"KDC" (space) message & send to 7575

تاخیری حربوں سے گریز کی ضرورت !

جب تک پاناما لیکس کا معاملہ طے نہیں ہوتا پاکستان کی سیاست انتشار کا شکار رہے گی۔ حکومت کے معاشی ماہرین عوام کو فریب دے رہے ہیں کہ 2025 ء میں پاکستان دنیا کی 18 ویں بڑی معیشت بن جائے گا، لیکن عالمی ماہرین اس دعوے کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں۔ اس حقیقت کا بھی ادراک کرنا ہوگا کہ جو ممالک بڑی معاشی قوت ہوں گے وہی عالمی طاقت بھی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو وافر انسانی و مادی وسائل عطا کئے ہیں‘ ان سے کما حقہ فائدہ اٹھا کر پاکستان بڑی معاشی قوت بننے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے، بشرطیکہ موروثی سیاست کا خاتمہ کر کے نئی قیادت کو آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے۔ بھارت کی جارحیت اور اشتعال انگیز کارروائیوں کا 3 اکتوبر کو اسلام آباد میں منعقدہ سیاسی و پارلیمانی پارٹیوں کی آل پارٹیز کانفرنس میں موثر پیغام دیا گیا۔ عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کر کے سیاسی طور پر درست قدم نہیں اٹھایا، کیونکہ کچھ دن پہلے انہوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کرنے کاعندیہ دیا تھا، ان کی عدم شرکت کی وجہ سے بلاول زرداری کو اپنا قد اونچا کرنے کا موقع مل گیا اور سفارتی حلقوں میں ان کی پوزیشن مستحکم ہوئی۔ عمران خان مشترکہ اجلاس میں شریک ہوتے تو وہ پاناما لیکس کا مقدمہ خوبصورت انداز میں پیش کرتے‘ سفارتی حلقے ان کے خطاب کے اہم پہلوؤں کو اپنے اپنے ممالک میں سمری کی صورت میں بھجواتے، اس طرح عمران خان کا قد مزید بلند ہوتا۔ عمران خان کو کسی بھی فورم سے لا تعلق نہیں رہنا چاہئے کیونکہ پاکستان کے مستقبل کی سیاست ان کے ہاتھ میں ہے۔
کسی بھی ملک میں مستقبل کی اقتصادی، ترقیاتی‘ فلاحی اور تعلیمی منصوبہ بندی کے لئے مردم شماری کو ناگزیر سمجھا جاتا ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں گزشتہ بیس برسوںسے کسی بھی حکومت نے اپنی یہ ذمہ داری پوری نہیں کی۔ سپریم کورٹ باربار اس جانب توجہ دلا چکی ہے، اس معاملہ میں غیر ضروری تاخیر پر اسے از خود نوٹس لینا پڑا اور سماعت کے دوران سینئر جج میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مردم شماری کے متعلق حکومت کا تیار کردہ ٹائم فرہم مسترد کر دیا اور یہ کام جنگی بنیادوں پر کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اس مقصد کے لئے اساتذہ کی تربیت ابھی سے شروع کر دینی چاہیے۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ مردم شماری سے ہی معلوم ہوگا کہ ہماری اقتصادی پالیسی کی سمت کیا ہونی چاہیے۔ مردم شماری کی بنیاد پر ہی آئندہ انتخابات کا انعقاد ہوگا۔ انتخابی فہرستوں کی نظر ثانی کے بعد مردم شماری کے اعداد و شمار ہی کی روشنی میں حلقہ بندیوں کا کام شروع ہو گا۔ وفاقی حکومت کو مردم شماری کے لئے افواج پاکستان کی خدمات حاصل کرنا ہوں گی اور متعلقہ محکموں کو مردم شماری میں درپیش مشکلات کی بھی نشاندہی کرنا ہوگی۔ الیکشن کمیشن کو بھی اعتماد میں لینا ہوگا کیونکہ شماریات بلاک کی وجہ سے الیکشن کمیشن کو بھی انتظامی مشکلات کا سامنا ہوگا، اس لئے کہ ان کی انتخابی فہرست میں وارڈ اور ویلج کو ہی بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ملک میں اربن اور دیہی کے بارے میں حکومت کو نوٹیفکیشن جاری کرنا ہوگا اور ریونیو ڈیپارٹمنٹ سے از سر نوجائزہ لیا جانا ضروروی ہوگا۔ اب وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں بیان دیا ہے کہ فوجی عملہ ممکنہ طور پر نومبر یا دسمبر میں ہی دستیاب ہوگا، جبکہ اٹارنی جنرل نے مردم شماری کا آغاز مارچ 2017 ء میں کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ مردم شماری پہلے ہی بہت تاخیر کا شکار ہو چکی ہے۔ حکومت پاناما پیپرز کے سکینڈل اور عمران خان کی احتجاجی تحریک کے گرداب میںگھری ہوئی ہے۔ تاہم حکومت کو چاہیے کہ باقی دنیا میں جو سسٹم رائج ہیں، انہیں بھی دیکھے اور نادرا کے ذریعے خود کار نظام متعارف کرانے سمیت تمام طریقوں پر غور کرے تاکہ مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں الیکشن کمیشن درست اور قانونی طریقے سے حلقہ بندیاں کرواکے پارلیمنٹ کی نشستوں کو آئین و قانون کی روشنی میں از سر نو مرتب کرا سکے۔ اگر ملک میں پاناما لیکس اور وزیر اعظم کے خلاف ریفرنسز کی وجہ سے ہنگامی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے تو مردم شماری کے لئے ابتدائی انتظامات کو مکمل کر کے الیکشن کمیشن کی معاونت سے ابتدائی ڈھانچہ ترتیب دیا جا سکتاہے۔ آئندہ انتخابات کے لئے ہمارے سیاست دانوں اور جمہوری حکمرانوں کے رویوں کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ ہمارے ہاں اکثر سیاسی پارٹیوں کے اپنے اندر جمہوریت نہیںہے، وہ جمہورت کے لئے عوام میں جوش تو پیدا کرتی ہیں مگر خود جمہوری رویے کا مظاہر ہ نہیں کرتیں۔ اکثر سیاسی پارٹیاں موروثی اور فرد واحد کے طور پر چلائی جاتی ہیں۔ سیاسی پارٹیاں بظاہر انتخابی منشور تو بناتی ہیں مگر اندر خانے کوئی پارٹی ملک کی تقدیر بدلنے کا کوئی پروگرام نہیں رکھتی، ان کی منزل مقصود کسی نہ کسی طرح انتخابی کامیابی اور اقتدار کا حصول اور پھر ملکی خزانہ لوٹ کر ملکی و غیر ملکی اثاثوں میں بے پناہ اضافہ کرنا ہوتا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ میں تقسیم در تقسیم کی وجہ سے سیاسی بحران کا سیاسی جماعتیں بھرپورفائدہ اٹھانے کی کوششوں میں سرگرداں ہیں۔ ان کی نظر میں کراچی کی قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر لگی ہے۔ پیپلز پارٹی اس سیاسی خلا سے بھر پورفائدہ اٹھانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ مذہبی جماعتیں بھی اپنا حصہ وصول کرنے کی خواہاں ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کراچی میں بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ نہال ہاشمی اور سلیم ضیا کے سینیٹر بننے سے کراچی میںسیاسی قیادت کا خلا پیدا ہوگیا ہے اور وہ اپنی بقا کے لئے کوشاں ہے۔ ایم کیو ایم کی تقسیم کے بعد سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کا ووٹ بنک متاثر ہوا ہے اور ملیر کے حلقہ پی ایس 127 پر ایم کیو ایم کی شکست کو بھی اس ضمن میں بطور ثبوت پیش کیا جا رہا ہے؛ تاہم زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ایم کیو ایم کا ووٹ بنک کم ضرور ہوا ہے لیکن اب بھی اپنی روائتی نشستوں پر برتری رکھتی ہے۔ ایم کیو ایم کوآئندہ انتخابات میں صوبائی سطح پر سیاسی اتحاد بنا کہ ہی شکست دی جا سکتی ہے۔ مصطفی کمال کی پارٹی اس میں اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے کیونکہ شنید ہے کہ مصطفی کمال عمران خان اور جماعت اسلامی سے اتحاد کرنے کی پوزیشن میں ہیں، وگرنہ سندھ کے دیہی علاقوں میں پیپلز پارٹی اور شہری علاقوں میں متحدہ قومی موومنٹ کے مدمقابل کوئی جماعت نہیں ہے۔
عمران خان نے اب پوری طرح حکومت کے خلاف جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپنی پارٹی کو دور رکھنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک انصاف پاناما پیپرز کے نتائج تک پارلیمنٹ میں واپس نہیں آئے گی۔ دراصل اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ ، سابق صدر آصف علی زرداری نے نواز شریف سے ٹریک ٹو سیاست کا کھیل کھیل کر قوم کو مایوس کیا‘ ان کی ریشہ دوانیوں سے پارلیمنٹ بھی بے تو قیرہو کر رہ گئی ہے ۔ سینیٹر اعتزاز احسن بھی اپنی ترقی پسندانہ سوچ سے پیپلز پارٹی کو متاثر نہ کر سکے۔ آج قوم جس آئینی اور مالیاتی بحران کا شکار ہے اس کی پشت پر متحدہ اپوزیشن کا اہم کردار ہے۔ سید خورشید شاہ قوم کی توقع پر نہیں اترے اور اہم رہنماؤں کی میگا کرپشن بچانے کے لئے نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔
وزیر اعظم نے پاناما لیکس پر تاخیری حربے استعمال کر کے اپنے لئے مسائل پیدا کر لئے اور سنگین شکوک و شبہات پیدا ہو گئے۔ یہی روش وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اتحاد سے مذاکرات کرتے ہوئے اپنائی تھی اور ان کے تاخیری حربوں سے ملک مارشل لا کی لپیٹ میں آگیا تھا کیونکہ اپوزیشن اور حکومت کی جارحانہ پالیسیوں سے ملک میں خانہ جنگی کے اثرات سے عوامی اضطراب میں مبتلا ہو گئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں