"KDC" (space) message & send to 7575

عوام کی توجہ ہٹانے کی مہم

امانت میں خیانت، جھوٹ، اقربا پروری، سفارش، پر تعیش طرز حیات، قوانین کی پامالی اور انسانی جانوں کی ارزانی ایسے مہلک امراض ہیں جو کسی بھی قوم یا ملک کو لاحق ہو جائیں تو اس کی بقا سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔ جب قائد اعظم کے وژن کی بات کی جاتی ہے تو ایک ایسے واقعہ کو بڑی حد تک نظر انداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو ہمارے وجود کی اہم وضاحت ہے۔ میرا اشارہ پاکستان کے دو لخت ہونے کے صدمے سے نظریں چرانے کی جانب ہے۔1971ء میں مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا اس کی صحیح اطلاعات ہمارے عوام تک نہ پہنچ سکیں اور سقوط کا سانحہ ہو گیا۔ قوم کے سامنے اس عظیم شکست کا کوئی گہرا تجزیہ بھی پیش نہ کیا گیا۔ چند روز بعد ذوالفقار علی بھٹو نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرکی حیثیت سے چاروں صوبوںکو نئے پاکستان سے منسوب کر دیا، تاریخ کے نصاب سے مشرقی پاکستان کا باب حذف کروا دیا اور اس سانحہ کے بعد ہماری سیاست، معیشت، ثقافت اور قومی شناخت تبدیل ہو گئی۔ عظیم تر پاکستان کی بنیاد 14 اگست 1947ء کو پڑی اور قائد اعظم کا یہ پاکستان 16 دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں دفن ہو گیا۔ نئے قائد عوام نے 20 دسمبر 1971ء کو نئے پاکستان کی تشکیل کر دی۔ نام نہاد صدر مملکت اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو نے نئے پاکستان کے دستور میں قائد عوام کی تخلیق کے لئے آئین کے شیڈول میں درپردہ گنجائش رکھنے کی کوشش کی تھی جسے میاں محمود علی قصوری نے ناکام کرا دیا۔ اسی طرح پاکستان کا جھنڈا اور قومی ترانہ بھی بھارتی لابسٹ کے اصرار پر تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ میں ان دنوں وزارت اطلاعات و نشریات میں تھا، جب مجھے بھنک پڑی کہ مولانا کوثر نیازی اس خفیہ مشن پر کام کر رہے ہیں اور قومی ترانہ نیا لکھوانے کے لئے وطن فروش شعراء کی خدمات حاصل کر لی گئی ہیں تو میں نے صحافت کے مرد آہن اور روزنامہ جسارت کے چیف ایڈیٹر مولانا صلاح الدین کو اعتماد میں لے کر ان ریشہ دوانیوں سے آگاہ کیا۔ انہوں نے روزنامہ جسارت میں سخت ترین الفاظ میں اداریہ لکھ کر حکومت کا یہ شر انگیز منصوبہ ناکام بنا دیا۔
قوم سانحہ مشرقی پاکستان کو 20 دسمبر1971ء کو ہی اس وقت فراموش کر بیٹھی تھی جب لاڑکانہ اور لاہور میں جشن اقتدار منایا جا رہا تھا۔ صاحبزادہ یعقوب خان نے16 دسمبر2012 ء کو ایوان قائد اسلام آباد میں آف دی ریکارڈ بڑے دکھ، اضطراب اور صدمے کی کیفیت میں کہا تھا کہ قائد اعظم کا پاکستان16 دسمبر1971ء کو تاریخ سے محو ہو گیا تھا۔ قوم کو اب جاگ کر اور اپنے حواس پر قابو رکھ کر اپنی تاریخ کی سچائیوں کا کھوج لگانا چاہئے کیونکہ ہم 1971ء کو نظر میں رکھے بغیر پاکستان کے وژن اور اس کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد ہماری شناخت محدود ہوکر جنوبی ایشیا تک ہی رہ گئی ہے، ہمیں جنوبی ایشیا سے روسی وزیر اعظم 
کوسیگن نے مارچ 1972ء میں ہی منسلک کرا دیا تھا کیونکہ ہم مشرق وسطیٰ کے عرب معاشروں سے مختلف ہیں، ہم ایران ہیں نہ ترکی اور انڈونیشیا تو مشرق بعید میں ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان سے پیشتر پاکستان مشرق بعید کے ممالک تک پھیلا ہوا تھا۔ بقول کوسیگن اب ہماری تاریخی، ثقافتی، رسوماتی اور نفسیاتی جڑیں جنوبی ایشیا میں ہیں اور یہ تھیوری 1971ء کے بعد حقیقت کے عین مطابق ہے۔
پاکستان اپنی تاریخ ، جغرافیہ اور ثقافت کے ساتھ تیسری دنیا کا ایک پسماندہ ترین ملک ہے، یہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور اسی پس منظر میں جنرل راحیل شریف نے سکیورٹی اداروں کو ہدف تنقید بنانے پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ غیر مناسب بیانات قوم کے عزم کو دہشت گردی کے خلاف کمزورکرنے کے مترادف ہیں۔ 20 سے 30 اگست تک جو احتجاجی تحریک شروع کرنے کا عندیہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان نے دیا ہے اس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنے ریٹائرڈ پولیس اہلکاروں کے ذریعے نمٹنے کا پروگرام بنا رہی ہے۔ پولیس کے وہ اہلکار جن کی سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے تحت تنزلی کر دی گئی ہے وہ پنجاب حکومت کو بلیک میل کر کے اپنی طاقت وزیر اعلیٰ سے منوانے کی در پردہ کوشش کر رہے ہیں۔ اسی طاقت کے ذریعے ان دنوں پنجاب اور بالخصوص اس کے بڑے شہروں میں سٹریٹ کرائمز بڑھ رہے ہیں۔ بچوں کے اغوا کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ عسکری ایجنسیوں کو ان حالات کا دراک ہونا چاہیے کہ جب سے سپریم کورٹ کے حکم پر حکومت کے پسندیدہ پولیس افسروں کی تنزلی ہوئی ہے پنجاب میں امن و امان کی صورت حال سنگین تر ہوتی جا رہی ہے۔ 
کور کمانڈرز، نیشنل ایکشن پلان پر اپنے تصورات رکھتے ہیں۔ حکومت نے بڑی حکمت عملی کے تحت نیشنل ایکشن پلان کی ٹاسک فورس کا کمانڈر جنرل ناصر جنجوعہ کو بنا کر عسکری قوتوں کے اختیارات کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی کچن کیبنٹ کو نیشنل ایکشن پلان اور ضرب عضب سے دلچسپی نہیں ہے، ان کی نگاہ اب نئے چیف آف آرمی کے تقرر پر لگی ہوئی ہے۔ اس پالیسی کے تحت حکومت نے روزنامہ ڈان میں 14 اگست کو آرمی چیف کے جانشین کے حوالے سے سنسنی خیز خبر شائع کرا دی تھی۔ اس طرح انہوں نے آرمی چیف کی کمان میں ہلچل مچانے کی کوشش کی۔
قوم کے ساتھ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کا وعدہ جنرل راحیل شریف نے 6 ستمبر 2015 ء کو اپنے پر عزم خطاب میں کیا تھا۔ نیشنل ایکشن پلان پر پیش رفت نہ ہونے کے سبب آپریشن ضرب عضب متاثر ہوا ہے۔ایکشن پلان پر من و عن عملدرآمد نہ کرنے کی ذمہ داری پوری نہ کرنے پر جنرل راحیل شریف کو چاہیے کہ وہ صدر مملکت کو ریفرنس بھجوائیں۔ قوم توقع کر رہی ہے کہ افواج پاکستان کو آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کوئی بڑا قدم بھی اٹھانا پڑے تو وہ اس سے دریغ نہ کرے اور 1980ء کی دہائی میں عظیم قومی مفادات کے منافی جو قدم اٹھائے گئے تھے ان کا ہمیشہ 
کے لئے ازالہ کر دیا جائے۔ آئین پاکستان اس مقصد کے لئے مکمل تحفظ دیتا ہے۔کچھ عناصر جمہوریت کے نام پر افواج پاکستان کے خلاف 
کام کر رہے ہیں، وہ بھارت کے حق میں ہیں۔ اسی ٹولے کے اہم فرد نے ملک کے ایک بڑے اخبار میں 14 اگست کو اپنے کالم میں افواج پاکستان کے خلاف کھلم کھلا اظہار کرتے ہوئے 1948ء سے 1965ء اور 2016ء تک کے تمام واقعات افواج پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے یوں گویا ہوئے: ''جب تک پاکستان اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن کے ساتھ نہیں رہے گا اسے داخلی طور پر امن نصیب نہیں ہوگا‘‘۔ آگے چل کر یہی دانشور فرماتے ہیں کہ ''پاکستان انڈیا کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا، اب جواب دینے کی باری بھارت کی ہے، اب وہ ناراض مہاجر اور بلوچ عناصر کے ذریعے ہمارے ساتھ حساب برابر کر رہا ہے‘‘۔ اور آگے چل کر فرماتے ہیں کہ ''اس تناظر میں نیشنل ایکشن پلان کام نہیں دے سکتا اور ضرب عضب میں نمایاں کامیابی نظر نہیں آتی‘‘۔ اسی پس منظر میں بھارتی وزیر اعظم نے 15اگست کو بھارتی یوم آزادی کی تقریب میں بلوچستان میں مداخلت کی تائیدکی۔ میرے خیال میں تو نیشنل ایکشن پلان کے اہداف میں یہ بھی شامل ہے کہ ایسے اشخاص کو دہشت گردی کے تحت گرفتار کیا جائے اور ایسی گفتگو جو دہشت گردی کے مفاد میں ہو اسے قابل سزا قراد دیا جائے۔ مگر ہماری وفاقی حکومت کے لئے اس پر عمل کرنا کیسے ممکن ہے۔ فوجی عدالتوں کا قیام بھی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ تھا مگروفاق اورصوبوں کی طرف سے ان عدالتوں میں اتنے کم کیس بھیجے گئے کہ یہ عدالتیں ویران ہی رہیں، ان عدالتوں میں ابھی تک صرف انہی دہشت گردوں کو سزائیں ملی ہیں جنہوں نے ہمارے فوجی نوجوانوں یا ان کے بچوں کو ٹارگٹ کیا تھا۔ چنانچہ یہ بات خود آرمی چیف کو کہنا پڑی کہ نیشنل ایکشن پلان ناکام رہا۔ ان حالات میں میگا کرپشن کی وجہ سے اقتصادی حالت تباہ ہو گئی ہے۔ جب تک کرپشن قوم کے رہنماؤں میں سرایت نہیں کر پائی تھی قوم فرد واحد کی طرح متحد تھی۔ حکمران اب اپنی کرپشن کو بچانے کے لئے نیشنل ایکشن پلان کو مزید آئینی حیثیت دینے اور تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ہم چاروں طرف سے خطرات میں گھرے ہوئے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ اس مہلک خانہ جنگی کو روکا جائے جو پاکستان کی بقا کے لئے چیلنج بن گئی ہے۔ عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے بیانات مدد گار ثابت نہیں ہوں گے، میڈیا کے بعض اینکر پرسنز کو دہشت گردوں کا سہولت کار قرار دے کر ان کے خلاف مقدمات دائر کئے جائیں۔ جنرل ناصر جنجوعہ کو افواج پاکستان کی تضحیک کرنے والے عناصر پر نگاہ رکھتے ہوئے وزیر اعظم کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ آرمی چیف کے جانشین کی مہم چلانے سے گریز کرنا چاہیے، مقررہ وقت کا انتظار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں