"KDC" (space) message & send to 7575

وسیم اختر کو قومی دھارے میں لائیں !

الطاف حسین کی جانب سے پاکستان مخالف اشتعال انگیز تقاریر اور ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی پاکستان کا اس سے لا تعلقی اور اپنے الگ تشخص کا اعلان، پارٹی کے مستقبل کے بارے میں شکوک و شبہات اور ابہامات کو تاحال دور نہیںکر سکا۔ ڈاکٹر فاروق ستار، الطاف حسین کی تقریرکو ذہنی تنائوکا قرار دیتے ہیں لیکن چند گھنٹوں کے وقفے کے بعد انہوں نے امریکہ اور جنوبی افریقہ میں قائم پارٹی کی شاخوں سے ٹیلی فونک خطاب میں 22 اگست کو کراچی کے خطاب سے بھی زیادہ زہر میں بجھی ہوئی باتوںکا اعادہ کر دیا۔ علاوہ ازیں ایم کیو ایم کی پاکستان اور لندن کی رابطہ کمیٹیوںکے متضاد بیانات نے معاملہ سنگین بنادیا۔ بادی النظر میں یوں نظر آتا ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستارکی ایم کیو ایم، الطاف حسین ہی کے احکامات اور توثیق کی پابند ہوگی، جس کا نصب العین وہی ہے جسے وہ اپنی تقریروں میں بار بار دہرا رہے ہیں۔ الطاف حسین افغانستان، بھارت، برطانیہ، اسرائیل اور امریکہ کے گلوبل آرڈرکے ایجنڈے پرکام کرتے ہوئے پاکستان کی قومی سلامتی کے لئے خطرات کی گھنٹی بجا رہا ہے، اس طرح الطاف حسین اور شیخ مجیب الرحمن کے درمیان مشاہبت پائی جاتی ہے۔ جس طرح مغربی پاکستان کا طاقتور میڈیا شیخ مجیب الرحمن کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کئے ہوئے تھا، اسی انداز میں اب ایم کیو ایم کو بند گلی میں کھڑا کرنے کی مہم جاری ہے۔ الطاف حسین کے خلاف آرٹیکل 6 سے زیادہ پاکستان ایکٹ 124سود مند ہے جو ریاست سے بغاوت کے زمرے میں آتا ہے اور جس کی سزا موت ہے۔ الطاف حسین کے خلاف اسی ایکٹ کے تحت بغاوت کا مقدمہ درج کر کے برطانوی حکومت کو آگاہ کر دینا چاہئے۔ الطاف حسین کے چونکہ 'را‘ سے روابط کے ثبوت حکومت کے پاس موجود ہیں، لہٰذا اقوام متحدہ سے رجوع کرنا چاہئے۔ الطاف حسین نے جوکچھ کہا وہ لرزہ خیز تھا۔ انہوں نے برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے نام خط میں دیگر امور کے علاوہ آئی ایس آئی کو تحلیل کرنے کے لئے برطانوی حکومت کو اپنی خدمات پیش کی تھیں۔
آئین کے آرٹیکل 65 کے تحت وزیر اعظم اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے الطاف حسین کے خلاف فوجداری مقدمہ124 ایکٹ کے تحت درج کر وائیں کیونکہ آئین کا آرٹیکل 5 ہر شہری کو ریاست کا وفادار ہونے کا پابند کرتے ہوئے آئین اور قانون کی پابندی لازم قرار دیتا ہے۔ اسی طرح ریاست تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری اٹھاتی ہے۔ اب الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا ہے، ان کی پاکستان اور اس کے قوانین کے ساتھ وفاداری مشکوک ہے۔ یہ باتیں پہلے بھی ہوتی تھیں لیکن 22 اگست کے بعد الطاف حسین نے تمام حدیں عبورکر لی ہیں۔ الطاف حسین کو تشدد اور دہشت کا بھی نقیب سمجھا جاتا ہے۔ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ نفرت اور دہشت کے ذریعے اپنے زیر اثر حامیوں کی حمایت کو کنٹرول کرتے رہے ہیں۔ عسکری قیادت اور تمام سیاسی جماعتیں یہ سمجھتی رہیں کہ اردو بولنے والوںکو الطاف حسین سے بچانا ملک کے مفاد میں ہے لیکن کراچی، حیدر آباد اور میر پور خاص کے ووٹران کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے مہاجرین کو احساس عزت و قار اور اپنے حقوق کے لئے جنگ لڑنے کا درس اور حوصلہ دیا۔ لیکن 1995ء کی دہائی میں ان کے روابط 'را‘ سے استوار ہوگئے۔ اس وقت کی حکومتوں نے شرمناک حد تک نظریں چرائیں اور ان کو پھلنے پھولنے کا موقع دیتے رہے۔ اس دوران خود حکومتی ارکان کی بھارت سے تجارتی راہیں کھلتی گئیں اور بال ٹھاکرے ان کا پسندیدہ خاندانی دوست بن گیا۔ پاکستان کی تیس سالہ تاریخ گواہ ہے کہ بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف، آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی، مولانا فضل الرحمن اورکئی نامور سیاست دان نائن زیرو پر حصول اقتدار کے لئے حاضری دیتے رہے۔ پاکستان کے سیاسی، عسکری اور خفیہ ادارے
اچھی طرح آگاہ ہیںکہ 1990ء سے الطاف حسین نے کتنے جرائم کروائے، اجمل پہاڑی اورصولت مرزا نے کیا کیا اعتراف کیے، مصطفی کمال نے حیرت انگیز انکشافات کئے کہ اس جماعت کے 'را‘ سے قریبی تعلقات ہیں۔ ان کے عملی ثبوت اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے انکشافات کے باوجود ہماری حکومتیں مصلحت کا شکار رہیں، لیکن اب عسکری قیادت کو دو ٹوک فیصلہ کرنا ہوگا۔
الطاف حسین سے ان تیس برسوں میں جن شخصیات نے سیاسی و حکومتی فوائد حاصل کئے ان کے خلاف سہولت فراہم کرنے کے الزام میں مقدمات چلائے جائیں۔ ایم کیو ایم آئین کے آرٹیکل 17/2 کی زد میں آچکی ہے اور پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے آرٹیکل 15 اور 16 کے تحت بھی وفاقی حکومت کارروائی کرنے کی مجاز ہے۔ 
میری دانست میں الطاف حسین کی سزا پوری سیاسی جماعت کو دینا نقصان دہ ہوگا؛ تاہم الطاف حسین اور پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف بات کرنے والے ہر سیاستدان اور میڈیا پرسن کونشان عبرت بنانا چاہیے،مگر پورے طبقے کو اپنے خلاف کرنا درست نہیں ہوگا۔ اگرچہ الطاف حسین نے خود کو اور اپنی جماعت کو زندگی اور موت کے مسئلے سے دو چارکر دیا اور وہ سیاسی جماعتیں جو ایم کیو ایم کا خلا پر کرنے کے لئے بے تاب نظر آرہی ہیں، انہوں
نے مطالبات شروع کر دیے ہیںکہ ایم کیو ایم کو خلاف قانون قرار دیا جائے۔ الطاف حسین کاہذیان ایک ایسی جماعت کا مستقبل تاریک کئے دے رہا ہے جس کی عوام کے اندر جڑیں بھی ہیں اور اس کے وابستگان تعلیم یافتہ ہیں۔ ان کی قومی اسمبلی میں چوبیس اور سندھ اسمبلی میں باون نشستیں ہیں، سینیٹ میں اس کی چوتھی پوزیشن ہے اور لوکل باڈیزکے ادارے میں کراچی، حیدر آباد اور جزوی طور پر میر پور خاص ان کی گرفت میں ہے۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں کو اب احساس ہوا ہے کہ انہیں الطاف حسین اور پاکستان میں سے پاکستان کا انتخاب کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر فاروق ستار اورکراچی کے میئرکنور وسیم اختر کے انتہائی دانشمندانہ فیصلے نے پارٹی کی تنظیم نوکرنے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔کنور وسیم اختر نے کراچی کا میئر منتخب ہونے کے بعد حوصلہ افزا تقریرکی، تمام سیاسی طاقتوں اور عسکری اداروں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور اعلان کیاکہ ہمارے آبائو اجداد نے پاکستان بنایا ہے، ہم پوری توانائی سے پاکستان کے استحکام اور وقار میں اضافہ کریںگے۔ واضح رہے کہ کنور وسیم اختر کے حقیقی چچاکنور انور علی 1950ء سے 1957ء تک کراچی کے ایس پی رہے۔ ان دنوں کراچی کا ایک ہی ایس پی ہواکرتا تھا۔کنور انور علی کو مبینہ طور پر ناہید سکندر مرزا نے قتل کروا دیا تھا کیونکہ کنور انور نے قاسم بھٹی سمگلر کے ساتھیوں کو رہا کرنے سے انکارکر دیا تھا۔کنور وسیم اختر کا آبائی وطن روہتک تھا۔ ان کے راجپوت خاندان نے1857ء کی جنگ آزادی میں انگریزوںکا دلیرانہ مقابلہ کیا اور اس کے سینکڑوں جوانوں کو انگریزوں نے توپ سے اڑا دیا تھا۔ ایم کیو ایم کسی کی انا کا مسئلہ نہ بنایا جائے اور نہ ہی الطاف حسین کے خلاف انتقامی کارروائی دکھائی دینی چاہیے۔ الطاف حسین سے ملتی جلتی تقریر مشترکہ اجلاس میں بلوچستان کے اہم رہنما نے بھی کی جسے سپیکر قومی اسمبلی نے حذف بھی نہیں کروایا۔ الطاف حسین کی تصاویرکو نقصان پہنچانا درست قدم نہیں، فورسز سیاسی دلدل سے جتنا دور رہ سکیں اتنا بہتر ہے۔ مہاجروںکی نمائندگی ڈاکٹر فاروق ستارکر رہے ہیں، ان کے حقوق کے لئے وہی آواز بلند کریںگے۔ جب سابق صدر آصف علی زرداری نے افواج پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی تو ان کو چند روز میں دبئی جانے دیا گیا اور ابھی تک ان سے ان ریمارکس کی جواب طلبی نہیں کی گئی۔ اس طرح کے فیصلوں سے ہی ایم کیو ایم مضبوط ہوتی جارہی ہے۔
سندھ میں بلدیاتی سربراہوں کے انتخابات کا مرحلہ احسن طریقے سے مکمل ہو گیا، کراچی اور حیدر آباد میں ایم کیو ایم کے میئر اور ڈپٹی میئر منتخب ہوگئے۔ ایم کیو ایم کے بارے میں تحفظات کے باوجود وفاقی اور صوبائی حکومت یا کسی عسکری ایجنسی نے مداخلت نہیںکی، اس کے مینڈیٹ کو تسلیم کر لیا۔ اس کا مطلب یہ لیا جا رہا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ معمول کی سیاست کرے اور مسلمہ جمہوری اصولوں پر عمل کرے تو اس کے مینڈیٹ پر کسی ادارے کو اعتراض نہیں ہوگا۔ یہ اچھی سوچ ہے، سندھ کے بلدیاتی اداروں کو ضروری اختیارات اور فنڈز بھی مہیا کئے جائیں تاکہ عام آدمی کے مسائل اس کی دہلیز پر حل ہو سکیں۔ الطاف حسین اب تاریخ کا حصہ بن چکے، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے ان سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا ہے، اس پس منظر میں ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کے پارلیمانی ارکان کو پاکستان کے موجودہ آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنا سیاسی کردار ادا کرنے کی راہ میں رکاوٹ بننے کی کوشش نہ کی جائے۔ مہاجر کمیونٹی متحدہ قومی موومنٹ پر مکمل اعتمادکرتی رہے گی اور ان کا کوئی بھی نعم البدل نہیں ہے۔ تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی ان کی جگہ لینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کیونکہ بھارت سے ہجرت کرنے والی مسلم کمیونٹی کو اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے مضبوط اعصاب کے لیڈر کی ضرورت ہے۔ ان حالات میںکنور وسیم اختر کو میئر کے اختیارات سنبھالنے کے لئے قانونی راستہ ہموار کیا جانا اور ان کو قومی دھارے میں لایا جانا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں