"KDC" (space) message & send to 7575

حالات کا رخ تبدیل ہو رہا ہے!

ڈاکٹر طاہر القادری نے حکومت پر دباؤ بڑھاتے ہوئے یہ اعلان کر کے کہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے قصاص اور انصاف کی جنگ اب شاہراہوں پر لڑی جائے گی،در اصل وزیر اعظم نواز شریف کو اقتدار میں لانے والی خفیہ قوتوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ان کے بقول وہ جانتے ہیں کہ نواز شریف کے عہد اقتدار میں پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمن اپنی سازشوں کا جال پھیلا چکے ہیں۔ حکمران پاکستان کو ناکام ریاست قرار دلوانے کی راہ پر گامزن ہیں، وہ 30 ہزار ارب روپے سے زائد کا قرضہ حاصل کر چکے ہیں اور اگر مزید قرضوں کا بوجھ ڈالا گیا تو ورلڈ بینک کے قواعد و ضوابط کے مطابق پاکستان کو دیوالیہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ موجودہ حکمرانوں کو بر سر اقتدار لانے میں امریکی تھنک ٹینک کی دلچسپی نہیں تھی، ان کی زیادہ توجہ بے نظیر بھٹو کو قومی انتخابات 2008ء میں شمولیت کے لئے پاکستان بھجوانے پر تھی۔ اسی طرح صدر پرویز مشرف کی حکومت جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کی معطلی کے بعد لرزہ اندام ہو چکی تھی۔ جسٹس افتخار اور دیگر ججوں کو بحال کرانے کی تحریک کے پس پردہ انڈین 'را‘ نے پاکستان میں غیر سرکاری تنظیموں سے رابطہ قائم کر رکھا تھا۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اعلیٰ عہدیداران سے میری اکثر ملاقات رہی، انہوں نے صدر پرویز مشرف کے قریبی ساتھیوں کو یرغمال بنا رکھا تھا جن کے ذریعے این آر او طے ہوا۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت بھی حکمرانوںکا اقتدار بچانے کی جنگ لڑ رہا ہے۔ بھارت نے حکمرانوں کو اقتدار میں لانے کے لئے چار سال سرمایہ کاری کی۔ انہوں نے عسکری قیادت کو بھی امتحان میں ڈال دیا ہے کہ اگر ان کا الزام درست نہیں ہے تو قومی سالمیت کے ادارے اس الزام کی تردید کریں۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف جو ریفرنس دائر کیا ہے اس میں 62,63 (2) کے ساتھ ساتھ انہوں نے وزیر اعظم کی حب الوطنی کو چیلنج کرتے ہوئے ان کے خلاف آرٹیکل 5 کے تحت بھی کارروائی پر زور دیا ہے۔
ملک شدید بحران کی طرف بڑھ رہا ہے اور قوم سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ ان حالات میں اگر کوئی آئین سے ماورا کوئی سانحہ پیش آگیا تو پھر آئینی ادارے بھی برابر کے ذمہ دار ہوں گے جن میں الیکشن کمیشن آف پاکستان، احتساب بیورو اور نادرا شامل ہیں۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ اپوزیشن کے سامنے سر نہیں جھکائیںگے۔ پاکستان میں کوئی بھی اپنے وزیر اعظم کا سر جھکا نہیں دیکھنا چاہتا بشرطیکہ وہ میگا کرپشن میں آلودہ نہ ہو۔ اپوزیشن کی تحریک کا حتمی اور منطقی نتیجہ ستمبر میں متوقع ہے جس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان اپنی حکمت عملی کس طرح بناتے ہیں۔ میاں نواز شریف کو دباؤ میں لاکر ان ہاؤس تبدیلی ان کا سب سے بڑا پروگرام ہے اور کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے بغیر وزیر اعظم کی موروثی حکومت کا فیصلہ ریفرنسز کے ذریعے ہی ہو جائے گا۔ میں نے چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کے دائرکردہ ریفرنس کاگہری نظرسے مطالعہ کیا ہے اور اس کی جامع کاپی بھی میرے پاس موجود ہے۔ اس ریفرنس کے گرداب سے وزیر اعظم کا بچنا محال ہوگا۔ ایسے ٹھوس، جامع اور ناقابل تردید حقائق کے باوجود ہمارے آئینی ادارے ان کو محفوظ راستہ دیں گے تو پھر آئین سے قوم کا اعتماد اٹھ جائے گا اور آئندہ انتخابات ان اداروں کے ذریعے کروانے کا نتیجہ ملک میں خانہ جنگی، انتشار اور شدید رد عمل کی صورت میں نکلے گا۔ ستمبر میں جو آئینی بحران سامنے آ رہا ہے، سپیکر قومی اسمبلی ریفرنسز الیکشن کمیشن کو بھجوا دیں گے جبکہ کمیشن ان ریفرنسز کا فیصلہ 90 روز سے بھی پہلے کر سکتا ہے۔ عمران خان کا سپریم کورٹ میں آئینی پٹیشن دائر کرنے کا ارادہ تھا۔ ان کی آئینی و قانونی ماہرین نے اگرچہ یہ پٹیشن بڑی محنت سے حقائق کے مطابق تیار کر رکھی ہے، تاہم میں نے عمران خان کو اس سے گریز کا مشورہ دیا تھا سوائے اس صورت میں کہ الیکشن کمیشن سے کوئی منفی فیصلہ آجائے۔ عمران خان تمام اسمبلیو ں اورسینیٹ سے احتجاجاً مستعفی ہو جائیں اور خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کر کے فروری2017 ء کے سینیٹ کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیں۔ اسی ضمن میں عمران خان کو پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور اپنے دوسرے اتحادیوں سے سخت گیر اقدامات کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ آصف علی زرداری اپنے مفادات اور بین الاقوامی شطرنج کے کھلاڑیوں کے کہنے پر نواز شریف کا ساتھ دیں گے اور اعتراز احسن کو سائڈ لائن پرکھڑا کر دیں گے۔ علاوہ ازیںخورشید شاہ، عمران خان کے ساتھ جو کھیل کھیل رہے ہیں‘ اس سے پاکستان پیپلز پارٹی کا وجود پنجاب سے ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔
اب ایم کیوایم کے حوالے سے جو نئی صورت حال 23 اگست کو اچانک سامنے آئی ہے اس کا پس منظر اپنی جگہ، اس کی وجہ سے مستقبل کی صورت حال بھی قدرے پریشان کن نظر آتی ہے۔ ملک کی سلامتی اور بقا کے خلاف نعرہ لگا دیا گیا ہے، اس ضمن میں پاکستان میں جو بھی اقدامات ہوں گے اس کا جوابی اقدام ایم کیو ایم کے ان ارکان کی طرف سے ہو گا جو امریکہ ، برطانیہ اور کینیڈا میں مقیم ہیں۔ اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ نیو یارک، واشنگٹن، ٹورنٹو،شکاگو اور دیگر شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوںگے۔ پاکستان اور افواج کے خلاف شر انگیز، فتنہ پرور تقریر کے بعد الطاف حسین کی تحریری معذرت سے صورت حال بہتر ہونے کی اگر کوئی گنجائش پیدا ہونے کی امید تھی تو اسی رات پھر امریکہ، برطانیہ اورکینیڈا میں اپنے کارکنوں سے خطاب میں انہوں نے پہلے سے زیادہ جوش و خروش، نفرت، شر انگیزاور باغیانہ انداز میں مملکت اور فوج کے بارے میں جو کچھ کہا وہ پہلے سے بھی زیادہ خطرناک تھا۔ یہ اسرائیل، بھارت، امریکہ اور برطانیہ سے پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دلوانے کی سازش ہے۔ بیرون پاکستان سے ملک کی بقا کے خلاف نعروں سے آگے بڑھ کر کام کرنے کی ہدایات دے دی گئی ہیں۔ اس صورت حال کا مقابلہ حقائق کو چھپانے کی بجائے آئین کے آرٹیکل 17 کے مطابق کارروائی کا متقاضی ہے۔ حالات کا رخ تبدیل ہو رہا ہے، عسکری قیادت نے اپنے تحفظات وفاقی حکومت کو پہنچا دیے ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف مملکت سے بغاوت کے خلاف آئینی کارروائی کی جائے، لہٰذا اسی پس منظر میں فاروق ستار کی قیادت میں ایم کیو ایم نے الطاف حسین سے فاصلہ اختیار کر لیا ہے۔ کچھ لوگوں کی نظر میں یہ نقصان پر قابو پانے کی حکمت عملی تھی تاکہ پارٹی کو موجودہ مشکلات سے نکالا جا سکے، کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ الطاف حسین کے خلاف بغاوت ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ الطاف حسین کے بیان نے ایم کیو ایم پاکستان اور لندن کے درمیان شدید اختلافات پید ا کر دیے ہیں یا یہ بین الاقوامی کھلاڑیوں کی گہری سازش ہے۔ اس سنگین صورت حال کے باوجود کراچی اور سندھ کے بلدیاتی ادارون کے سربراہوں کے انتخابات پر امن طریقے سے منعقد ہو گئے۔ وسیم اخترکو کاغذوں پر تو حقوق مل جائیں گے لیکن شاید صوبائی حکومت انہیں کام نہیں کرنے دے گی۔ ان حالات میں وسیم اختر کو اپنے جذبات پر کنٹرول رکھنا پڑے گا اور وزیر اعلیٰ سندھ کے ساتھ سیاسی اور انتظامی مشاورت کرنا ہوگی، ویسے بھی وسیم اختر نے رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل سے خوشگوار تعلقات کا عندیہ دیا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا جاتا ہے تو پھر متحدہ قومی موومنٹ کے وکلا سابق صدر آصف علی زرداری کے ریمارکس، عزیر بلوچ کے شہادتی بیانات اور ڈاکٹر عاصم حسین کے اعترافی بیانات پر مبنی وڈیو بھی عدالت میں پیش کریں گے۔ وزیر اعظم نے بھارتی لابسٹ کے فورم پر بھارت سے تعلقات کے بارے میں جس طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پاک بھارت سرحد کو معمولی سی لکیر قرار دیا تھا سب معاملات سپریم کورٹ میں پنڈورا بکس کی طرح کھلتے جائیں گے۔ الطاف حسین کی تیس سالہ سیاسی لائحہ عمل سے کراچی معاشی طور پر ڈوبتا چلا گیا اور دبئی عروج پر جاتا رہا۔ خدشہ ہے کہ پشت پر دبئی کے سرمایہ کاروں کا خفیہ ہاتھ تھا کہ کراچی کو معاشی طور پر کمزور کر کے سرمایہ دبئی منتقل کروایا جائے۔ اس حکمت عملی کے پس منظر میں عرب اور بھارتی سرمایہ کار بھی بروئے کار ہیں۔
ملک شدید بحران کی طرف بڑھ رہا ہے، ان حالات میں سیلانی ویلفیئرانٹرنیشنل ٹرسٹ کے بانی مولانا محمد بشیر فاروق قادری جو فقیر منش انسان ہیں اور ملک و قوم کی ترقی کے لئے تنہا نکلے تھے ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہر صاحب حیثیت کا فرض ہے۔ انہوں نے مجھ سے ملاقات کے دوران بتایا تھا کہ ملک چند مہینوں میں خوش آئند منزل کی طرف بڑھنا شروع ہو جائے گا اور تمام آلودگی ختم ہو جائے گی۔ انشاء اللہ حضرت مولانا محمد بشیر فاروق قادری کی دعاؤں سے ملک میں امن آجائے گا۔ واضح رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کے آئین کی پارلیمنٹ سے توثیق کرانے کے بعد حضرت بابا ذہین شاہ تاجی سے دعا کروائی تھی جو پارلیمنٹ کے ریکارڈ میں موجود ہے، ان کی دعاؤں سے ملک کا متفقہ آئین تمام طوفانوں کے باوجود ابھی تک محفوظ ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں