"KDC" (space) message & send to 7575

نا اہلیت کی دہلیز پر!

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم نواز شریف ، شہباز شریف، اسحاق ڈار، کیپٹن (ر) صفدر اور حمزہ شہباز کے حوالے سے نا اہلیت کے ریفرنسز پر شریف خاندان کے تمام ارکان پارلیمنٹ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 6 ستمبر کو جواب طلب کر لیا ہے، اپوزیشن کا کہنا ہے کہ جب پاناما لیکس کے تحت آف شور کمپنیاں بنائی گئیں اور 1990ء اور 1993ء میں کاغذات نامزدگی داخل کرائے گئے اس وقت حسن نواز اور حسین نواز اور مریم نواز کم عمر تھے اور ان کو زیر کفالت کے طور پر دکھایا گیا تھا اور اسی طرح 2013 ء کے انتخابات کے وقت نواز شریف اور شہباز شریف چھ ارب روپے کے نادہندہ تھے اور نواز شریف نے الیکشن کمیشن سے اثاثے چھپائے جس پر انہیں نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے! بادی النظر میں وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف جو ریفرنسز داخل کئے گئے ہیں ان کے ہمراہ ٹھوس بنیادوں پر ثبوت بھی فراہم کئے گئے ہیں اور وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے دیگر خاندان کے ارکان کی جانب سے جب ریفرنسز کے حوالے سے جوابات موصول ہوں گے تو پنڈورا بکس کھل جائے گا اور اس کے لئے عملی طور پر اپوزیشن جوابی ثبوت فراہم کرے گی۔ قوانین کے تحت الیکشن کمیشن ان شخصیات کو امانت میں خیانت کے جرم میں نا اہل قرار دینے کی پوزیشن میں ہے کیونکہ عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 104 کے تحت الیکشن کمیشن کو اختیارات حاصل ہیں، جس میں واضح طور لکھا ہوا ہے کہ عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کے قوانین کی خلاف ورزیاں کی گئی ہوں تو الیکشن کمیشن از خود کاروائی کرنے کا مجاز ہے، ہمارے بعض دانشور ، صحافی، اینکر پرسن
تاویلات پیش کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم کو نا اہل قرار دینے کے لئے قوانین خاموش ہیں ، ان کی رہنمائی کے لئے عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 104 روشنی کا مینار ہے۔ آنے والے دن وزیر اعظم کے لئے پریشان کن ہو سکتے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف بے قاعدگیوں، بے ضابطگیوں اور میگا کرپشن کے حوالے سے الزامات کے انبار لگ جائیں گے ۔ الیکشن کمیشن کو اپنی غیر جانبداری آئین کے آرٹیکل 218 کے تحت بچا نے کے لئے راست قدم اٹھانا پڑے گا۔ اسی طرح انڈین سپریم کورٹ نے اپنے ایک تاریخی فیصلے میں واضح کیا ہے کہ عوامی عہدہ رکھنے والی حکومتی شخصیات پر کرپشن کے الزامات عائد ہو جائیں تو متعلقہ ادارے ان کو معطل کرنے کے مجاز ہیں، جب تک وہ ان الزامات سے بری الذمہ نہیں ہو جاتے۔ سپریم کورٹ کے اسی فیصلے کی روشنی میں انڈیا کے وزیراعظم نر سما راؤ پر جب ان کے بیٹوں کے حوالے سے کرپشن کے الزامات لگائے گئے تو وہ مستعفی ہو گئے تھے اور جب متعلقہ عدالتوں اور انڈین کریمنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے ان کو کلین چٹ فراہم کر دی تو انہیں دوبارہ لیڈر آف دی ہاؤس منتخب کیا گیا۔ ہمارے وزیر اعظم بھارتی روایات اور رسم و رواج سے متاثر ہیں تو انہیں بھی اپنے عہدے سے با عزت مستعفی ہو جانا چاہئے اور الیکشن کمیشن اور سپیکر کو غیر جانبدارانہ طور پر اور کسی دباؤ کے بغیر آزادانہ انکوائری کرنے کے لئے راہ ہموار کرنی چاہئے۔
وزیراعظم نواز شریف کے اس فیصلے سے ان کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوگا اور تمام الزامات سے بری ہونے کے بعد وہ چوتھی مرتبہ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال سکتے ہیں اور آئندہ انتخابات کے لئے بھی ان کی پارٹی ریکارڈ کامیابی حاصل کر سکے گی۔
سردار ایاز صادق سپیکر قومی اسمبلی کو پارلیمانی تاریخ کی ایک منفرد صورت حال کا سامنا ہے، کیونکہ انہیں کوئی اور نہیں بلکہ ایک طرف وزیر اعظم نواز شریف اور دوسری جانب عمران خان کے خلاف نا اہلی کے ریفرنسز وصول ہو چکے ہیں۔ سپیکر کو ریفرنسز 5 اگست کو موصول ہوئے اور انہیں 4 ستمبر تک ان ریفرنسز کے بارے میں فیصلہ کرنا ہے، نااہلیت کے لئے رولنگ کی صورت میں وہ الیکشن کمیشن سے سفارش کریں گے، اگر وہ کوئی فیصلہ نہ کر پائے تو معاملہ آئین کی روسے از خود الیکشن کمیشن کو چلا جائے گا، جہاں ایسی ہی نوعیت پر مبنی ریفرنسز پہلے ہی سے زیر التواء ہیں، ان ریفرنسز اور درخواستوں کے نتائج ہائی کورٹ میں چیلنج اور اپیلیں سپریم کورٹ میں دائر کی جا سکتی ہیں، لہٰذا قوم سردار ایاز صادق کی تاریخی رولنگ کی منتظر ہے۔ پس پردہ آصف علی زرداری اور اسحاق ڈار کی چھ گھنٹوں سے زائد ملاقات کی بھی بڑی اہمیت حاصل ہے اور اسی تناظر میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری وزیراعظم نواز شریف کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کے لئے ان کے وکلاء پارلیمنٹ ہاؤس کے ارد گرد چکر لگا رہے ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی معروضی حالات کے تحت ان سے ریفرنس موصول کرنے کی کاروائی سے گریزاں ہیں۔ لہٰذا چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کو چاہئے کہ وہ خود ذاتی طور پر سپیکر قومی اسمبلی کے ہاں دستاویزات کے ہمراہ چلے جائیں، جس انداز سے انہوں نے 13 مارچ 2007 ء کو اپنے گھر سے سپریم کورٹ جوڈیشل کمیٹی میں پیش ہونے کے لئے اپنی اہلیہ محترمہ کے ہمراہ سپریم کورٹ جا رہے تھے اور اس وقت کی حکومت نے انتہائی غیر شائستگی سے ان کی راہ میں رکاوٹ ڈالی تھی تو عوام ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے تھے اور وکلاء تحریک آگے کی طرف بڑھتی چلی گئی، لہٰذا چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری اپنے وکلاء کے ہمراہ سپیکر قومی اسمبلی کے رو برو پیش ہو جائیں! کیونکہ چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کا تیار کردہ ریفرنس اپوزیشن کی جانب سے دائر کردہ ریفرنسز سے زیادہ فعال، موثر ، حقائق کے عین مطابق اور آئین و قوانین کے مطابق تیار کیا گیا ہے اور ان کے ریفرنسز پر اپنے رد عمل کے لئے سپیکر قومی اسمبلی کو بڑی محنت و کاوش کرنی پڑے گی اور ان کو پس پردہ یا سرد خانے کی نذر کرنا مشکل ہو گا، وزیر اعظم نواز شریف ان کے ہی ریفرنسز کی رو سے اپنی نااہلیت کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں ۔
اگر نا اہلیت کے فیصلے میرٹ پر ہونے لگیں تو پارلیمنٹ کے 70 فیصد سیاستدان نا اہل ہو جائیں گے کیونکہ انہوں نے اپنے اثاثہ جات حقائق کے مطابق داخل نہیں کئے ہیں، موجودہ الیکشن کمیشن غیر جانبدار ارکان پر مشتمل ہے، یہ بڑی دانشمندی سے مملکت پاکستان کے مفاد میں فیصلے کریں گے، ریفرنس میں پیش کئے گئے ثبوتوں کی تصدیق ایف بی آر، نیب اور ایف آئی اے سے کروائی جا سکتی ہے، الیکشن کمیشن اپنی معاونت کے لئے علیحدہ کمیشن مقرر کر سکتا ہے جس کی سربراہی شعیب سڈل کو دی جا سکتی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے پارلیمنٹ کے فلور پر خودکو احتساب کے لئے پیش کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن چونکہ ہمارے سیاستدانوں کے قول و فعل میں تضاد پایا جاتا ہے اورنیتوں میں فتور ہونے کی وجہ سے وہ خود اعتمادی سے محروم ہیں۔ وزیر اعظم کے مشیروں اور وزیروں نے اُن سے فوائد حاصل کرنے کے لئے اُنہیں گھبراہٹ اور بند گلی میں کھڑا کر تے ہوئے معاملات کو سنگین تر کر دیا ہے، اس وقت سپیکر قومی اسمبلی، الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ پر بہت زیادہ دباؤ بڑھ گیا ہے ، وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کے فلور پر ٹی او آر بنانے کا وعدہ کیا تھا اس پر من و عن عمل کرتے تاکہ سپریم کورٹ کی سربراہی میں انکوائری کمیشن اپنی تحقیقات شروع کر دیتا اور چند ہفتوں میں ہی پاناما لیکس پر فیصلہ آ جاتا۔ ملک غیر ضروری محاذ آرائی سے بھی محفوظ رہتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں