"KDC" (space) message & send to 7575

فوجی کمانڈروں کی تشویش

سپریم کورٹ نے عدلیہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان، امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق، عوامی مسلم لیگ کے چیئر مین شیخ رشید احمد اور دیگر درخواست گزاروں کی پانامہ لیکس کی تحقیقات کے حوالہ سے دائر کردہ آئینی درخواستوں کی ابتدائی سماعت کے بعد وزیر اعظم نواز شریف ، سینیٹر اسحاق ڈار، حسین نواز، حسن نواز اور مریم نواز کو یکم نومبر کو عدالت عظمی میں اپنے اصلی شناختی کارڈوں کے ہمراہ پیش ہونے کا تاریخی حکم نامہ جاری کر دیا۔ سپریم کورٹ کے ابتدائی اقدام کا خوش آئند پہلو یہ ہے کِہ کنفیوژن کی فضاء میں سپریم کورٹ کا ابتدائی فیصلہ نہ صرف روشنی کی کرن ثابت ہوا ہے بلکہ اس اقدام سے گڈ گورننس اور کھربوں روپے کی رقوم بیرون ممالک منتقلی کے بارے میں واضح راستے کا تعین بھی ہو گیا۔ بہترین جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام کے لئے یہی درست لائحہ عمل ہے، اور اسی پس منظر میں وزیر اعظم نواز شریف صحت کے ابتر نظام کا ذکر کرتے ہوئے آنکھوں میں آنسو لے آئے، اگر ان کو غرباء سے اتنا ہی لگاؤ ہے تو تین دفعہ حکومت کرنے کے باوجود صحت کے بارے میں سسٹم کو بہتر کیوں نہیں بنایا۔ کھربوں روپے اورنج ٹرین اور میٹرو بسوں پرضائع کر دیئے۔ اپنی شہرت کے لئے 30 ارب روپے سے زائد پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں جھونک دئیے۔
سندھ میں پندرہ سال سے گورنری کے منصب پر فائز ڈاکٹر عشرت العباد اور مصطفی کمال کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف سنگین الزامات تراشی پر مبنی شدید رد عمل کی بناء پر نہایت سنجیدہ سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ دونوں حضرات متحدہ قومی موومنٹ سے نہایت اہم حیثیتوں میں وابستہ رہے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی فہرست میں 12 مئی 2007ء کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی آمد پر کراچی میں ہونے والی خون ریزی، سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں ایک فیکٹری کو بھتہ نہ دینے پر تین سو مزدوروں سمیت جلا کر راکھ کر دینے، کراچی میں لیاری ایکسپریس وے اور کے فور جیسے اربوں روپے کے منصوبوں میں بھاری کرپشن ، کراچی سے اربوں روپے کے بھتوں کی وصولی کی رقم دبئی کے راستے لندن پہنچانے اور عظیم احمد طارق سمیت حکیم سعید کے قتل تک کے الزامات شامل ہیں، ٹی وی چینلوں پر یہ دونوں صاحبان ایک دوسرے کے خلاف اپنے الزامات کا مسلسل اعادہ بھی کر رہے ہیںمصطفی کمال نے گورنر سندھ کی دوہری شہریت کی نشاند دہی کر کے سنگین مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔ اگر یہ الزام درست ہے تو پھر ڈاکٹر عشرت العباد کے خلاف حقائق کو چھپانے اور اپنے گورنری شپ کے حلف نامے سے انحراف کی بناء پر ان کے خلاف ریاست سے غیر وفاداری کے حوالہ سے مقدمہ دائر ہو سکتا ہے۔ کیونکہ گورنر بننے کے لئے آئینی شرط یہی ہے کہ ایسے فرد کوگورنر بنایا جا سکتا ہے جو پارلیمنٹ کا الیکشن لڑنے کا اہل ہو! آئین کے آرٹیکل 62 اور63 پر پورا اُترتارکھتا ہو۔ مصطفی کمال کے بقول ڈاکٹر عشرت العباد 2009ء میں برٹش شہریت اختیارکر چکے تھے اس طرح انہوں نے صریحاً آئین کے آرٹیکل 62 کی خلاف ورزی کی اور اب سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں گورنر کو عہدے سے سبکدوش ہونا پڑے گا اور یوں 2009ء سے اب تک کی تمام مراعات واپس کرنا اور تا حیات نا اہلیت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ مصطفی کمال، ڈاکٹر عشر ت العباد اور ڈاکٹر فاروق ستار کے درمیان متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت کا جھگڑا شروع ہو گیا ہے، یہ سب سیاسی رہنما الطاف حسین کے قریبی وفادار تھے، اب چونکہ الطاف حسین کو ایم کیو ایم پاکستان سے محروم کر دیا گیا ہے اس لئے اب قیادت کی جنگ کی تیاری ہو رہی ہے اور نئی متحدہ قومی موومنٹ کے لئے راستہ ہموار کیا جا رہا ہے، متحدہ قومی موومنٹ کو ایک نئے لیڈر کی ضرورت پیش آرہی ہے، لیکن ڈاکٹر عشرت العباد، مصطفی کمال اور ایم کیو ایم کے بعض دیگر 
رہنمائوں میں ایسی صلاحیت نظر نہیں آتی جو اردو بولنے والوں کی قیادت کر سکے۔ اصولی طور پر مصطفی کمال کو ڈاکٹر عشرت العباد ، الطاف حسین اور ڈاکٹر فاروق ستار کے بارے میں میانہ روی کا لہجہ اختیار کرنا چاہئے تھا۔ بلاول بھٹو زرداری اور سندھ کی حکمران جماعت نے مستقبل کی قیادت کے خطرات کو بھانپتے ہوئے الطاف حسین سے در پردہ رابطے قائم کر لئے ہیں انہیں خدشہ ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ کے متحدہ قومی موومنٹ میں مدغم ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ایک خاصاطبقہ پرویز مشرف کے وژن کا قائل ہے ؛چنانچہ کراچی کی با اثر شخصیات ان سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لئے متحرک ہو چکی ہیں، پیر پگاڑا مرحوم کی آج سے تیس سال پہلے کی پیش گوئی درست ثابت ہوتی نظر آرہی ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کی عافیت مسلم لیگ ہی میں ہے۔ 
پاکستان کی سیاست کے تلاطم میں سیرل المیڈا کو فیڈ کرنے والوں چہروں سے نقاب اترنے ہی والا ہے۔جس فتنہ پرور نے سکیورٹی امور کی خبر کو فیڈ کیا ہے اس کا سراغ لگانے کے لئے آرمی چیف نے وزیر اعظم سے دو بار ملاقات کی ہے اور ان تک فوج کا اضطراب اسی انداز میں پہنچا دیا ہے جس طرح جون 1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے فوجی کمانڈروں کی تشویش مسٹر بھٹو کو پہنچائی تھی۔ وزیر اعظم کوتاریخ سے شغف نہیں۔ اس لیے بھیانک نتائج کا سامناکرتے ہیں۔بھٹو مرحوم نے بھی جنرل ضیاء الحق کے تشویش ناک تجزیے کو پس پشت ڈال دیا تھا اور آئی بی کے ڈائریکٹر جنرل راؤ عبدالرشید خان کے بھی سیکرٹ نوٹ کو نظر انداز کر دیا تھا جس میں انہوں نے 28 جون 1977ء کو فوج کی پیش قدمی کے بارے میں وزیر اعظم کو آگاہ کر دیا تھا! اب وزیر اعظم نواز شریف کو احساس ہونا چاہئے کہ تاریخ کے ارتقائی عمل اور عوام میں سیاسی شعور کی بیداری سے حالات بدل گئے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے بھی وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت اور اسمبلیوں کو بر طرف کر کے یکم جون 1987 ء کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے آنسو بہائے تھے موصوف تمام اختیارات ، مالی وسائل اور سیاسی طاقت کے باوجود قوم کے مسائل حل نہ کر سکے۔ آنسوؤںکا سہارا لینے پر مجبور ہو گئے۔ معاملات کو بگڑنے سے بچانے کی زیادہ ذمہ داری ہمیشہ بر سر اقتدار قیادت پر ہی عائد ہوتی ہے، صاحب بصیرت قیادتیں ملکی و قومی مفادات کے تحفظ کے لئے اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لیکر چلنے کی کوشش کرتی ہیں، لہٰذا وزیر اعظم خود پہل کریں۔ متحدہ اپوزیشن کے تیار کردہ ٹرمز آف ریفرنسز کی منظوری دے کر سپریم کورٹ میں از سر نو ریفرنس بھجوا کر انکوائری کمیشن کی استدعا کریں، عوام مضطرب ہیں کیونکہ نیوز لیکس کے بعد سیکورٹی اداروں کا حکومت پر اعتماد برقرار نہیں رہا۔ یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ آئین کے آرٹیکل 9 کے تحت آرمی ملک کی سلامتی کی ضمانت دیتی ہے۔!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں