد پرستوں کا ایک مٹھی بھر ٹولہ بیرونی اشاروں پر ملکی سلامتی کو دائو پر لگانے کی سازش کر رہا ہے۔ افسوس کہ 'را‘ کی سازشوں کو حکومت سنجیدگی سے نہیں لے رہی، اپنے بھارتی ہم خیال میڈیا پرسنز کے ذریعے 'را‘ کی سرگرمیوں کو اجاگر نہیں کر رہی۔ چند ماہ قبل بھارتی جاسوس کل بھوشن کو ہماری خفیہ ایجنسیوں نے گرفتار کیا تھا جس کے اعترافی بیان سے حکومت کو پاکستان کے خلاف کئی سازشوں کا علم ہو گیا تھا مگر اس کے خلاف ابھی تک کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی گئی اور معاملہ اِدھر اُدھر ہو گیا۔ باور کیا جاتا ہے کہ کراچی میں بھی 'را ‘ کے ایجنٹوںکی موجودگی کے بارے میں حکومت کے پاس مصدقہ شواہد موجود ہیں مگر ان کے خلاف بھی کوئی ایکشن ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ رینجرز بھی پس پردہ جاتی نظر آ رہی ہے۔ اب جس انداز سے حکومتی اتحادی فوج اور اس کے اداروں پر طنز کے نشتر چلا رہے ہیں اس سے 2012ء میں بھارت میں بننے والے ایک منظر کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔ اس وقت کے انڈین آرمی چیف کے ساتھ اس سے ملتا جلتا واقعہ پیش آیا تھا۔ ان کے چندی گڑھ میں ذاتی پلاٹ کے حوالے سے پارلیمنٹ، میڈیا، سپریم کورٹ اور ڈیفنس منسٹری سے تنازع کھڑا ہو گیا تھا۔ اسی دوران انڈین آرمی کی چند بٹالین روہتک اور جھانسی سے دارالحکومت دہلی کی طرف روانہ ہوئیں تو بین الاقوامی میڈیا میں سنسنی پھیل گئی کہ بھارت میں جمہوریت کی بساط لپیٹی جا رہی ہے۔ جب صورت حال واضح ہوئی تو بھارتی پارلیمنٹ نے فوراً آرمی چیف سے معذرت طلب کی، سپریم کورٹ نے بھی اپنے ریمارکس واپس لے لئے اور ڈیفنس منسٹری پسپا ہوگئی۔
بظا ہر لگتا ہے کہ پاناما لیکس ختم ہو چکا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کا ارادہ کمیشن بنانے کا نہیں ہے ۔ لگتا ہے کہ عمران خان، خورشید شاہ اور اعتزاز احسن اور اپنے کمزور ساتھیوں کے فریب میں آگئے ہیں۔ دوسری طرف حکومتی حکمت عملی کے تحت نیشنل ایکشن پلان بھی کاغذوں میں مدفون ہے۔ اس کی کسی ایک شق پر بھی اس کی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں ہوا۔ سانحہ کوئٹہ کے بعد تو آپریشن ضرب عضب کی ناکامی بھی حکومتی نا اہلی کی وجہ سے عیاں ہونے لگی ہے۔ کورکمانڈرز کانفرنسوں نے ہمیشہ نیشنل ایکشن پلان پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا، لیکن وزیر اعظم اور ان کا میڈیا سیل اسے جمہوریت کے خلاف سازش قرار دے کر اپنے ہم خیال میڈیا ہاؤسزکے ذریعے عوام میں ابہام پید ا کرتے رہے۔ آج عوام کے سوا کوئی سیاسی جماعت حقیقی معنوں میں افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی نظر نہیں آ رہی، سب سیاسی پارٹیوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ ہم جمہوریت کا مقدمہ لڑتے رہیں گے اور آمریت سے انکار کا پرچم بلند رکھیں گے کہ اس ملک میں حکمرانی کا حق صرف اور صرف عوام کے منتخب نمائندوں کو حاصل ہے؛ تاہم قوم کو اس بار سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ ہر الیکشن کے وقت امیدواروں کو ووٹ ڈالنے کے بعد یہ جمہوریت ہمارے لئے سوہان روح کیوں بن جاتی ہے۔ موجودہ سیاسی تناظر میں حکومت اور عسکری اداروں کی داخلی اور خارجی سوچ میں بڑا اختلاف ہے۔ زرداری حکومت اور نواز شریف کا موجودہ دور سیاسی اعتبار سے پاکستان کی تاریخ کے ناکام ترین ادوار ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے مقاصد حاصل کرنے میں رکاوٹ حکومت اور سیاسی رہنما ہیں۔ بھارتی حکومت اور لیڈر یہ سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان چین اقتصادی راہداری کامیاب ہوگئی تو کشمیر خود بخود پاکستان کے پاس چلا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے اپنے تمام ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان کی سالمیت پر حملہ کرا دیا ہے۔ اس ضمن میں بعض سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں اور میڈیا پرسنز کا کردار بے نقاب ہو گیا ہے۔ ملک کے بعض میڈیا ہائوسز پاکستان کے اس عظیم منصوبے کی ناکامی کے لئے سازشوں میں شامل ہیں۔ جبکہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت 21 نکاتی ایجنڈے کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ناکام بنا دیا ہے۔دوسری جانب کراچی میں جاری رینجرز کے کامیاب آپریشن کو بھی مذاق بناتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی کوششوں کو مفلوج کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کے قیام کی مخالفت کرنے والے آج پارلیمنٹ اور میڈیا میں جو اظہار خیال کر رہے ہیں، مشرقی پاکستان کے صف اول کے سیاستدان تو ان باتوں کا دسواں حصہ بھی نہیں کہتے تھے۔ اس ہرزہ سرائی پر حکومت کی خاموشی معنی خیز ہے۔
وزیر اعظم کی بھارت سے نرم پالیسی کی وجہ سے حکومت اور عسکری اداروں کی خارجہ پالیسی کے بارے میں وژن پر بڑا اختلاف پیدا ہو چکا ہے۔ پاکستان کے قیام سے آج تک اتنا بڑا تضاد کبھی پہلے دیکھنے میں نہیں آیا۔ گزشتہ پندرہ ماہ سے پاکستان میں سیاسی حکومت کے وجود کا دور دور تک نام و نشان نہیں مل رہا، نیشنل ایکشن پلان کا عملی فلسفہ جو 6 ستمبر 2015ء کو جنرل راحیل شریف نے پر وقار تقریب میں قوم کے سامنے پیش کیا تھا اس کا دور دور تک نشان نہیں مل رہا۔ وزیر اعظم نواز شریف کس سوچ کے تحت ملک کو چلانا چاہتے ہیں؟ ان کی حکمت عملی کا پر اسرار طریقہ کار انہی کے چند خاندانی ارکان کے سوا کسی کو علم نہیں۔ فوج ایک بڑا طاقتور ادارہ ہے، عوام کی سوچ یہ ہے کہ فوج ہی ملک کو بچائے گی۔ نواز شریف تیس برس سے سیاست میں ہیں لیکن وہ سیاست کی بنیادی اصولوں کو ابھی تک نہیں سمجھ پائے، انہیں حکمرانی کا طریقہ نہیں آتا، یہ کاروبار کی طرح سیاست کو بھی کاروبار ہی سمجھتے ہیں اور حکومت کاروباری انداز سے چلاتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں حکومت کی اتحادیوں نے اپنے سخت کلامی کے شعلوں سے اپنے پیچھے انمٹ داغ چھوڑ دیے ہیں کیونکہ راز کھل جانے کے خوف کے شکار افراد مستقبل میں جھانکنے کی بجائے ہمیشہ ماضی کے قیدی بن کر رہ جاتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں