"KDC" (space) message & send to 7575

دونوں نااہل ہو سکتے ہیں!

قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق نے وزیر اعظم نواز شریف کی نا اہلی کے لئے دائر ریفرنسز مسترد کر دیئے اور عمران خان کے خلاف ریفرنسز قابل غور قرار دیکر الیکشن کمیشن آف پاکستان بھجوا کر الیکشن کمیشن کو آزمائش میں ڈال دیا ہے۔سپیکر قومی اسمبلی کا کہنا ہے کہ انہوں نے قانونی اور آئینی ماہرین کی مشاورت سے ریفرنسوں کو مسترد کیا، اپوزیشن کو زیادہ اعتراض اس بات پر ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف نا اہلی کے ریفرنسز مسترد کر دیئے گئے جبکہ تحریک انصاف کے دو رہنماؤں کی نا اہلی کے ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیج دئیے گئے، در اصل وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف مضبوط شواہد اور ناقابل تردید دستاویزات کے باوجود ریفرنسز کو مسترد کرنے سے سپیکر کی غیر جانبداری پر حرف آگیا ہے۔ 5ستمبر کو وزیر اعظم کے خلاف ریفرنسز مسترد کئے گئے اور 6ستمبر کو بعض لوگوں کو اہم منصب پر فائز کرا دیا گیا کیونکہ ماضی کے تمام ریفرنسز ان کے ہاتھوں سے گزر کر ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوائے گئے تھے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ریفرنس کا معاملہ آئینی،قانونی اور مستند دستاویزات اور ثبوتوں کی روشنی میں الیکشن کمیشن بھجوانا بہتر فیصلہ ہوتا کیونکہ ان کی رولنگ کے درست ہونے یا نہ ہونے کا آخری فیصلہ الیکشن کمیشن نے ہی کرنا تھا کیونکہ آئین کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی کسی کی نا اہلیت کا فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ ملک شدید سیاسی بحران کی طرف دھکیل دیا گیا ہے اور متنازع معاملات کا حل یہی تھا کہ ریفرنسز کا فیصلہ الیکشن کمیشن کو ہی سپرد کر دیا جاتا۔ سپیکر قومی اسمبلی اگر وزیر اعظم کے خلاف ریفرنسز بھجوا دیتے تو ان کا انجام سید فخر امام سپیکر قومی اسمبلی کی مانند ہوتا جب انہوں نے اگست میں1985ء وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا جس کے نتیجہ میں ان کو سپیکر شپ سے ہاتھ دھونے پڑے۔
سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کے خلاف اب ریفرنسز کا معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں جائے گا اور بادی النظر میں یہی نظر آ رہا ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی کو خفت کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ سپیکر ایاز صادق نے وزیر اعظم کے خلاف ریفرنسز خارج اور عمران خان کے خلاف بھیج کر خود کو متنازع بنا لیا ہے۔ چونکہ سردار ایاز صادق عمران خان کے خلاف الیکشن لڑ چکے ہیں اور الیکشن ٹربیونل نے سردار ایاز صادق کے الیکشن کو کالعدم قرار دیا تھا، اس لئے انہیں عمران خان کے خلاف ریفرنس پر فیصلہ کرنے سے معذرت کر لینی چاہئے تھی۔
میں نے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف دائر کردہ ریفرنس جو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سپیکر کو بھجوایا تھا، پڑھا تھا، اس ریفرنس کو مسترد کرنا درست اس لئے نہیں ہے کہ ریفرنس میں دستاویزات ثبوت موجود ہیں کہ نواز شریف کے صاحبزادگان حسین نواز اور حسن نواز 1990 ء میں زیر کفالت کے زمرے میں آتے ہیں اور ریفرنس میں نادرا کی جانب سے جاری کردہ ثبوت بھی موجود ہیں، جب کہ شریف خاندان نے جدہ والی سٹیل مل 2005 ء میں فروخت کر کے اس رقوم سے لندن میں 1993 ء میں فلیٹ خریدے جو سراسر حقائق کے بر عکس ہے ! اب جب سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ میں اپنے ریفرنس کے حوالے سے کیس دائر کریں گے تو سپریم کورٹ حقائق کے مطابق فیصلہ کرے گی اور سپیکر قومی اسمبلی کو بصورت دیگراپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑے گا کیونکہ سپیکر نے وزیر اعظم نواز شریف کے حق میں فیصلہ کر کے غیر جانبداری کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔
گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے نظام میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر پورے ملک میں عمل کرنا ہو گا اور یہ بھی ضروری ہے کہ قوانین اور نظام انصاف کی ان کمزوریوں کو دور کیا جائے جو دہشت گردی ختم کرنے میںرکاوٹ ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے کہاہے کہ''کچھ حلقے سکیورٹی، انٹیلی جنس میں بد اعتمادی پیدا کر رہے ہیں‘‘۔ یہ قابل فہم اشارہ حکومت کے ہمنوائوں کی طرف ہے جوبھارت نواز کی پالیسی کا پرچار کر رہے ہیں جبکہ بعض اینکر پرسن کشمیر کی جدو جہد آزادی کو بلوچستان سے ملاتے ہوئے انڈیا کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ اب جب کہ جنرل راحیل شریف نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیتے ہوئے کشمیریوں کی جدو جہد کی حمایت جاری کرنے کا عزم کا اظہار کیا ہے تو یہی میڈیا پرسنز عوام میں بد اعتمادی اور شکوک و شبہات پیدا کرنے کی مہم چلائیں گے۔ جنرل راحیل شریف کو ایسے کرداروں کو بھی نیشنل ایکشن پلان کے دائرہ کار میں لانا چاہئے جو انڈیا کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔
تاریخی طور پر آپ کی خدمت میں اہم واقعہ کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں، 1994 ء کے اوائل میں نواز شریف نے وزیر اعلیٰ صوبہ سرحد آفتاب شیر پاؤ کے ارکان صوبائی اسمبلی اختر شاہ اور مزمل شاہ کے خلاف ریفرنسز الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوائے تھے ، اس وقت جسٹس (ر) نعیم الدین چیف الیکشن کمشنر تھے اور ارکان کمیشن میں جسٹس بشیر جہانگیری اور جسٹس ریاض احمد شیخ تھے، کمیشن نے ان ریفرنسز کی سماعت میں فریقین کو اپنی اپنی وضاحت میں پورا موقع دیا تھا، نواز شریف کی جانب سے خالد انور، ثاقب نثار اور افتخار گیلانی پیش ہوتے رہے اور آفتاب شیر پاؤ کی جانب سے شریف الدین پیرزادہ نے پیروی کی! کمیشن کے دو ارکان نے آفتاب شیر پاؤ کے حق میں فیصلہ دیا جب کہ جسٹس نعیم الدین نے اپنے فیصلے میں ان ارکان کو نا اہل قرار دیا تھا، چونکہ اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ شیر پاؤ کے حق میں تھا، لہٰذا نا اہلیت کے مسئلہ میں شیر پاؤ کی وزارت اعلیٰ کو محفوظ راستہ مل گیا تھا اور جب نواز شریف کے وکلاء نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تو چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے تاریخی رولنگ دی تھی کہ آئینی طور پر صرف چیف الیکشن کمشنر ہی اسے سننے کے مجاز تھے اور الیکشن کمیشن کے ارکان کا کردار آئینی نہیں تھا، لہٰذا چیف الیکشن کمشنر کی رولنگ کے حق میں فیصلہ آنے سے صوبہ سرحد کے دونوں ارکان غالباً نا اہل ہو گئے تھے۔ 
الیکشن کمیشن میں نواز شریف اور عمران خان کے خلاف دائر ریفرنسز کا کوئی مستقبل نہیں ہے، دونوں کے خلاف ریفرنسز پر کوئی خاص کارروائی نہیں ہو گی، نواز شریف اور عمران خان سے برائے نام ثبوت طلب کئے جائیں گے جس کے بعد طویل المیعاد تاریخیں دی جائیں گی اور معاملہ طول پکڑتا جائے گا۔ سپیکر قومی اسمبلی نے پارلیمانی نظام کے خلاف قدم اٹھایا ہے، اب فیصلہ کن جنگ سپریم کورٹ میں لڑی جائے گی اور سپریم کورٹ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے خلاف کارروائی کے ساتھ ساتھ عمران خان کو بھی لپیٹ میں لے لے گی۔ سپریم کورٹ میں وزیراعظم کے حوالے سے انکشافات کا لاوا باہر آنے کا امکانات ہیں اور جونہی سپریم کورٹ میں نا اہلیت کے ریفرنسز دائر کئے گئے اس کی زد میں اپوزیشن کے اہم ارکان بھی آئیں گے اور میری دانست میں نواز شریف اور عمران خان نا اہل ہو سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں