"KDC" (space) message & send to 7575

اسلام آباد سیل کرنے کے مضمرات

کرپشن کے خلاف جنگ حق کی جنگ ہے اور ملکی مفاد میں ہے۔ عمران خان نے کرپشن کے خلاف نعرہ لگا کرکسی حد تک عوام کا شعور پیدا کیا۔ حکومت اپنی مخصوص میڈیا مینجمنٹ اور30 ارب روپے اشتہارات پر خرچ کر کے اپنا امیج بہتر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ عمران خان عوام کی توجہ حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اب انہوں نے وفاقی دارالحکومت کو بندکرنے کا اعلان کر کے وزیر اعظم کے خلاف فیصلہ کن سیاسی جنگ لڑنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ محاذ آرائی یقینی ہے، اسلام آباد کے محاصرے میں تشدد کا عنصر شامل ہو سکتا ہے۔ ادھر حکومتی میڈیا اور ان کے ہم نوا30 اگست 2014ء کے حوالے سے مسلسل پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ احتجاجی مظاہرین نے سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ پر حملہ کیا تھا لیکن یہ الزام حقائق کے بر عکس ہے۔ عوام کے ہجوم نے پولیس فائرنگ اور آنسو گیس کے گولوں سے بچنے کے لئے پارلیمنٹ کے کار پارکنگ احاطے اور برآمدوں میں پناہ لے لی تھی، سپریم کورٹ پر حملے کا تو کوئی ثبوت ہی نہیں۔ ہاں، احتجاجی گروہ کی چند خواتین نے سپریم کورٹ کے جنگلے پر کپڑے ضرور سکھائے تھے جو سابق جج جناب جواد خواجہ کو ناگوار گزرا تھا اور انہوں نے اس پر ریمارکس بھی دیے تھے۔
پاناما لیکس پر تحقیقات کا مطالبہ اب تحریک کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم کے لئے عمران خان کے عملی اقدامات اب سنگین خطرے کی طرف جا رہے ہیں۔ لگتا ہے وہ اپنے ہمراہ نوجوان پختون فورس کو لے کر آگے بڑھیں گے کیونکہ محاذ آرائی اور تصادم ناگزیر نظر آ رہا ہے۔ ممکن ہے 15مارچ2009 ء جیسی صورت حال پیدا ہو جائے جب نواز شریف کی قیادت میں لاہور سے اسلام آباد کی جانب مارچ ہو رہا تھا اورگوجرانوالہ پہنچنے سے بھی پہلے جنرل کیانی کی فون کال نے ججزکی بحالی کی راہ نکال لی تھی۔ اب اس سے کہیں زیادہ خطرناک صورت حال ہے۔ عمران خان پاناما لیکس کے حوالے سے اربوں روپے کی کرپشن کے ثبوت پہلے ہی سپریم کورٹ، سپیکر قومی اسمبلی اور الیکشن کمیشن کو فراہم کر چکے ہیں۔
موجودہ سنگین سیاسی صورت حال کے حل کی کنجی سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کو جون1977 ء جیسی صورت حال کا سامنا ہے اور سپریم کورٹ کا فیصلہ بحران کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے۔ سپریم کورٹ انہیں آئین کے آرٹیکل 63(2) کے تحت اثاثے چھپانے کے جرم میں کسی کو بھی نااہل قرار دے سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پاکستان کی صف اول کی سیاستدانوں کے نا اہل ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر وزیر اعظم اور ان کے قریبی ساتھی نا اہل ہو جاتے ہیں تو فوری طور پر نئے لیڈر آف دی ہاؤس کاانتخاب عمل میں آئے گا اور نئے وزیر اعظم حالات کو دیکھتے ہوئے قبل از وقت انتخابات کا فیصلہ کریں گے اور نگران سیٹ اپ تشکیل دیا جائے گا۔ احتساب کا عمل بھی آگے بڑھے گا اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کم و بیش تمام امیدواروں کے کاغذات نامزدگی ریٹرننگ آفیسران کے ذریعے مسترد ہو جائیںگے۔
نگران سیٹ اپ کو صوابدیدی اختیارات حاصل ہوتے ہیںکہ وہ احتساب کے عمل سے گزرنے کے بعد انتخابی شیڈول جاری کرنے کی منظوری دے۔ اس طرح سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے جن شخصیات کے خلاف ایف آئی آر درج ہے ان کے خلاف کارروائی شروع ہو جائے گی اور وعدہ معاف گواہوںکی لائن لگ جائے گی۔ ان امکانات کے پیش نظر عمران خان نے اپنے کارکنوں کو جارح انداز میں اسلام آباد سیل کرنے کے لئے تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ اس دوران قوم کی نظریں سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن پر لگی ہوئی ہیں۔
اگر ملک کی مشرقی سرحدوں پر کشیدگی نہ ہوتی تو سیاسی طاقت کے اس مظاہرے کے فوری اثرات سامنے آسکتے تھے۔ عمران خان رائے ونڈ کے احتجاجی جلسے کو دھرنے کی شکل دے سکتے تھے، اب انہوں نے دس محرم الحرام کے بعد اسلام آباد کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسلام آباد میں ان کی سیاسی طاقت کے مظاہرے کے اثرات کا انحصار بھی سرحدوں کی صورت حال پر ہوگا۔ عمران خان نے گزشتہ چند مہینوں میں درجنوں بڑے جلسے منعقد کئے۔ انہوں نے پاکستان میں ایک بڑی سیاسی محاذ آرائی پیدا کر دی ہے۔ایک طرف عمران خان ہیں اور دوسری جانب وفاقی حکومت ہے، باقی سیاسی جماعتوں کو ان میں سے کسی ایک کے ساتھ جانا ہوگا۔ عمران خان نے 30 ستمبر کو رائے ونڈ میں تاریخی اجتماع منعقد کر کے ثابت کر دیا ہے کہ وہ عوام کو متحرک کر سکتے ہیں۔ سیٹلائٹ کے ذریعے جو مناظر دیکھنے کو ملے انہوں نے حکمران جماعت کے محلات میں سراسیمگی پیدا کی ہوگی۔ بظاہر حکومت کا حامی میڈیا، وزراء اور ارکان اسمبلی کے ذریعے عوام میں یہی تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ رائے ونڈ جلسے کے باوجود حکومت اپنے موقف پر قائم ہے، لیکن اطلاعات کے مطابق اندرونی کیفیت یہ ہے کہ حکمران خاندان تقسیم ہو چکا ہے۔ اگر رائے ونڈ والی کیفیت اسلام آباد میں دہرائی گئی تو دارالحکومت تین دن کے اندر سرنڈر ہو جائے گا، وزیر اعظم کو مستعفیٰ ہونا پڑے گا۔ وزیر اعظم یاد رکھیں، پاناما لیکس کی وجہ سے عوام میں ان کا اعتماد ختم ہو چکا ہے، وہ اپنے نورتنوں کے حصار سے باہر نکلیں، اخباری تشہیر سے اقتدار نہیں بچایا جا سکتا،ہم خیال صحافیوں کے تجزیے سے حکومت نہیں چلا کرتی، یہ تجربہ ایوب خان کے دس سالہ جشن اصلاحات سے ناکام ہو چکا ہے جب الطاف گوہر نے ملکی وسائل اس میں جھونک دیے تھے۔ 
عمران خان کو براہ راست ڈائیلاگ کرنے کا طریقہ آتا ہے، ان کے سیاسی موقف سے اختلاف کیا جا جا سکتا ہے، لیکن اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ وہ اپنے موقف پر قائم ہیں اور وہ اپنے سیاسی اہداف کے حصول کے لئے اپنی کوششوں میں کامیاب ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان نے پاناما لیکس کے معاملے کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں عمران خان کو ایک ایسا موقع میسر آیا ہے جو بہت کم سیاستدانوں کو ملتا ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس سنہری موقع سے کیسے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اپنے دوست وزیر اعظم کو پاناما لیکس کے بحران سے بچانے کے لئے پاکستان میں تخریبی کارروائیاں کروا سکتے ہیں۔ مودی، جنرل راحیل شریف سے خوف زدہ ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر ایسی کوئی صورت حال ہوئی تو جنرل راحیل ضرب عضب کی طرح بھارت کے خلاف کارروائی شروع کر
دیں گے، وفاقی حکومت کی طرف نہیں دیکھیں گے۔ منگلا میں ایٹمی سٹریٹیجک کمان کی بریفنگ اسی طرف اشارہ کرتی ہے۔ پاکستان کے لئے اس وقت تشویش کی بات یہ ہے کہ قومی سطح پر مدبر لیڈر کی قیادت موجود نہیں ہے،البتہ عمران خان کا سیاسی قد سب سے بلند نظر آتا ہے۔ عمران خان کو چاہیے کہ وہ نازک حالات میں ایسے سیاسی فیصلے کریں کہ ان کا کوئی فائدہ دوسرا نہ لے سکے، انہیں اپنے قریبی ساتھیوں میں ایسے دانشوروںکو شامل کرنا چاہیے جو ملک کے تمام علاقوں کے عوام کی نفسیات سے واقف ہوں، تاریخ و فلسفہ پر کامل گرفت رکھتے ہوں اور جنہیں بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات کا ادراک ہو۔ عمران خان نے پاناما لیکس کے حوالے سے عوام میں شعورکی لہر پیدا کر دی ہے، ورنہ حکومتی میڈیا پرسنز اب تک اسے قصہ پارینہ کر چکے ہوتے۔ عوام جان چکے ہیں کہ ملکی وسائل کو منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس طرح کی مجرمانہ وارداتوں نے پاکستان کو غربت اور کرپشن کے گرداب سے نکلنے نہیں دیا۔ اس تناظر میں اسلام آباد کو سیل کر کے احتسابی تحریک کو کامیاب کرانا ہے جو آئین کے خلاف نہیں ۔ ووٹ کا تقدس مئی 2013ء کے انتخابات نے مشکوک بنا دیا ہے۔ پاکستان کے تین صوبے احساس محرومی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور پاک چین اقتصادی راہداری کے عظیم منصوبے وزیر اعظم کے ذاتی مفادات کی وجہ سے ابہام کا شکار ہوچکے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ وزیر اعظم اسلام آباد کو سیل کرنے سے پہلے ہی قوم سے آخری خطاب کر کے نیا لیڈر آف دی ہاؤس منتخب کرنے کی راہ ہموارکردیں۔ پارلیمنٹ میں ان کی دو تہائی اکثریت ہے، اس طرح جمہوریت ہی کامیاب ہوگی اور نواز شریف اپنی پارٹی کے رہبر بن کر اس کی قیادت کر سکیںگے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں