"KDC" (space) message & send to 7575

سی پیک: پارلیمنٹ کو حقائق سے آگاہ کیا جائے!

مغربی ممالک کے بھارتی لابسٹ اور میڈیا ان دنوں نفسیاتی جنگ کے حربے استعمال کرتے ہوئے شر انگیز تاثر پھیلا رہے ہیں۔ ان کا یہ موقف درست نہیں ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری(سی پیک) سے پاکستان کو نہیں بلکہ چین کو فائدہ ہوگا۔ قوموں کی تعمیر افکار و نظریات سے ہوتی ہے، ترقی کی منازل انہی کو روشنی میں طے کی جاتی ہیں۔ حکومتیں فارغ ہوتی رہتی ہیں لیکن گڈ گورننس والی حکومت کی سوچ ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ سی پیک منصوبہ چین کا سامان گوادر تک پہنچانے کے لئے بنایا جا رہا ہے، لیکن اس سے پاکستان کے عوام کو جو خواب دکھائے جا رہے ہیں وہ محض الیکشن 2018ء میں کامیابی کے لئے ایک فریب ہے جو ملکی مفاد میں نہیں۔ اقتصادی راہداری پر صنعتیں لگانے کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پلاننگ کمیشن کے اجرتی ارکان محض اپنے کنٹریکٹ میں توسیع کی خاطر اصلاحاتی پروگرام پیش کر رہے ہیں۔ ہمارے موجودہ صنعتی زونز میں انڈسٹری لگانے کی جگہ پہلے سے موجود ہے۔ چین 45 ارب ڈالر پاکستان کو گرانٹ کی صورت میں نہیں بلکہ قرض کی مد میں دے رہا ہے۔ گزشتہ ماہ مجھے کوئٹہ جانے کا اتفاق ہوا تو پریس کلب میں جہاندیدہ اور پاک چین اقتصادی راہداری اور ایران و افغانستان کی جغرافیائی حکمت عملی پر گہرا ادراک رکھنے والے صحافیوں سے ملاقات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ بیرونی طاقتیں بلوچستان پر نظر رکھے ہوئے ہیں، بلوچستان میں بیرونی اداروں اور سالانہ ترقیاتی بجٹ سے چلنے والے منصوبوں کو سی پیک کا نام دینے پر پابندی لگنی چاہیے۔ علاوہ ازیں بین الاقوامی ادارے بعض انٹرنیشنل اور نیشنل این جی اوز کے توسط سے علیحدگی پسند تحریکوں کی پس پردہ حمایت کر رہی ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت چین کی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے جدید منصوبوںکو آگے بڑھانے کے لئے لورالائی، قلعہ سیف اللہ، ژوب، مغل کوٹ اور شاہراہ قراقرم جیسے ان پرانے منصوبوں کو جو معاہدہ استنبول کے تحت آر سی ڈی کے تحت 1964ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت نے بنائے تھے، پاک چین اقتصادی راہداری کے ساتھ منسلک کر کے قوم کر گمراہ کر رہی ہے۔ اقتصادی ماہرین کو چاہیے کہ صدر ایوب خان کے دوسرے پانچ سالہ منصوبے کی رپورٹیں پلاننگ کمیشن کی لائبریری سے نکلوا کر پڑھ لیں، چشم کشا حقائق سے آنکھیں چوندھیا جائیںگی۔ معاہدہ استنبول کے تحت جو پراجیکٹ تیار کئے جا رہے تھے،سی پیک انہی کا چربہ ہے۔ قوم کی بد قسمتی ہے کہ ڈاکٹر محبوب الحق نے جو اس وقت عالمی بینک میں اہم عہدے پر کام کر رہے تھے، سی آئی اے کی ملی بھگت سے یہ منصوبے ناکام بنا دیے تھے۔ اگر ہماری صفوں میں 'را‘ اور دیگر ممالک کے ایجنٹ نہ ہوتے تو پاکستان1975 ء میں فلاحی ریاستوں میں شامل ہو چکا ہوتا۔
سی پیک سے منسلک منصوبوں کے اجرا سے پہلے چینی سفارت کاروں کا پاکستان کی سول سوسائٹی، میڈیا اور سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں سے کبھی رابطہ نہیں ہوا تھا، لیکن جونہی ان منصوبوں پر معاہدے سامنے آئے، پاکستان میں مقیم چینی سفارت کاروں کی حکمت عملی کمیونسٹ ممالک کی مانند تبدیل ہو گئی۔ پاکستان کے چند پرنٹ میڈیا ہاؤسز نے چینی سفارت کاروں کی سادہ لوحی اور ان کا پاکستان کے حالات سے ادراک نہ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے ہاں نقب لگا رکھی ہے، ایسے اخبارات کے مالکان جن کی اشاعت ایک ہزار سے بھی کم ہے، چینی سفارتی اہل کاروں کو اپنے سحر میں جکڑا ہوا ہے اور چینی سفارت خانے کے توسط سے انہیں چین کے دورے کروائے جا رہے ہیں، ان کے علاج معالجے کے اخراجات چینی حکومت یا ایسی ملٹی نیشنل کارپوریشنز ادا کر رہی ہیں جن کے مالی اور اقتصادی مفادات پاکستان سے وابستہ ہیں۔
پاکستان کی موجودہ آبادی کی اکثریت قدیمی پاکستانی نہیں بلکہ دیگر علاقوں سے ہجرت کر کے آباد ہونے والے خاندانوں کی اکثریت ہے۔ ان میں آریہ،افغان اور بھارت سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہے۔ افغانستان کی وحدت برائے نام ہے، یہ ہمیشہ بیرونی آقاؤں سے حاصل شدہ آمدنی پر گزارہ کرنے والا دنیا کا واحد ملک ہے، ان کی اکثریت پاکستان بننے کے بعد یہاں آباد ہوتی رہی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں کے علاقوں چمن اور پشین میں قندھار سے تیس ہزار سے زائد افغانوں کو آباد کروا کے یحییٰ بختیار کے لئے ووٹ بینک بڑھانے کی ناکام کوشش کی۔ اسی بنیاد پر کراچی میں الطاف حسین نے مہاجر کمیونٹی کو یکجا کر کے مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد رکھی جس سے پاکستان میں لسانی بنیادوں پر انتشار پھیلا،پاکستانی قومیت کمزور تر ہوتی چلی گئی اور قوم لسانی گروپس میں تقسیم ہو کر رہ گئی۔
وزیر اعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کے خطاب کے دوران کلبھوشن یادیوکا ذکر نہ کر کے آئین کے آرٹیکل 5 اور 65کی صریحاً خلاف ورزی کی ہے جبکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے الطاف حسین اور براہمداغ بگٹی جیسے مہرے کراچی اور بلوچستان میں اتارے ہوئے ہیں۔ ادھر سی پیک کی بنیاد پر وسطی پنجاب آباد ہو رہا ہے جس کی وجہ سے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے لوگوں کی محرومیاں بڑھ رہی ہیں۔ پاکستان کی طرف سے اقتصادی راہداری کے منصوبوں کے تعین اور عملدر آمد کے لئے جو فیصلہ ساز فورم بنایا گیا ہے اس میں خارجہ، پلاننگ، خزانہ، ریلوے 
اور مواصلات کی وزارتیں شامل ہیں جن کے اعلیٰ عہدے وسطی پنجاب کے پاس ہیں، اس لئے روٹ بھی وسطی پنجاب سے گزارا جا رہا ہے، تمام منصوبوںکا رخ بھی اسی طرف ہے۔ چین جیسے وحدانی نظام کے حامل ملک نے اپنے فیصلہ ساز فورم میں سنکیانگ کی خود مختار ریاست کی حکومت کو اپنا ممبر بنایا ہے، لیکن پاکستان نے جو فیڈریشن ہے سندھ، پختونخوا، فاٹا، آزاد کشمیر، بلوچستان اورگلگت بلتستان کی حکومتوں کونمائندگی نہیں دی۔ اسی وجہ سے چھوٹے صوبوں میں پاک چین اقتصادی راہداری کے بارے میں بد اعتمادی پھیل رہی ہے۔ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے سینیٹروں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اس اقتصادی راہداری کا فائدہ چین کو ہے جبکہ میاں نواز شریف نے پاکستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد رکھ دی ہے۔ صدر پاکستان شریف النفس اور معمر شخص ہیں، وہ قبائلی علاقوں کے چیف ایگزیکٹو ہیں لیکن انہیں ان حساس علاقوں کا ادراک نہیں ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی گورنر شپ ان کے بیٹے اور دوست چلا رہے ہیں کیونکہ گورنر اقبال جھگڑا انتہائی شریف، حلیم الطبع اور وضع دار سیاستدان ہیں اور علالت کے باعث گورنر کے فرائض نجام دینے سے قاصر ہیں۔ ان سب ناعاقبت اندیش سیاستدانوں کی وجہ سے بھارتی وزیر اعظم بلوچستان، فاٹا، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان میں اپنے ایجنٹ بھجوا کر ان علاقوں کو شورش زدہ بنانے میں متحرک ہیں جبکہ پاکستان کی وفاقی حکومت علاقہ پرستی، ووٹ پرستی اور تنگ نظری کے جذبے کے تحت نادانستہ طور پر مودی کا کام آسان بنا رہے ہیں۔ 
سی پیک کے معروضی اور زمینی حقائق کے مطابق امریکہ، عرب ممالک، ایران اور بھارت کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے اور وہ اسے ناکام بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ بھارت اس عظیم منصوبے کی راہ میں رکاوٹیںڈالنے کے لئے لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزی کر رہا ہے، اس نے کروڑوں ڈالر کے فنڈز بھی مخصوص کر رکھے ہیں جو پاکستان کے مخصوص میڈیا ہاؤسز میں تقسیم کئے جا رہے ہیں تاہم اب ان کے پروگرام آہستہ آہستہ افادیت کھو رہے ہیں۔ چند مہینے پیشتر جنرل راحیل شریف نے پیش کش کی تھی کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری کے معاملات ایک اتھارٹی کے حوالے کر دیے جائیں تو اس منصوبے کے دشمنوں کے عزائم ناکام بنائے جا سکتے ہیں، لیکن وزیر اعظم نے ان کی اس پیشکش کو مسترد کروا دیا۔ در اصل وہ الیکشن 2018ء کے لیے اس منصوبے کو کلیدی انتخابی مہم کا حصہ بنانا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ افواج پاکستان سمیت کسی کو اس میں شریک کرنے پر رضامند نہیں ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم کی ٹیم کے بیشتر ارکان افواج پاکستان کوبالواسطہ یا بلا واسطہ تنقید کا نشانہ بھی بناتے رہتے ہیں۔ مشرقی روٹ کے حوالے سے جس پراسرار رازداری سے کام لیا جا رہا ہے اس سے فیڈریشن کی وحدت خطرے میں پڑنے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ سینیٹ کی خصوصی کمیٹی گہری تشویش کا اظہار کر چکی ہے کیونکہ مغربی روٹ کو پروگرام سے خارج کر دیا گیا ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ سینیٹ کمیٹی کے بعض ارکان کراچی پورٹ کو اپ گریڈ کرنے کے خواہاں ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف پنجاب پر مکمل گرفت حاصل کرنے اور اپنے خاندان کی حکومت برقرار رکھنے کے لئے مشرقی روٹ کو اہمیت دے رہے ہیں جس سے یہ منصوبہ اپنی افادیت سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم کو ادراک ہونا چاہیے کہ چین، پاکستان اور انڈیا تین ایسے ملک ہیں جو آپس میں دریاؤں کے مشترکہ نظام میں جڑے ہوئے ہیں اور پاکستان سی پیک جیسے عظیم منصوبے کی تکمیل سے گوادرکی بندرگاہ سے نہر سویزکی طرح کے فوائد حاصل کر سکتا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے سی پیک پر جو پراسراریت کے پردے ڈالے ہوئے ہیں اس سے مغربی روٹ متاثر ہو رہا ہے۔ سینیٹ، قومی اسمبلی کے ارکان اور میڈیا کے محب وطن حلقے اس پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں، لہٰذا وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس پر اعتماد حاصل کریں اور مشترکہ مفادات کو نسل سے بھی منظوری حاصل کریں، اس منصوبے کی آڑ میں موروثی حکومت قائم کرنے سے گریز کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں