"KDC" (space) message & send to 7575

الطاف حسین کو کون تحفظ فراہم کر رہا ہے؟

سندھ کی صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر متحدہ قومی موومنٹ کے خواجہ اظہارالحسن کی گرفتاری سے سندھ حکومت شدید دباؤ میں آ گئی ہے۔ اس سے سندھ حکومت کی بدانتظامی، نااہلی بھی عیاں ہوئی کہ اس کے مختلف اداروں کے درمیان رابطے کا شدید فقدان ہے۔ خواجہ اظہارالحسن کی گرفتاری سے متحدہ قومی موومنٹ کی مشکلات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جمہوری‘ عوامی حکمرانوں نے وہ اعلیٰ معیار قائم نہیں رکھا‘ جس کا تقاضا ان کا منصب کرتا تھا۔ جمہوریت کی بقا کے لئے اچھی حکمرانی اتنی ہی ضروری ہے‘ جتنی انسانی زندگی کے لئے آکسیجن۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کا یوم دفاع کے موقع پر تقریب سے خطاب کسی آرمی چیف کی تقریر نہیں تھی، یہ سیاسی، معاشی، خارجی، داخلی اور کرپشن کے قومی مناظر کو احاطے میں لیتے ہوئے حکومت کی کارکردگی کے بارے میں ایک طرح سے وائٹ پیپر تھا۔ انہوں نے مسلح افواج کی کارکردگی کا انتہائی مختصر الفاظ میں احاطہ کیا اور بتایا کہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرکے قومی خود مختاری کو بحال کیا گیا۔ اس میں حکومت کے کردار کا ہلکا سا ذکر بھی نہیں تھا۔ اگر حکومت کی تین سالہ کارکردگی کا غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو محسوس ہو گا کہ دہشت گردوں سے ریاستی عمل داری واپس لینے میں حکومت کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے‘ اور حکومت کی کارکردگی تشہیری مہم یا بین الاقوامی فنڈنگ سے چلنے والی این جی او کے نام نہاد سرویز کے ذریعے ظاہر کی جا رہی ہے۔ نام نہاد چشم کشا سرویز کے ذریعے عوام میں یہ ابہام پیدا کیا جا رہا ہے کہ چار بار مارشل لا نافذ کرکے جمہوریت کو کمزور تر کر دیا گیا ہے۔ یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی گئی کہ پاکستانیوں کی 78 فیصد آبادی حکومت کی کارکردگی سے بہت مطمئن ہے۔
ایس ایس پی راؤ انوار نے خواجہ اظہارالحسن کو جس انداز میں گرفتار کیا‘ وہ ناپسندیدہ اقدام کے زمرے میں ضرور آتا ہے اور اس سارے معاملے میں رینجرز کا کردار نظر نہیں آیا‘ لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ قانون کے تحت کسی رکن اسمبلی کی گرفتاری کے لئے سپیکر کو پہلے اطلاع کرنا ضروری ہے۔ اسی لئے خواجہ اظہارالحسن کی گرفتاری پر راؤ انوار کی معطلی خلاف آئین ہے۔ پولیس افسر کی فوری معطلی کے اقدام کا مقصد متحدہ قومی موومنٹ کو تسلی دینا تھا؛ تاہم وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہارالحسن کو قانون کی ایک کمزور سی شق کے تحت رہا کرکے اور ایس ایس پی راؤ انوار کی معطلی کا حکم دے کر خود آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔قانون کے مطابق کسی بھی رکن اسمبلی کا استحقاق ہے کہ اسے پارلیمنٹ کی کارروائی میں شرکت سے نہ روکا جائے۔ اگر کوئی رکن پارلیمنٹ کسی مقدمے میں مطلوب ہو تو پہلے سپیکر کو اطلاع دینا ضروری ہے‘ لیکن یہ صرف اس وقت ضروری ہے جب اسمبلی کی کارروائی چل رہی ہو۔ اگر کوئی ممبر پارلیمنٹ دہشت گردی یا کسی فوجداری مقدمہ میں ملوث ہو تو اس کی گرفتاری میں یہ شرط حائل نہیں ہو سکتی۔ خواجہ اظہارالحسن کی گرفتاری پر متعلقہ پولیس افسر کی معطلی سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ سندھ کو صحیح قانونی معاملات سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ شبہات بھی پائے جاتے ہیں کہ ایس ایس پی راؤ انوار کے خلاف سخت قدم وزیر اعلیٰ سندھ نے ذاتی طور پر نہیں اٹھایا بلکہ وزیر اعظم نواز شریف نے مداخلت کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ پر دباؤ ڈالا۔
ایس ایس پی راؤ انوار کی معطلی کے براہ راست احکامات جاری کرکے شاید عسکری قیادت کو بھی پیغام دیا گیا ہے‘ حالانکہ وزیر قانون زاہد حامد، خواجہ ظہیر اور ظفراللہ اور حال ہی میں ان کی ٹیم میں شرکت کرنے والے کرامت نیازی اور اٹارنی جنرل اوشتر اوصاف کو بخوبی علم ہے کہ فوجداری مقدمہ میں کسی بھی رکن اسمبلی کی گرفتاری اگر اسمبلی اجلاس کے بعد ہو تو سپیکر کو اطلاع دینا ضروری نہیں ہوتا اور کسی بھی فوجداری مقدمہ میں کابینہ کے کسی بھی رکن کی گرفتاری سے پولیس کو نہیں روکا جاتا۔ چند سال پیشتر اسرائیلی وزیر اعظم، فلپائن کے صدر اور تھائی لینڈ کے وزیر اعظم کو اسی نوعیت کے کیسز میں پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔ پاکستان دنیا کا ایسا عجوبہ ملک ہے کہ فوجداری مقدمے میں ملوث کسی بھی رکن اسمبلی کو گرفتار کرنے کے حوالے سے حکومتی ادارے مجبور و بے کس اور مفلوج نظر آتے ہیں۔ 
وزیر اعلیٰ سندھ ٹرپل گیم کھیلتے محسوس ہوتے ہیں۔ وہ آصف علی زرداری اور وزیر اعظم کے اشارے کے منتظر رہتے ہیں‘ اور سندھ میں ڈی جی رینجرز کے ساتھ بھی آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔ اگر ان کی جگہ بزرگ‘ عمر رسیدہ اور جہاندیدہ قائم علی شاہ وزیر اعلیٰ ہوتے تو قانون شکنی کے مرتکب نہ ہوتے اور وزیر اعظم کے احکامات کو نظر انداز کر دیتے کیونکہ ان کے پاس کوئی قانونی اختیار نہیں کہ کسی گرفتار ملزم کو رہائی کا حکم دے سکیں۔ اگر کسی ملزم کی گرفتاری ڈال دی گئی ہو تو پھر اس کی رہائی کا اختیار مقدمہ کے تفتیشی افسر یا عدالت کے پاس ہی ہوتا ہے۔ وزیر اعظم بھی اگر اس طرح کا کوئی حکم جاری کر تے ہیں تو وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کریں گے جو کہ آئین کے آرٹیکل 65 کی خلاف ورزی ہے۔ 
سندھ صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف‘ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما خواجہ اظہارالحسن کے گھر پر چھاپہ اور پھر ان کی گرفتاری کی کارروائی بظاہر تمام آئینی اور قانونی تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے انجام دی گئی۔ ایس ایس پی راؤ انوار کے بقول خواجہ اظہارالحسن ٹارگٹ کلنگ جیسے سنگین جرائم میں ملوث ہیں، لہٰذا ان کے خلاف کارروائی ضروری تھی لیکن یہ موقف اس طریقہ کار کو کسی بھی طور درست ثابت نہیں کرتا جو خواجہ اظہارالحسن کی گرفتاری کے لئے اختیار کیا گیا۔ یہ طرز عمل ریاست کی اس پالیسی سے بھی صریحاً متصادم ہے کہ کراچی آپریشن ایم کیو ایم سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کے خلاف نہیں بلکہ بلا امتیاز تمام جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ہے‘ لیکن یہ طریقہ کار پنجاب میں اختیار نہیں کیا جا رہا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بارے میں جسٹس باقر نجفی رپورٹ سامنے آنے اور جنرل راحیل شریف کے حکم پر ایف آئی آر درج کروانے کے باوجود اس پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اب انصاف کے حصول کے لئے بین الاقوامی اداروں میں اپنا مقدمہ پیش کر رہے ہیں۔ خواجہ اظہارالحسن ایک سیاسی شخصیت ہیں۔ ان کے خلاف الزامات کے مضبوط شواہد موجود ہوں تو باضابطہ کارروائی کی کوئی بھی معقول شخص مخالفت نہیں کرے گا۔ 
الطاف حسین کے خلاف لندن میں مقدمہ چلانے میں اصل رکاوٹ بھارت ہے۔ برطانوی ریاست اور خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس الطاف حسین کو اثاثہ مانتی ہے۔ حکام ان سے ہر ہفتے ملاقات کرتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے وزرا کے ذریعے برطانیہ پاکستان میں اپنے مفادات کا تحفظ کرتا رہا اور اسی لئے بھارت ایم کیو ایم کی فنڈنگ کا مقدمہ برطانوی عدالتوں میں چلنے نہیں دیتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں