"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن کے اختیارات چیلنج نہیں ہو سکتے

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ہاں وزیر اعظم نواز شریف اور عمران خان کی نااہلیت کے ریفرنسز زیر سماعت ہیں، لیکن جہانگیر ترین اور نواز شریف کے وکلا نے اس کے اختیارات کو چیلنج کر رکھا ہے۔ قوم جانتی ہے کہ نواز شریف فیملی کے لئے پاناما پیپرز کے معاملات نازک ہیں تو عمران خان کے لئے ٹیکس اور آف شورکمپنی کے مسائل بھی کچھ آسان نہیں، جبکہ الیکشن کمیشن میں جہانگیر ترین کا معاملہ بھی پیچیدہ ہے۔ بہتر ہوگا کہ میاں نواز شریف الیکشن کمیشن کے اختیارات کو چیلنج نہ کریںکیونکہ اگر تکنیکی اور قانونی تاویلات پر زور دیا گیا تو پھر ہمارے نظام میں کسی بدعنوان کو سزا مل ہی نہیں سکتی۔ وزیر اعظم نے مئی 2013ء کے مبینہ مشکوک انتخابات اور میگا کرپشن سے پورے نظام حکومت کو ہی متنازعہ بنا دیا ہے۔ پاناما پیپرز میں میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے ہاتھ صاف ہیں تو پھر میاں شہباز شریف کی دانشور اہلیہ ان کے مالیاتی سکینڈل پر انگلی کیوں اٹھا رہی ہیں؟ میاں نواز شریف نے 5 جون 2013ء کو قائد ایوان منتخب ہونے پر اپنے قومی خطاب میں پارلیمنٹ، الیکشن کمیشن، قومی احتساب بیورو، ایف بی آر، ایف آئی اے اور نادرا کو مکمل اختیارات سے لیس کرنے اور انہیں آزادانہ طور پر کام کرنے دینے کا وعدہ کیا تھا، جو وفا نہ ہوا۔ دوسری طرف بد قسمتی سے ہمارے پاس ایسا کوئی نظام بروئے کار نہیں ہے جو خود بخود کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے معاملات میں سیاسی دباؤ کے بغیر میرٹ پر بد عنوانی کرنے والوں کو سزا دے سکے۔
بینظیر بھٹو، آصف علی زرداری، نواز شریف، اسحاق ڈار جیسی اہم شخصیات کے خلاف کرپشن کے تین سو سے زائد کیسز ہمارے اداروں کے پاس ہیں لیکن ان پر کارروائی نہیں کی جاتی۔ اگست 1990ء میں صدر اسحاق نے بینظیر بھٹو کی حکومت کرپشن کی وجہ سے بر طرف کی۔ انہوں نے روئیداد خان کی سربراہی میں احتساب کا پہلا ادارہ بنایا اور اس کے ذریعے ستمبر/ اکتوبر1990ء میں آصف علی زرداری اور بینظیر بھٹو کے خلاف ریفرنسز دائر کئے گئے۔ لیکن بعض لوگوں کی بدنیتی اور عالمی اداروں کے دباؤ کے باعث ان کو نا اہل قرار نہیں دیا جا سکا۔ عدالتوں میں پیشیاں بھگتنے کے دوران ہی ان کو نومبر1990ء کے انتخابات میں کامیابی مل گئی۔ اس وقت سندھ ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی کی عدالت میں بھی بینظیر بھٹو پیش ہوتی رہیں۔
ایک دلچسپ صورت حال آج میں پہلی بار قارئین کے لئے پیش کر رہا ہوں اور وہ یہ کہ ستمبر1990ء میں سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ تھے اور ان کا جھکاؤ بے نظیر بھٹو کی طرف تھا۔ بینظیر بھٹو نے اپنی برطرفی کے خلاف مقدمہ سندھ ہائی کورٹ میں دائر کیا۔ فیصلے کی گھڑی قریب تھی کہ اچانک ایک سازش کے تحت گورنر سندھ محمود ہارون عمرے کے لئے سعودی عرب تشریف لے گئے۔ ان کی عدم موجودگی میں سید سجاد علی شاہ قائم مقام گورنر سندھ مقرر ہو گئے اور محترم سعید الزمان صدیقی قائم مقام چیف جسٹس بن گئے۔ انہوں نے بینظیر بھٹو کی پٹیشن مسترد کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی تحلیل کو آئینی قرار دے دیا۔ ادھر پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار فخر عالم اور جسٹس قاضی جمیل نے وفاقی حکومت کے اعلامیہ کو بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے صوبہ سرحد کی صوبائی اسمبلی کو بحال کرنے کا حکم دے دیا۔ سپریم کورٹ کے جسٹس عثمان علی شاہ نے جو ان دنوں پشاور میں تعطیل پر تھے، اپنے گھر سے ناشتے کی میز پر پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پر حکم امتناعی جاری کر دیا۔ میاں نواز شریف کو اقتدار میں لانے کے لئے کروڑوں روپے مختلف سیاسی رہنماؤں میں تقسیم کئے گئے جس پر سپریم کورٹ آٖف پاکستان نے ایئر مارشل اصغر خان کیس میں نومبر 1990ء کے انتخابات کو مشکوک قرار دے دیا۔
الیکشن کمیشن ان دنوں وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلیت کے ریفرنسزکی سماعت کر رہا ہے۔ میاں نواز شریف اور ان کی فیملی کے وکیل سلمان بٹ نے الیکشن کمیشن کے اختیارات کو چیلنج کر رکھا ہے۔ انہوں نے آئین کے آرٹیکل 225 کا حوالہ دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس آرٹیکل کے تحت پارلیمنٹ کی تشکیل کے بعد کسی رکن پارلیمنٹ کے خلاف اپیل کرنے کا حق نہیں ہے۔ سلمان بٹ پاکستان کے اٹارنی جنرل رہ چکے ہیں، ان کو احساس ہونا چاہیے کہ وفاقی حکومت عمران خان کے مطالبے پر انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کے لئے چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل کمیشن کے قیام پر رضامند ہو گئی تھی، اگرچہ کمیشن نے نظریہ ضرورت کے تحت یہ فیصلہ دیا کہ انتخابات میں منظم دھاندلی ثابت نہیں ہوئی، لہٰذا پورے انتخابات کو کالعدم قرار دینے کا کوئی جواز نہیں؛ حالانکہ آئین کے تحت یہ انکوائری کمیشن غیر آئینی تھا اور فاضل چیف جسٹس نے آئین سے انحراف کرتے ہوئے اس کی سربراہی قبول کی تھی۔ اس تناظر میں الیکشن میں دھاندلی کے خلاف کمیشن کی تشکیل کے بعد اب آئین کے آرٹیکل 225 کا حوالہ دینا غیر مناسب ہے۔ میں نے بطور سابق وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن چیف الیکشن کمشنر کو اپنے28 سالہ تجربے کی روشنی میں درخواست کی تھی کہ چونکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل 225 سے انحراف ہے، لہٰذا کمیشن سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست دائر کرے۔ چونکہ آئین کا آرٹیکل225 غیر فعال ہو چکا ہے اور آئندہ کے انتخابات میں جب کسی پارٹی کے پروگرام اور خواہش کے مطابق نتائج سامنے نہ آئے تو وہ دھاندلی کا سہارا لے کر پورے الیکشن کو کالعدم قرار دینے کے لئے سپریم کورٹ میں آئینی ریفرنسز دائر کرنے کا مجاز ہوگا، کیونکہ پارلیمنٹ کے تحفظ کا آرٹیکل 225 انکوائری کمیشن کی تشکیل کے بعد اپنی اہمیت کھو بیٹھا ہے۔
موجودہ تناظر میں آئین کی بے توقیری کی وجہ سے ریاست ایک مستحکم اور متحد قوم سے محروم ہو چکی ہے۔ مذہبی جماعتیں تقسیم در تقسیم ہیں، انتشار، خلفشار، خوف، وسوسے، افراتفری اور غیر معتدل حالات کے باعث پاکستان اندرونی اور بیرونی سازشوں کے گھیرے میں آ چکا ہے۔ سیاستدان شعوری یا لاشعوری طور پر بڑی طاقتوں کے آلہ کار بن چکے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق، نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف بھارتی لابی کے زیر اثرہو کر کالا باغ ڈیم جیسے قومی منصوبے بنانے میں ناکام رہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے احتساب کے لئے متحدہ اپوزیشن کے مرتب کردہ ٹرمز آف ریفرنسزکو مسترد کر دیا ہے جس سے سیاسی تنائو شدت اختیار کر چکا ہے اور اس کی وجہ سے تحریک آزادی کشمیر اور پاکستان چین اقتصادی راہداری کی راہ میں رخنے پڑنے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔ فرد واحد نے پاناما لیکس کے گہرے سمندر میں ڈوبنے سے بچنے کے لئے پاکستان کی وحدت کو ہی داؤ پر لگا دیا ہے۔ ملک کو خانہ جنگی، انارکی اور افراتفری کے لئے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ بھارت اور مبینہ
طور پر کچھ عرب ممالک ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سازش کے تحت پاک چین اقتصادی راہداری میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کی ہدایت پر سیاسی جماعتیں انٹرا پارٹی الیکشنز کرانے کے لئے سرگرم ہو گئی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پارٹی انتخابات ہو چکے ہیں جن میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو بلا مقابلہ پارٹی کا صدر منتخب کر لیا گیا ہے۔ باقی عہدیدار بھی اسی طرح منتخب کر لیے گئے ہیں۔ مبصرین کے مطابق ان انتخابات کو نامزدگی کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ بد قسمتی سے ہماری سیاسی پارٹیوںکے اندرونی انتخابات کبھی پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 62 اور بعد ازاں پولیٹیکل پارٹیز آرڈر2002 ء کی روح کے مطابق نہیں ہوئے۔ محض خانہ پری کے لئے قراردادوں کے ذریعے انتخابی عمل کو مکمل کروا لیا جاتا ہے؛ حالانکہ پارٹی کے اندرونی انتخابات کے لئے پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے آرٹیکل 12میں واضح طریقہ کار وضع کر دیا گیا ہے، جس کے تحت تمام عہدیداروں کا انتخاب لازمی قرار دیا گیا ہے۔ پارٹی کے انتخابات کے لئے لوکل سطح سے وفاقی سطح تک انتخابات کرانا لازمی ہے۔ ہمارے ہاں کسی سیاسی پارٹی نے پارٹی شناختی کارڈ جاری نہیں کئے سوائے جماعت اسلامی یا بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے جنہوں نے پارٹی ممبر شپ کارڈ جاری کئے ہوئے ہیں۔ ان ووٹروں کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ پارٹی کے سربراہ کی طرف ممبر شپ کارڈ کا اجراء ہوتا ہے۔ اب حکمران جماعت نے اپنی پارٹی کے جو انتخابات کروائے ہیں ان کا انتخابی شیڈول صرف پانچ دنوں پر محیط تھا۔ اس انداز سے انتخابی مراحل پورے کرنا محض الیکشن کمیشن کے لئے خانہ پری کرنا ہے۔ 
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے آئین کے مطابق 18 اکتوبر کو جو انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے ہیں وہ میری دانست میں پولیٹیکل پارٹیز آرڈر2002 ء کے آرٹیکل 12 سے مطابقت رکھتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں