"KDC" (space) message & send to 7575

پلانٹڈ خبر سے ملکی سلامتی کو خطرہ

پاکستان کی سیاسی تاریخ سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ جب حکمران جماعت آئین سے ہٹ کر کوئی راہ اختیار کرتی ہے تو انتشار بڑھتا اور سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ جب حکومت لچک کا مظاہرہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتی تو وہ بند گلی میں پہنچ جاتی ہے اور حکمران جماعت کے ہاتھ سے اقتدار نکل جاتا ہے۔ 12اکتوبر1999 ء کو نواز شریف نے آئین اور آرمی ایکٹ 51 کی صریحاً خلاف وارزی کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف کے منصب سے ریٹائرکر دیا اور آرمی کمان سے مشاورت کے بغیر جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف مقررکر دیا۔ اس کا نتیجہ اُسی شام کو ہی سامنے آگیا؛ حالانکہ صدر رفیق تارڑ نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی سمری پر بد دلی سے آدھے دستخط کئے تھے۔ رولز آف بزنس کے مطابق ایسے دستخط نیم رضا مندی کے زمرے میں آتے ہیں۔ آرمی رولز کے مطابق سیکرٹری دفاع جنرل افتخار خان نے بھی سمری پر دستخط نہیں کئے تھے۔ موجودہ حالات میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جمہوریت کی روح تازہ کرتے ہوئے کشیدگی کم کرنے کے لئے دانشمندانہ فیصلہ دیا، لیکن حکومت نے تھرڈ امپائر کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کے بجائے فیڈریشن کے خلاف سازش کرتے ہوئے صوبہ خیبر پختونخوا کی سرحد کو سیل کر دیا، جس کی وجہ سے کنٹینرز سے موٹر وے بند ہونے پرکرنل شاہد شہید اور میجر جلال شدید زخمی ہو گئے۔ اس المناک حادثے اور حکومت کی جابرانہ حکمت عملی کی وجہ سے افواج میں شدید اضطراب کی لہر دوڑنا فطری امرہے۔ نواز شریف کو اپنی طویل سیاسی زندگی کا سب سے بڑا بحران درپیش ہے۔ ان کی سیاست اور خاندانی ساکھ حرص کی وجہ سے داؤ پر لگ چکی ہے۔ ان کی منصوبہ بندی کا محور پنجاب پولیس اور وفاقی انتظامیہ کی بے رحمانہ طاقت کا جارحانہ استعمال ہے۔
روزنامہ ڈان کی متنازعہ خبر پر وفاقی وزیر پرویز رشید کو برطرف کر دیا گیا۔ تحقیقات اہم موڑ پر ہے۔ آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے نمائندوں سمیت دوسرے سول افسروں پر مشتمل کمیٹی ذمہ داروںکی نشان دہی کرے گی۔ اطلاعات کے مطابق سینئر آفیسر وعدہ معاف گواہ بننے کے لئے آمادہ ہیں، جس کی روشنی میں ملک کی اہم ممتاز شخصیت مستعفی ہو جائے گی۔ متنازعہ خبر کو پلانٹڈ کے زمرے میں شامل کر لیا گیا ہے اور راز داری ایکٹ کے تحت ملزموں کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا امکان ہے۔ پرویزرشید کی برطرفی سے ظاہر ہوتا ہے کہ نواز شریف کے پاؤں پھسل گئے ہیں اور اب حکومت کا اپنا توازن برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ حکومت کے حامی روزنامہ کا یہ تجزیہ کہ ڈان کی خبر کو پلانٹڈ قرار دے کر انکوائری کا عمل جانبدار بنا دیا گیا اور اس سٹوری سے سلامتی متاثر نہیں ہوئی، میری دانست میں درست نہیں ہے۔ یہ زمینی حقائق سے چشم پوشی ہے۔ اس پلانٹڈ سٹوری کا گہری نظر سے تجزیہ کیا جائے تو یہ خبر پاکستان پر ایٹمی حملے کے مترادف ہے۔ اس خبر کی آڑ میں انڈیا ‘ پاکستان کی مذہبی درسگاہوں پر حملہ کرنے کی پوزیشن میں آچکا تھا۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ اور امریکہ کی یہی پالیسی عراق اورافغانستان میں رُو بعمل لائی گئی تھی۔
قومی سلامتی سے متعلق اجلاس کی خبر لیک نہیں بلکہ پلانٹڈ طریقے سے فیڈ کی گئی تھی۔ یہ خبر فیڈ کرنے کا مقصد عالمی برادری کو پیغام دینا تھا کہ جہادی گروپس اور غیر ریاستی عناصر پر ہمارا موقف ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے مختلف ہے اور ہم عسکری ادارے کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پرویز رشید نے اس مضحکہ خیز خبر کو رکوانے میں بطور وفاقی وزیر اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ انہوں نے آئین کے آرٹیکل 90 کی شق 3 کی کھلم کھلا خلاف وارزی کی۔ پاکستان کی افواج کا رویہ دنیا میں اب بھی گونج رہا ہے۔ امریکی کانگرس پر اسرائیلی اور انڈین لابسٹ دباؤ ڈال رہے ہیں کہ پاکستان کے بارے میں سخت رویہ اختیار کیا جائے۔ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ ڈان کے سرل المیڈا اپنے ذرائع نہیں بتائیںگے۔ دراصل خبر فیڈ کرنے والے نے مبالغہ آرائی کی اور جھوٹ بول کر وزیر اعظم نواز شریف کو بند گلی کی طرف دھکیل دیا۔ کورکمانڈرزکانفرنس کا یہ مشترکہ فیصلہ ہے کہ قومی سلامتی کے بارے میں بے بنیاد خبر کو فیڈ کر کے قومی سلامتی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے۔
پاکستانی قوم کو آج ملک کے اندر اور باہر جن چیلنجوں کا سامنا ہے، ان سے نبرد آزما ہونے کے لئے ملک کی سیاسی قیادت کو ڈان کی خبر کے پس پردہ محرکات کو بے نقاب کرنا پڑے گا اور ذمہ داروں کی نشان دہی کر کے ان کے خلاف سخت کارروائی کرنا ہوگی۔ کسی غیر حقیقی خبر کی تخلیق اور اشاعت بہرحال ناقابل معافی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے پاناما پیپرز اور میگا کرپشن پر عمران خان نے جو تحریک شروع کی تھی، اس سے حالات بہت تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور عدالت عظمیٰ میں حکومت اور تحریک انصاف نے پاناما لیکس کے معاملے کی تحقیقات کے لئے انکوائری کمیشن کے قیام پر جس رضا مندی کا اظہار کیا ہے‘ وہ پوری قوم کے لئے باعث اطمینان ہے۔ عدالت نے تمام فریقوں کو فوری طور پر ٹرمز آف ریفرنس جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر فریقین کا ٹی او آرز پر اتفاق نہ ہو سکا توعدالت خود بنائے گی۔ عدالت نے یہ بھی وضاحت کی کہ جوڈیشل کمیشن کو سپریم کورٹ کے اختیارات حاصل ہوںگے۔ 
یہ امر خوش آئند ہے کہ سیاسی و سماجی اختلافات کے باوجود پوری قوم بہت سی بنیادی باتوں پر مکمل طور پرمتفق ہے۔1973 ء کا آئین اس وقت اساس پاکستان ہے، یہ اساس ہماری سیاسی و فکری سرگرمیوں کا مرکز و محور ہے۔ جمہوریت اور عدلیہ کی بالا دستی کی ضمانت آئین پاکستان میں بڑی وضاحت کے ساتھ موجود ہے اور اسی پس منظر میں عدالت عظمیٰ ‘حکومت اور اپوزیشن نے کرپشن کے خاتمے اور پاناما لیکس کے معاملے کی تحقیقات کے لئے آئین پاکستان کی حقیقی روح کے مطابق طریقہ کار اختیار کرنے پر اتفاق کیا ‘ جسے ایک مثالی اتفاق قرار دیا جانا چاہیے۔
وزیر اعظم نواز شریف کو اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ ان کے نادان مشیروں کی غیر دانشمندی سے عمران خان کے احتجاجی جلسے کو ناکام بنانے کے لئے کنٹینروں کی ضبطی سے پاکستان کی مقروض معیشت کو اربوں کا خسارہ برداشت کرنا پڑا۔ ان کنٹینروں کی پکڑ دھکڑ سے تجارت بہت متاثر ہوئی۔ پاکستان کی درآمد و برآمد پہلے ہی بحران کا شکار ہے، وزیر اعظم نوازشریف کی ناکام معاشی پالیسی سے پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب ہے، محض اشتہاری مہموںاور خیالی گوشواروں سے تباہ حالی کو نہیں چھپایا جا سکتا۔ ہر روز اربوں روپے کے اشتہارات پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر چلا کر قوم کو فریب دیا جا رہا ہے۔ اب سپریم کورٹ نے پاکستان کے مستقبل کی چابی اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ یہ وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے یا سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا نہیں‘ عدالت کو اطمینان سے اپنا کام کرنے دیا جائے۔
اب جبکہ سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کے مقدمے کی سماعت شروع کر دی ہے تو عدالتی فیصلے کا ہی انتظار کیا جانا چاہیے‘ دنیا میں تنازعات کے حل کا یہی مہذب طریقہ ہے، اس سے ہٹ کر جو بھی طریقہ اختیار کیا جائے گا وہ ملک و قوم کے لئے نقصان دہ ہوگا۔ وزیر اعظم نواز شریف پر اپنے خاندان کے حوالے سے بھاری ذمہ داری عائد ہوگئی ہے کہ وہ اپنے بچوںکا دفاع سرکاری ذرائع اور میڈیا کی طاقت سے نہ کریں اور اس نازک موڑ پر بالغ نظری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران اپنے حق میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں تشہیر کی بجائے اپنے اہل خانہ کی پوشیدہ جائیدادوں کے گوشوارے جمع کرائیں۔
حکومتی ہم خیال دانشور، صحافی اور اینکر پرسنز افواج پاکستان کی تضحیک کے لئے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے۔ ان کو ادراک ہونا چاہیے کہ 1946ء تک برطانیہ برصغیر کی تقسیم کا سخت مخالف تھا، لیکن جب انہیں اسی سال کے آخر میں مسلم انڈیا میںافواج کی بے چینی اور اضطراب کا احساس ہوا تو متحدہ بھارت کو تقسیم کرنے کا فارمولہ 3 جون1947 ء کو پیش کر دیا۔ اگر حکومتی حلقے ڈان کو خبر فیڈ کروا کے فوج کو قومی منظر نامے میں کمزورکرنے کے لئے پر تول رہے ہیں تو اس طرح پاکستان عدم استحکام سے دو چار ہو جائے گا، لہٰذا یہ تنازع خوش اسلوبی سے طے کیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں