"KDC" (space) message & send to 7575

خواجہ آصف کا فیصلہ ، پاناما اور نیوز لیکس

سپریم کورٹ نے خواجہ محمد آصف کو 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات سے مبرا قرار دیکر ایک اہم مقدمے کا حتمی فیصلہ کر دیا ہے، جو قومی سیاست اور آئندہ کے انتخابات کے لئے راہ متعین کرنے کا سبب بنے گا۔ عدالت عظمیٰ نے موجودہ نظامِ انتخابات میں پائے جانے والے نقائص اور بے قاعدگیوں پر گہرے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے خواجہ آصف کی نشست پر بے قاعدگیوںکو تسلیم کیا لیکن اس کی سزا کامیاب امیدوارکو دینا مناسب نہیں سمجھا۔ انتخابی عمل کے نقائص کے حوالے سے چیف جسٹس کے یہ الفاظ معاملے کی سنگینی کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں کہ عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 44 کو مد نظر رکھیں تو پورا الیکشن ہی کالعدم ہو جائے گا۔ عدالت عظمیٰ نے عوامی نمائندگی کے مذکورہ ایکٹ کو غیر فعال قرار دیکر الیکشن قوانین میں از سر نو ترامیم کرنے کے لئے پارلیمان میں انتخابی اصلاحات پر جاری کام جلد از جلد مکمل کرنے اور انتخابی نظام کو تمام خامیوں اور بے قاعدگیوں سے پاک کرنے کو لازمی قرار دیا ہے۔
راقم کی ناقص رائے میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مخالف امیدوارکے فاضل وکیل عدالت عظمیٰ کو عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 44 کی صحیح معنوں میں تشریح کرنے اور انتخابات میں دھاندلی کے سد باب کے لئے اس دفعہ کی مسلمہ افادیت کو اجاگر کرنے میں ناکام رہے۔ 1973ء کا آئین بنانے والے مفکر ین نے کامن ویلتھ ممالک کے الیکشن قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ شق شامل کی تھی جس کا مقصد انتخابات میں پولنگ سٹیشن پر دھاندلی، بے قاعدگیوں، بے ضابطگیوں کے نتیجے میں کامیاب امیدوار کو فائدہ پہنچانا تھا، لہٰذا پولنگ سٹیشنوں پر بے قاعدگیوں ، بے ضابطگیوں کے مرتکب افراد کو تو سزا نہیں دی جاتی البتہ کامیاب امیدوارکے نتائج کو ہی کالعدم قرار دے کر از سر نو انتخابات کروائے جاتے ہیں۔ حال ہی میں قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق انہی مبینہ بے قاعدگیوں کی بنا پر اپنی نشست سے محروم ہو گئے تھے تاہم وہ از سر نو انتخابات کے بعد اپنی نشست پر واپس آگئے۔
سپریم کورٹ کی نگرانی میں جو انتخابی انکوائری کمیشن سابق چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں عوامی دباؤ کے تحت تشکیل پایا تھا، اس کے مشاہدات کی روشنی میں اور اب عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا بین السطور جائزہ لیا جائے تو طاقتور، بااثر اور اپنی دولت کی ریل پیل کے بل بوتے پر امیدوار انتخابی عملے کی توسط سے اپنے حلقے میں پولنگ سٹیشنوں پر بے قاعدگیوں کا مرتکب ہوتا رہے گا اور الیکشن ٹربیونلز بھی اب سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کی روشنی میں ایسے کامیاب امیدوار کے خلاف فیصلہ نہیں دیں گے کیونکہ پولنگ سٹیشنوں پر جو بے قاعدگیاں ہوتی ہیں اس کی پشت پر طاقتور امیدوار ہی ہوتا ہے جو اپنے اثر و رسوخ، دھونس اور رشوت کے ذریعے پولنگ سٹیشنوں کے عملے تک رسائی حاصل کر کے اپنے حق میں نتائج حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 68 , 67, 44 میں یہی درج ہے کہ چونکہ جو بے قاعدگیاں ہوتی ہیں ان کا مقصد کامیاب امیدوار کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے اور اسی مقصد کے لئے ایسے جرائم کئے جاتے ہیں۔ ماضی میں الیکشن ٹربیونلز کے فیصلے اسی تناظر میں دیے گئے اور عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی انہی شقوں کے تحت انتخابی نتائج کالعدم ہوتے رہے۔ اب سپریم کورٹ کے فیصلے سے آئندہ انتخابات میں جو بھی دھاندلی، بے قاعدگی، بے ضابطگی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کروائی جائے گی اس کے تحت کامیاب امیدوار کے خلاف فیصلہ آنے کی راہیں مسدود ہو گئی ہیں۔ اب انتخابی عمل میں مجرمانہ فعل کے سدباب کے لئے ضروری ہو گیا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی، بے قاعدگی اور مجرمانہ کارروائی کے شواہد سامنے آنے پر متعلقہ ریٹرننگ آفیسر اور پولنگ سٹیشنوں کے پریذائڈنگ آفیسرکو جیل بھجوا نے کے لئے قوانین میں ترامیم کی جائیں کیونکہ موجودہ قوانین کی روشنی میں الیکشن ٹربیونل میں ریٹرننگ آفیسر اور پولنگ کے عملے کو فریق نہیں بنایا جا سکتا۔ چنانچہ انتخابی اصلاحات کمیٹی کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن قوانین میں ترامیم کرنا ہوںگی۔ 
سپریم کورٹ کے فیصلے سے حیرت ہوئی کہ انہوں نے خواجہ آصف کو بیل آؤٹ کرتے ہوئے الیکشن لازکی ان شقوں کو کیسے نظر انداز کر دیا اور مخالف امیدوار کے فاضل وکیل نے اپنے دلائل میں ان شقوں کی اہمیت کیوں نہیں اجاگرکی؟ الیکشن کمیشن کے فاضل ارکان کو بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کا عمیق جائزہ لینا چاہیے اور سابق چیف جسٹس ناصر الملک کے انکوائری کمیشن کے فیصلے اور حلقہ 110 کے بارے میںسپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت از سر نو انتخابی قوانین کا جائزہ لینا چاہیے۔ نیشنل ڈیموکریٹک فاؤنڈیشن الیکشن لاء کو ان فیصلوں سے اہم آہنگ کرانے کے لئے اپنی تجاویز الیکشن کمیشن بھجوا رہی ہے۔
پاناما لیکس اور نیوز لیکس کی تحقیقات کا رخ متعین ہوگیا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے صاحبزدگان اور ان کے قریبی ساتھیوں کے لئے آزمائش کا وقت شروع ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں بھی ممکنہ حالات کے پیش نظر اپنا لائحہ عمل مرتب کرنے میں مصروف ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کے لئے پاناما لیکس اور نیوز لیکس ناگہانی آفات ہیں۔ نیوز لیکس میں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کی اندرونی کہانی دی گئی ہے جس سے پاکستان کے سیکورٹی اداروں کے بارے میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے حوالے سے منفی تاثر پیدا ہوا ہے۔ نیوز لیکس کی ذمہ داری وزیر اعظم کے قریبی ساتھیوں پر عائد کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف عسکری قوتوں کے مزاج کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ نیوز لیکس پر قائم کردہ کمیٹی پر اگرچہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو سخت اعتراضات ہیں اور ان کا موقف یہ ہے کہ کمیٹی کے سربراہ جسٹس (ر) عامر رضا خان وزیر اعظم نواز شریف کے انتہائی قریبی اور تعلق دار ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ نواز شریف نے بطور اپوزیشن لیڈر 20 مارچ 2013 ء کو 
پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کے لئے عامر رضا کا ہی نام پیش کیا تھا لیکن بعد ازاں نجم سیٹھی کی طاقتور لابی کے سامنے ان کا نام متبادل کے طور پر رکھا گیا۔ عامر رضا کی سربراہی میں کمیٹی کا قیام ہی حکومت کے لئے مشکلات کا آغاز ہے۔ اس کمیٹی کی تحقیقات کا رخ بھی متعین ہو چکا ہے۔ کمیٹی کو صرف یہ طے کرنا ہے کہ روزنامہ ڈان کے اسسٹنٹ ایڈیٹر سرل المیڈا کو خبر کس نے فیڈ کی؟ کمیٹی کو ہر حال میں ذمہ داری کا تعین کرنا ہے اور پرویز رشید کے بعد اب وزیر اعظم کے طاقتور بیوروکریٹس اور وزارت اطلاعات و نشریات کا سیاسی بیوروکریٹس کے گرد ہی کمیٹی کے ارکان گھومتے نظر آ رہے ہیں۔ ان بیوروکریٹس کے ماضی میں جھانکنے کی ضرورت ہے جس کی تہہ میں ان کی سیاسی آلودگی سامنے آ جائے گی۔ ان حالات میں حقائق سامنے آرہے ہیں کہ پاناما لیکس اور نیوز لیکس کی وجہ سے پاکستان کی سیاست میں موروثی سسٹم نہیں رہے گا اور بیک ڈور سیاسی رابطوں سے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں بشمو ل آل پاکستان مسلم لیگ، متحدہ قومی موومنٹ، پاک سر زمین پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ق)، پاکستان عوامی تحریک، پاکستان مسلم لیگ فنکشنل، پاکستان مسلم لیگ چٹھہ گروپ، پاکستان مسلم لیگ ہم خیال اور پاکستان مسلم لیگ ضیاء الحق گروپ عظیم تر الائنس کی طرف بڑھ رہی ہیں اور31 دسمبر 2016ء سے پہلے مستقبل کا سیاسی منظر نامہ واضح ہو جائے گا۔ اس دوران آرمی چیف کے تقرر کے بعد سیاسی مطلع بھی صاف ہو جائے گا۔ پاناما لیکس اور نیوز لیکس بلائے آسمانی ہیں اور وزیر اعظم کو ان کی سنگینی کا احساس ہے اور جلد آرمی چیف کے تقرر کا اعلان ہونے کا امکان ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں