"KDC" (space) message & send to 7575

30 ستمبر کو کیا ہوگا؟

پاکستان کو اس وقت مختلف اطراف سے بڑے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ حکومتی حلقوں کی طرف سے پر تشدد مہم چلانے کی وجہ سے ملک کی سیاسی فضا میں سے کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ملک کواندر اور باہر سے آج جتنے چیلنجوں کا سامنا ہے ان کے پیش نظر وزیر اعظم کو فوری طور پر پاناما لیکس کے بارے میں اُن ٹرمز آف ریفرنسزکو قانونی شکل دیتے ہوئے اپنی انا پرستی کو چھوڑنا ہوگا جو متحدہ اپوزیشن نے اعتزاز احسن کی معاونت سے تیارکئے ہیں۔ حکومت کو اس ضمن میں پارلیمنٹ کے فورم پر بات چیت کے ذریعے قانونی راستہ نکالنا ہوگا۔ ان حالات میں حکومت کی طرف سے کشیدگی بڑھانا اور اپنے کارکنوں کو ڈنڈوں اورگنڈاسوں سے مسلح کرنا درست نہیں۔ معاملہ افہام و تفہیم اور پارلیمنٹ کی سیاست کو فروغ دے کر حل کرنا چاہیے۔
اندازہ ہے کہ 30 ستمبرکو رائیونڈ مارچ کے سلسلے میں لاکھوں افراد لاہور پہنچیں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی جانباز اور ڈنڈا بردار فورس کو آگے بڑھنے سے روک دے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو لاہور میدان جنگ بن جائے گا۔ بعض اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر طاہر القادری خود تو اس احتجاج میں شریک نہیں ہوں گے، لیکن ان کے حامی اس میں شرکت کریں گے۔ شیخ رشید بھی راولپنڈی سے اپنے پچاس ہزار حامیوں کو لے کر لاہور جانے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ کچھ ایسی مذہبی سیاسی جماعتیں جو عمران خان کو تو پسند نہیں کرتیں لیکن نواز شریف کی مخالف ہیں اور حکومت کو سبق سکھانا چاہتی ہیں، ان کے بھی ہزاروں پیروکار لاہور جانے کے لئے صف بندی کر رہے ہیں۔ پاکستان کی وہ سیاسی قوتیں جو ذہنی طور پر بھارت کے بہت خلاف ہیں اور جن پر بھارت انگلی اٹھاتا رہتا ہے، وہ بھی اس مارچ کا حصہ بننے کے متعلق غور کر رہے ہیں۔ چنانچہ مریدکے سے ہزاروں لوگوں کے شریک ہونے کا امکان ہے۔ عمران خان نے تحریک انصاف صوبہ خیبر پختونخوا کو تین سے چار لاکھ افراد کو لاہور لانے کا ٹارگٹ دیا ہے۔ 
اس عوامی دباؤ کے تحت وزیر اعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ میں خطاب کیا۔ جمہوری وزیر اعظم کے سوچنے کا انداز مختلف ہو سکتا ہے لیکن وہ ملک سے بے وفائی نہیں کر سکتا۔ قومی مسائل پر مختلف انداز سے سوچنے کا سب سے زیادہ حق منتخب وزیر اعظم کو ہوتا ہے، لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ تاجر حکمران کسی بھی وقت اپنے کاروباری مفاد کے لئے نرم پڑ سکتا ہے۔ میاں نواز شریف کے جب انڈیا میں کاروباری مفادات نہیں تھے تب ان کا بھارت کے متعلق رویہ بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں مختلف تھا۔ لیکن اب انہوں نے اپنے خطاب میں 'را‘ کے ایجنٹوں کی گرفتاری اور عسکری قیادت کی جانب سے مہیا کردہ ثبوت مع دستاویزات کا اپنی تقریر میں ذکر نہیںکیا۔ 
ملک کے وزیر اعظم پر جب میگا کرپشن کے الزامات ہوں اور ان کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک چل رہی ہو تو اس کے خطاب میں جوش و جذبہ نظر نہیں آ سکتا۔ ایل این جی سکینڈل میں اربوں ڈالرکی غیر شفاف خریداری سامنے آئی ہے۔ اس ضمن میں جو معاہدہ کیا گیا اس کے تحت جو ایل این جی ٹرمینل بنایا گیا ہے، وہاں گیس آئے یا نہ آئے لیکن ہر ماہ 81 لاکھ 60 ہزار ڈالر ادا کئے جائیں گے۔ پوری دنیا میں ایل این جی کی قیمت کم ہوکر زمین بوس ہو گئی جبکہ ہمارے ہاں اس کی خریداری تیل سے بھی مہنگی کی گئی ۔ ایل این جی کی خریداری دنیا میں کہیں سے بھی کی جا سکتی ہے، پھر قطر سے ہی کیوں خریدی جا رہی ہے؟ جس قیمت کے معاہدے کئے جا رہے ہیں، وہ ہماری آئندہ نسلیں ادا کریں گی۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعطم نواز شریف بین الاقوامی شخصیات کو اپنی جانب متوجہ نہ کر سکے۔ ان کے خلاف پاناما لیکس کے حوالے سے بھی ملک گیر احتجاج ہو رہا ہے۔
میرے نقطہ نظر کے مطابق 30 ستمبر کا مارچ کسی فرد کے گھر کی طرف نہیں ہوگا کیونکہ قوم کی جنگ کسی فرد کے خلاف نہیں ہے۔ یہ احتجاجی مارچ میگا کرپشن کے خلاف ہے جس میں عوام کا کھربوں روپے کا سرمایہ بیرونی ممالک میں جائیدادیں خریدنے پر صرف کر دیا گیا ہے۔ میں پاکستان کے انتخابی نظام کو بہت قریب سے جانتا ہوں۔ 1990ء میں نواز شریف کے ساتھیوں نے جس طرح انتخابات چرائے تھے اس کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ مرحوم عمر اصغر خان، شید محمود قصوری، قیصر بنگالی اور ایئر مارشل اصغر خان مجھ سے ملنے آتے رہتے تھے۔ میں ان دنوں سندھ میں قائم مقام الیکشن کمشنر تھا، اس حوالے سے کورکمانڈر مرحوم جنرل آصف نواز جنجوعہ سے بھی اکثر کور ہیڈکواٹر میں ملاقات رہتی تھی۔ الٰہی بخش سومروکو ان کی آبائی نشست جیکب آباد سے ناکام بنانے کے جو حربے استعمال کیے گئے وہ میں نے جیکب آباد کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جو ریٹرننگ آفیسر تھے، کی معاونت سے انہیں ناکام بنایا تھا۔ وہ بظاہر پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے لیکن اندرونی طور پر نواز لیگ سے منسلک تھے۔ الیکشن چرانے کے فن کا مظاہرہ سب سے پہلے 1990ء میں شروع ہوا اور 2013ء میں یہ ''ٹیکنالوجی‘‘ عروج پر پہنچ گئی۔ نگران حکومت کی ریشہ دوانیوں اور بعض این جی اوز کے تعاون سے الیکشن کمیشن کی اندرونی انتظامی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان انتخابات کو مشکوک بنایاگیا۔ 
30 ستمبر کے حوالے سے حکومتی وزرا خون میں نہا کر اپنے لیڈر کے گھر کی حفاظت کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ اسی طرح کے دعوے 30جون1977ء کو وزیر اعظم بھٹو کے مشیر خاص ملک غلام مصطفیٰ کھر نے بھی کئے تھے جب انہوں نے قومی اتحاد کے رہنماؤں کے خلاف لشکر کشی کی دھمکی دی تھی۔ انہوں نے اندرون لاہور قومی اتحاد کے ریلیوں پر تیزاب پھینکنے اور اینٹوں،کلہاڑیوں سے سبق سکھانے کی بڑھک ماری تھی۔ انہی خون ریز دھمکیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل ضیاء الحق نے 4 جولائی1977ء کی رات کو ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی فعال میڈیا مینجمنٹ کو چاہیے کہ وہ 5جولائی 1977ء کے خطاب کا متن حاصل کر لیں جس میں جنرل ضیاء الحق نے مصطفی کھر کی دھمکی کا ذکر کیا تھا۔ اب پرائیویٹ ٹیلی وژن چینلز میں نواز شریف کے حامی جس انداز میں قوم کے سامنے سلطان راہی کا روپ دھارتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، اگر 30 ستمبر کو ایسا کوئی واقعہ پیش آ گیا تو پھر ملکی آئین کے آرٹیکل 9 اور 5 کے تحت کارروائی آئینی تصور ہوگی۔ 
وزیر اعظم اپنے اقوام متحدہ میں خطاب کے موقعہ پر اپنی کم عمر نواسی کو بھی امریکہ ساتھ لے گئے جس پر سوشل میڈیا اور سیاسی حلقوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ معصوم نواسی کو سفارتی نشستوں پر بٹھانے سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ اس کے برعکس امریکہ کی سابق خاتون اول عام گیلری میں مہمانوں کی نشست پر بیٹھی نظر آئیں۔ کیا جمہوریت اسی کوکہتے ہیں؟ نواز شریف نے اقوام متحدہ کے ارکان ممالک کے سامنے پاکستان کی انوکھی جمہوریت کا نقشہ کھینچ دیا۔ عوام کے ٹیکسوں سے نواز شریف اپنے خاندان اور ہم خیال میڈیا کو دور ے کروا رہے ہیں۔ وہ کشمیر کی تحریک آزادی کو فلسطین اور تیونس کی تحریک کے مماثل قرار دے کر اقوام متحدہ کی قرارداد کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔ 
وزیر اعظم کے اقوام متحدہ میں خطاب کے موقع پر بین الاقوامی اہم شخصیات نظر نہیں آئیں، صرف درجن بھر مندوبین بیٹھے ہوئے نظر آئے۔ اگر وزیر اعظم مسٹر ذوالفقار علی بھٹو جیسی للکار دکھاتے تو پاکستان کی پوری قوم فرد واحد کی طرح اٹھ کھڑی ہو جاتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں