"KDC" (space) message & send to 7575

حکمران اندرونی خطرات کی لپیٹ میں

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیے ہیںکہ ملک میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم ہے اور گڈگورننس کے نام پر بیڈگورننس کا راج ہے۔ عوام نے اگر ایسے ہی لوگوں کو ووٹ دیے تو پھر ایسا ہی ہوگا۔ جمہوریت کے نام پر مذاق ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس نے اس برہمی کا اظہار اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کے نام پر تاریخی ورثے کو نقصان پہنچانے کی درخواست پر سماعت کے دوران اپنے ریمار کس میں کیا۔ محترم چیف جسٹس ووٹ کی اہمیت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی کارکردگی سے باخبر ہیں کیونکہ وہ خود قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں ۔انہیں مئی 2013 ء کے انتخابات کے بارے میں مکمل ادراک حاصل ہے۔ لہٰذا حکومت کو ان کے ریمارکس کی روشنی میں اپنی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے انتخابی اصلاحات کو ایسے موثر طریقے سے نافذ کرنا چاہیے کہ آئندہ انتخابات کے نتائج متنازعہ نہ بن سکیں۔ عوام بھی حکومت کی انتخابی چال بازیوں اور دوسری کارروائیوں سے بخوبی واقف ہیں۔ سرکاری خرچ پر جاتی امرا کی ذاتی رہائش گاہ وزیر اعظم کا کیمپ آفس قرار دے کر اس کے ارد گرد کنکریٹ کی چوڑی دیوار 75 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کرائی گئی جس کا بظاہرکوئی جواز نہیں ہے ۔ اس اعتبار سے محترم چیف جسٹس کے ریمارکس عوامی جذبات کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔
پاکستان آج بین الاقوامی سطح پر تنہائی کا شکار ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی داخلہ و خارجہ پالیسی اور پاناما پیپرز میں میگا کرپشن کے انکشاف کی وجہ سے ان کی ساکھ سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم ہائوس میں اعلیٰ سطح کے اہم سکیورٹی اجلاس کے بعد ڈان اخبار میں جو خبر شائع ہوئی اس پر عسکری ادارے کی طرف سے سخت رد عمل کا اظہار کیا گیا۔کورکمانڈرز کانفرنس کے بعد جاری کی گئی پریس ریلیز میں Feed کا لفظ استعمال کیا گیا جو یہ تاثر دے رہا ہے کہ سول حکومت کی جانب سے ڈان اخبار کو خبر فیڈ کی گئی جس سے وزیر اعظم ہاؤس کے کلیدی اور با اثر بیوروکریٹس کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں اور اسے مسلم لیگ نون کے میڈیا سیل کی کارستانی قرار دیا جا رہا ہے۔ خبر فیڈ کرنے میں ایک وفاقی وزیر کا نام بھی لیا جا رہا ہے جس کی پشت پر ملک کی اہم ترین شخصیت کھڑی ہے۔
یہ تاثر ملتا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے شکایت کی کہ جب بھی سویلین حکام مخصوص گروہوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں، عسکری حکام پس پردہ کام کرتے ہوئے گرفتار شدہ افراد کو رہا کرا دیتے ہیں۔ وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس میں سیکرٹری خارجہ کی انتہائی راز دارانہ گفتگوکو بھی فیڈ کروایا گیا۔ اس خبر سے قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں اور اس سے بھارت کو فائدہ پہنچا جبکہ اداروں کے وقار پر سوال اٹھا۔ چنانچہ عسکری قیادت نے ڈان کو خبر فیڈ کروانے کے عمل کو قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ وزیر اعظم آفس میں جو میڈیا سیل کام کر رہا ہے وہ مبینہ طور پر باخبر اور با اثر صحافیوںکو اہم اجلاسوں اور فیصلوں سے آگاہ رکھتا ہے، لہٰذا ان کی دی گئی خبریں سچ ہوتی ہیں۔ اکثر اوقات ان کو اندرکی کہانی سے آگاہ کرنے کے بعد اس کے افشاسے منع بھی کردیا جاتا ہے۔ جب کسی حوالے سے کوئی خصوصی خبر افشاکرنا ہوتی ہے تو با اثر صحافیوںکی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ اس بار سکیورٹی امور سے متعلق اجلاس کی اندرونی روئیداد کو فیڈ کرنے کے لئے مبینہ طور پر ایک وفاقی وزیر اور دو بیوروکریٹس کو ذمہ داری سونپی گئی۔ یہ معاملہ اب انتہائی سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ عسکری ادارے کو تمام محرکات اور پس منظر سے آگاہی حاصل ہے۔ اس حوالے سے18جولائی 1993ء جیسا واقعہ پیش آنے کا امکان پیدا ہو رہا ہے، جب اس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کا کڑ نے وزیر اعظم اور صدر سے استعفیٰ طلب کر لیا تھا۔ اُن دنوں بھی امریکی اخبارات میں پاکستان کی افواج کے خلاف ایسا مواد چھپوایا جا رہا تھا اور ان پر اسی طرح کے الزامات لگائے جا رہے تھے۔ اُس وقت بھی حکومت کا موقف یہی تھا کہ ہمیں کچھ علم نہیں، بلکہ سخت افسوس اور دکھ ہے۔ اسی طرح کارگل کی جنگ کے موقع پر بھی امریکی اخبارات میں روگ آرمی کے عنوان سے اشتہارات شائع کروائے گئے اور لاہور کے ایک میگزین میں آرمی کی تضحیک پر مبنی مواد شائع کروایا گیا۔ اس ماہانہ میگزین کو مبینہ طور پر پچاس لاکھ روپے ادا کئے گئے۔ بد قسمتی سے جنرل پرویز مشرف بھی اقتدار میں آنے کے بعد اس ابلاغی سازش کی تہہ تک نہ پہنچے اور تمام کرداروں میں سے صرف ایک کردار کی چھترول کے بعد باہر جانے کی اجازت دے دی گئی۔
وزیر اعظم ہاؤس میں جو میڈیا سیل فعال کردار ادا کر رہا ہے اس میں مبینہ طور پر ایجنسیوں کے نمائندے بھی کام کر رہے ہیں جو حکومت کے پسندیدہ اور معتمد ہیں۔ اس سیل میں شامل صحافیوں کے ذریعے وزیر اعظم کی ذاتی نقل و حرکت ‘ خاندانی امور اور اختلافات کے بارے میں ایجنسیاں خبریں حاصل کرتی ہیں۔ حکومت کے خفیہ فنڈز سے ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے اور شنید ہے کہ ان صحافیوں کو بھاری معاوضہ پاکستان ٹیلی ویژن کے ذریعے ادا کیا جاتا ہے۔ بعض اینکرز جن کا براہ راست رابطہ اس میڈیا سیل سے ہے، اگر میڈیا مالکان سے ان کے تعلقات کشیدہ ہو جائیں تو پھر وزیر اعظم آفس کا اثر و رسوخ ہی ان کو مالکان کے غیظ و غضب سے بچالیتا ہے۔ وزیراعظم ہاؤس کی ایک ایسی اہم میٹنگ جس میں قومی سلامتی کے متعلق حساس معاملات پر گفتگو کی جارہی ہو اور جس کے شرکاء میں وزیر اعظم‘ آرمی چیف ‘ وزیر اعلیٰ پنجاب، وزیر داخلہ، وزیر دفاع، ڈی جی آئی ا یس آئی، سیکرٹری خارجہ کے علاوہ دو تین سینئر سول افسران شریک ہوں، اس میں ہونے والی گفتگو کو فیڈ کرواکے ڈان اخبار میں شائع کروانا کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ دوسری جانب سرکاری صحافیوں کے ذریعے حکومت سے سوال کیا جا رہا ہے کہ ابھی تک نئے آرمی چیف کے نام کا اعلان کیوں نہیں کیاگیا؟ جبکہ زمینی حقائق یوں ہیں کہ عسکری قیادت ایک غلط خبر فیڈ کرنے پر سخت اضطراب کی کیفیت میں ہے اور اب خود متعلقہ سازشی عناصر کے خلاف کارروائی کرنا چاہ رہی ہے۔ معتبر ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں انہوں نے اپنے مخصوص اداروں کو خصوصی اختیارات بھی تفویض کر دیے ہیں۔
وزیر اعظم کے حامی صحافی سوچ رہے ہیں کہ ایسی حکمت عملی اپنائی جائے جس سے وزیر اعظم کو وقت ملے‘ وہ موجودہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کے بعد کسی ایسے آرمی چیف کو مقررکر سکیں جو اپنے ابتدائی دو سالوں میں نرم رویہ رکھے اور مداخلت نہ کرے ‘اس طرح آئندہ انتخابات کے لئے جو نگران سیٹ اپ بنایا جائے گا اس کی معاونت سے اپنے پسندیدہ نتائج حاصل کر لیے جائیں۔ اور پھر آٹھ لاکھ پولنگ سٹاف کا تعلق بھی تو انتظامیہ ہی سے ہوگا۔
ذرائع کے مطابق ان تمام معروضی حالات میں نیوز لیک/ فیڈ کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے عسکری اسٹیبلشمنٹ آخری قدم اٹھانے کے لئے تیار ہے۔ بد قسمتی سے وزیر اعظم نواز شریف اپنے انہی ساتھیوںکے نرغے میں ہیں جن کے بارے میں مرحوم میاں محمد شریف نے 15 اکتوبر 1999ء کو نوائے وقت کو انٹرویو دیتے ہوئے اشارہ دیا تھا کہ میرے بیٹے اور پوتے ایک شخص کی فوج کے بارے میں پالیسیوں کی وجہ سے آج جیل میں ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں