"KDC" (space) message & send to 7575

نواز شریف کے اقتدارکو لاحق خطرات

عسکری ذرائع نے وضاحت کی ہے کہ انہوں نے ڈان کے صحافی سرل المیڈا کے خلاف کارروائی کا مطالبہ نہیں کیا۔ انہوں نے کسی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کا نہیں کہا۔ آرمی کا مطالبہ یہ ہے کہ خبر لیک کرنے والوں کے خلاف ایکشن لیا جائے۔ آرمی کا مطمح نظر یہ ہے کہ اتنی حساس خبر اتنے اہم اجلاس سے ڈان تک کیسے پہنچی؟ آرمی کو ڈان کے اسسٹنٹ ایڈیٹر سرل المیڈا پر اعتراض نہیں ہے۔
ملک میں فعال وزیر خارجہ کی عدم موجودگی کی وجہ سے پاکستان کی خارجہ پالیسی ہر محاذ پر ناکام ہو رہی ہے، ملک تنہائی کی طرف جا رہا ہے۔ حکومت کا مخصوص چار کا ٹولہ ان ناکامیوں کی ذمہ داری عسکری اسٹیبلشمنٹ پر عائدکرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس چار کے ٹولے نے مخصوص منصوبہ بندی کے ذریعے افواج پاکستان پر تنقید کروانے کے لئے اپنے زیر اثر میڈیا پرسنز کے ذریعے مہم چلا رکھی ہے۔ اس منصوبے کی پشت پر غیر سرکاری میڈیا مینجمنٹ کے محرکات ناقابل فہم نہیں۔ حکومت کے جس با اثر وفاقی وزیر نے ڈان کے سرل المیڈا کو مہرے کے طور پر استعمال کیا، اس کا مقصد جنرل راحیل شریف کی عوامی مقبولیت کو نیچا دکھانا تھا۔ بظاہر حکومت اپنے اس مقصد میں اپنے اندازے سے بھی زیادہ کامیاب ہوئی، طاقتور عالمی حلقوں میں مقبول ہوئی اور پاناما پیپرزکے راز ہمیشہ کے لئے گہرے سمندر میں چلے گئے۔ وزیر اعظم نواز شریف ان طاقتوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئے کہ ان کی خارجہ پالیسی کو جنرل راحیل شریف نے یرغمال بنا
رکھا ہے، انہی کی وجہ سے حافـظ سعید اور مولانا مسعود اظہر ان کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ سفارتی حلقوں نے ڈان کی رپورٹ کو اپنے ریمارکس کے ساتھ اپنی حکومتوں تک پہنچا کر پاکستان کی آرمی کو ایک طرح سے بند گلی میں کھڑا کر دیا ہے۔ جن بین الاقوامی قوتوں کے طفیل مئی 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نون اقتدار میں آئی تھی، اب انہی قوتوں نے اس جماعت کے سربراہ میاں نواز شریف کے لئے آئندہ انتخابات کی راہ متعین کرنی ہے۔ جنرل راحیل شریف کی زیر کمان آپریشن ضرب عضب نے وزیرستان سے دہشت گردوںکی تخریبی مہم کا رخ پھیر دیا تھا اور کراچی کا امن بھی بڑی حد تک بحال ہو گیا، اب ان کی ریٹائرمنٹ کے نزدیک آتے ہی حکمران جماعت کے عقابی لیڈروں نے پاکستان کی تنہائی کی وجہ جنرل راحیل شیر کو قرار دے دیا ہے۔ حکومتی میڈیا نے پاکستان کی عالمی تنہائی کی شام غریباں سجا دی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ جنرل راحیل شریف کو زچ کر کے ان کے جانشین کے لئے بھی کانٹوں کا جال بچھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
عمران خان پاناما پیپرز میں وزیر اعظم کے اہل خانہ کے نام شامل ہونے پر وضاحت اور احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ خود وزیر اعظم نے بھی پاناما پیپرزکے منظر عام پر آنے کے بعد قوم سے خطاب اور بعد ازاں پارلیمنٹ میں اپنی تقریر کے دوران یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ملک سے ہر قسم کے احتساب کے لئے خود کو پیش کر دیں گے۔ چنانچہ احتساب کا طریقہ کار طے کرنے کے لئے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی، لیکن متعدد اجلاسوں کے باوجود حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق نہیں ہو سکا۔ سپیکر قومی اسمبلی نے جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف دائر کردہ ریفرنسز خارج کر دیے؛ تاہم اب یہ معاملہ لاہور ہائیکورٹ، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور سپریم کورٹ میں سماعت کے لئے منظور ہو چکا ہے۔ سپریم کورٹ نے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے کے لئے فریقین کے دلائل سننے کے لئے یکم نومبر کی تاریخ مقرر کر دی ہے۔ الیکشن کمیشن حالات کی نزاکت کو محسوس نہیں کر رہا اور طویل المیعاد تاریخیں دے رہا ہے۔ اسی تناظر میں عمران خان 2نومبرکو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کو بند کرنے کے لئے پر عزم ہیں۔ اس ہنگامہ خیز اعلان سے حکمران جماعت کی رات کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔ ڈان کی رپورٹ سے
وزیر اعظم کی عسکری اسٹیبلشمنٹ سے کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ عمران خان کے سنگین چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے حکمران جماعت اپنے اتحادیوں کی معاونت کے باوجود عملی طور پر تنہا کھڑی ہے۔ اب وزیر اعظم کو دو سنگین مسائل کا سامنا ہے۔۔۔۔ایک عمران خان اور دوسرے عسکری ادارے۔ عمران خان کی مقبولیت حکمرانوں کے راستے کا کانٹا تو تھی ہی، اب فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی ان کے لئے بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ 2 نومبر کا اسلام آباد مارچ اور اس کو بند کرنے کا عمل کوئی بھی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ میڈیا میں حکومت کے حامی صحافیوں میں پریشانی کی لہر دوڑ چکی ہے اور انہوں نے حکومت کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کے خلاف خاموشی سے ایک مہم شروع کر رکھی ہے۔ وزیر اعظم نے بھی حوصلہ دکھاتے ہوئے (ان کے خیال میں) پاکستان کی تنہائی کا باعث بننے والی آئی ایس آئی کی سکیورٹی کے حوالے سے پالیسیوں پر بات کی۔ میٹنگ کی تفصیل سے اس بات کی عکاسی ہو چکی ہے کہ جیسے آرمی بے دست و پا کھڑی ہے اور تفتیش وطاقت کی چھڑی حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف سے عسکری قوتوں نے مطالبہ کر رکھا ہے کہ حساس نوعیت کی خبرکو لیک کرنے والوں کے خلاف کارروائی کریں اور اس مقصد کے لئے باقاعدہ چارج شیٹ/ ریفرنس کی صورت میں فائل وزیر اعظم کو پیش کر دی گئی ہے۔ اگر آرمی کی اس ناپسندیدگی پر نواز حکومت کارروائی نہیں کرتی تو میڈیا میں کھل کر ہونے والی بحث کے مطابق نواز حکومت کا یہ رویہ 22 اگست کے سانحہ سے بھی زیادہ تشویش ناک صورت اختیار کر سکتا ہے۔ یاد رہے کہ 22 اگست کی تقریر نے الطاف حسین کو اپنی جماعت کے قائد سے بانی بنا دیا اور ان کی جماعت نے ان سے برملا لا تعلقی کا اظہارکر دیا ہے۔ اب اسی طرح کی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ حکمران جماعت میں ایک مضبوط گروپ نواز شریف کے خلاف لا تعلقی کا اعلامیہ جاری کرنے کے لئے تیاری مکمل کر رہا ہے۔ اسی بوکھلاہٹ میں ترجمان حکومت پاکستان پرویز رشید نے عمران خان کو دھمکی دی ہے کہ وہ 2نومبر کو اسلام آباد میں نظر نہیں آئیںگے۔ 
اب اس سنگین مسئلہ کو مزید خطرناک نہج پر چلانے کے لئے ایک قومی اخبار کے 1968ء سے مراعات یافتہ صحافی نے جن کے غیر ملکی ایجنسیوں سے رابطے ہیں، وزیر اعظم نواز شریف کی اقتدار کی کرسی کے نیچے آتشی انگیٹھی رکھ دی ہے۔ اب نواز شریف کو صرف عمران خان سے خطرہ نہیں رہا، اندرونی سازشی عناصر نے بھی سرل المیڈا کے ذریعے مجرمانہ سازش کی ہے۔ اب ایسے سازشی کرداروں کی گرفتاری کے ساتھ ساتھ پاناما پیپرز کے مقدمات بھی کھل چکے ہیں اور حکمران جماعت کے 80 کے لگ بھگ ارکان اسمبلی بھی علیحدہ طور پر محرک ہو رہے ہیں جس کی میں 2014ء سے نشان دہی کرتا آ رہا ہوں۔ اب حکومت کو غیرمعمولی عیاری سے گریز کرنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں