"KDC" (space) message & send to 7575

کرپشن کا الزام اور عمران خان

عمران خان نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف پر کینیڈین شہریت کے حامل جاوید صادق کے ذریعے ساڑھے چھبیس ارب روپے کمیشن کا الزام لگایا جس کے جواب میں شہباز شریف نے عمران خان کو اتنی ہی مالیت کے ہرجانے کا نوٹس بھیج دیا اور یہ اعلان بھی کیا کہ اگر ان پر یہ الزام ثابت ہوگیا تو وہ خاندان سمیت سیاست چھوڑ دیںگے۔ یوں تو چیف جسٹس آف پاکستان بھی ملک کے تمام اداروں کی کارکردگی کے بارے میں تحفظات کا اظہارکر چکے ہیں کہ پاکستان کرپشن کے حوالے سے تباہی کے دہانے پرکھڑا ہے۔ عمران خان نے اپنے الزامات میں کہا ہے کہ جاوید صادق وزیر اعلیٰ کے فرنٹ مین کے طور پر چار منصوبوں میں 15ارب کمیشن وصول کر چکا ہے جن نیو اسلام آباد ایئر پورٹ، سافٹ ویئر پارک، قائداعظم سولر پارک، ملتان سکھر موٹر وے شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ الزام ثابت ہونے پر شہباز شریف کے سیاست چھوڑنے سے قوم کو کیا فائدہ ہوگا۔ یہ اعلان قوم کو بے وقوف بنانے کی روایت کا اعادہ ہے۔ میاں شہباز شریف ترکی اور چین کے نظام حکومت سے بہت متاثر ہیں، انہیں چاہیے تھا کہ وہ اعلان کرتے کہ رشوت ثابت ہونے پر ان کو چین اور ترکی کے قوانین کے مطابق سزا دی جائے، ان کی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد ضبط کر لی جائے اور انتخابی فہرست سے ان کا نام خارج کر کے ان کو دوسرے درجے کا شہری قرار دیا جائے، جاوید صادق کے ریڈ وارنٹ جاری کر کے انہیں پاکستان لایا جائے۔ اگرچہ شہباز شریف انہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے جو وعدے کیے اور آصف زرداری سے لوٹی ہوئی دولت واپس لینے کے لیے جو وعدے کیے تھے انہیں پورا نہیں کیا۔
ریاست حکمران طبقے کی طرف سے اربوں ڈالر کی مبینہ کرپشن کی وجہ سے غیر یقینی صورت حال سے دو چار ہے۔ آنے والے ہفتے فیصلہ کن ہیں جو ملک کے آئندہ سیاسی نظام کے مستقبل کا تعین کریںگے۔ وزیر اعظم نواز شریف کو سیاسی زندگی میں اپنی بقا کے سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ عمران خان نے ایک طرف حکومت پر دبائو بہت زیادہ بڑھا دیا لیکن اس کے ساتھ اپنے لیے آپشن بھی محدود کر لیے ہیں۔ اب وہ پوائنٹ آف نو ریٹرن کی جانب بڑھ چکے ہیں۔ سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے میاں نواز شریف کی نااہلیت کے ریفرنسز اور پاناما لیکس پر سماعت شروع ہو چکی ہے۔ ان مقدمات کی بنا پر حکومت اور اس کے حامی صحافی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان عدالتوں کے فیصلوں کا انتظار کریں اور احتجاجی مہم ملتوی کر دیں۔ 
دراصل ہمارے ہاں کا عدالتی نظام انتہائی پیچیدہ ہے جس میں انصاف کے حصول کے لیے کئی دہائیاں لگ جاتی ہیں۔ ایئر مارشل اصغر خان کے کیس کا بیس سال بعد فیصلہ نہیں ہوا۔ خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف حکم امتناعی پر حکومتی منصب سنبھالے ہوئے ہیں۔ اسی طرح پاناما لیکس کا معاملہ حل ہونے میں بھی طویل عرصہ لگ سکتا ہے۔شاید سماعت کے دوران آئندہ انتخابات کا وقت آ جائے۔ انڈین ہائی کورٹس نے تو یہ فیصلہ دے رکھا ہے کہ جس امیدوار کے خلاف کرپشن کے مقدمات زیر سماعت ہیں وہ انتخابات میں حصہ لینے کی اہلیت نہیں رکھتے، لیکن ہمارے ہاں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے یہ پابندی ختم کر دی گئی؛ چنانچہ جن کے خلاف کرپشن کے مقدمات زیر سماعت ہیں وہ انتخابی عمل میں حصہ لے سکتے ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف نے پاناما لیکس کے معاملہ کو حل کرنے کے بجائے تاخیری حربے استعمال کیے اور اپوزیشن کے مقابلے کے لیے محاذ آرائی کو تقویت دی۔ اس طرح حکومت نے قیمتی مواقع ضائع کر دیے۔ اب بھی وزیر اعظم کے پاس آخری موقع ہے کہ وہ زمینی حقائق کو دیکھتے اور ماضی کے واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے اقتدار سے دستبرداری کا اعلان کرکے نیا لیڈر آف دی ہاؤس منتخب کرا دیں اور خود پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے بالواسطہ ملک پر حکومت کریں۔
اس طرح کی صورت حال 2005ء میں جب انڈونیشیا کے صدر سہارتوکو پیش آئی تو انہوں نے اقتدار سے دستبرداری کا اعلان کر دیا تھا۔ 1969 ء میں ایوب خان بھی اقتدار سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ عوامی دبائو پر شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی1951ء اور پھر 1979ء میں اقتدار سے سبکدوش ہو کر جلا وطن ہو گئے تھے۔ میاں نواز شریف کا معاملہ اس لحاظ سے مختلف ہے کہ ملک میں ان کا ووٹ بنک موجود ہے، لہٰذا اقتدار سے دستبرداری کے بعد بھی وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت سنبھال رکھیں گے اور اپنی مرضی کا لیڈر آف دی ہائوس آگے لا سکیں گے۔
عمران خان کی مہم کے باعث ملک کے اندر اور بیرون ملک پاکستان کے حکمرانوں کا تاثر کرپشن میں ملوث ہونے کا بن چکا ہے۔ ذرائع کے مطابق چین اس صورت حال کا گہری نظروں سے جائزہ لے رہا ہے کیونکہ جس طرح عمران خان نے جاوید صدق کے چینی کمپنیوں کے ساتھ رابطوں کی بات کی ہے اس سے ان کمپنیوں اور چینی حکومت کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ شہباز شریف کو چاہیے تھا کہ وہ عمران خان کو ہرجانے کا نوٹس دینے کے بجائے جاوید صادق کو نیب کے حوالے کر کے آزادنہ انکوائری کرواتے۔ 
وزیر اعظم نواز شریف کو بھی اپنے میڈیا سیل کے سہارے حکومت نہیں کرنی چاہیے۔ اگر عمران خان کی تحریک کا تیسرا کنارہ سامنے آگیا تو یہی صحافی اسی کا رخ کریں گے۔ میڈیا بھی اپنے کاروباری مفادات کی خیال رکھے گا۔ عسکری ایسٹیبلشمنٹ نے صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس نے آصف علی زرداری کے تند و تیز ریمارکس اور اب روزنامہ ڈان کے حوالے سے خبر کے سلسلے میں تحمل سے کام لیا ہے۔ اگر وہ روایت سخت رویہ اختیار کرتی تو ڈان کی اشاعت بند اور وزیر اعظم کو مستعفیٰ ہونا پڑتا۔
اب بھی یہی راستہ ہے کہ وزیر اعظم اپنی غلطیوں کی تلافی کریں۔ اپنے حامیوں کو عسکری ادارے کے خلاف غیر محتاط گفتگو کرنے سے روکیں، غیر منتخب مشیر اور معاون خصوصی کو فارغ کریں، پارٹی کے ایسے افراد کو سامنے لائیں جن کا دامن صاف ہو، خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف کو جو عدالتی حکم امتناعی پر ہیں، وزارت سے فارغ کریں اور ڈان اخبارکوخبر فیڈ کرنے والی شخصیت کا دفاع نہ کریں۔ اگر عمران خان نے ملک گیر احتجاج کی کال دے دی تو حکومت کے لئے حالات سنبھالنا مشکل ہو جائے گا اور عسکری قیادت کو مجبوراً کوئی قدم اٹھانا پڑے گا جس کے نتیجے میں نئی سیاسی قیادت منظر عام پر آئے گی۔ مارشل لاء کا دورختم ہو چکا، اب مذاکرات کی میز پر ہی مستقبل کے فیصلے ہوں گے اور مذاکرات میں نیب، الیکشن کمیشن اورایف بی آرکے نمائندے موجود ہوںگے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں