"KDC" (space) message & send to 7575

پاناما گیٹ: وکلا کی تبدیلی اور زمینی حقائق

تحریک انصاف کی قانونی ٹیم عدالت عظمیٰ میں پاناما پیپرز کیس سے متعلق گزشتہ سماعت پر پارٹی کے اندرونی اختلافات،کمزور حکمت عملی اور مکمل تیاری نہ ہونے کے باعث ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکام رہی۔ تحریک انصاف کے وکلا کو عدالت کے معزز جج صاحبان کے سخت ریمارکس کا سامنا کرنا پڑا۔ عمران خان کی ظاہری کیفیت سے بھی لگتا ہے کہ وہ اپنے وکلا کی کارکردگی سے ناخوش ہیں۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی اپنے خلاف مقدمہ قتل میں یحییٰ بختیار اور دوست محمد اعوان کی کارکردگی سے فکر مند رہے۔ تحریک انصاف کے وکلا غیر جذباتی اور بوریت سے بھر پور انداز میں ججز کے سامنے وزیر اعظم نواز شریف کی تقاریر پڑھتے رہے اور اس پر عدالت کا قیمتی وقت صرف کر دیا۔
حامد خان آئینی ماہر ہیں، ان کو چند پیرا گرافس پڑھنے کے بعد ان اہم دستاویزات کا سہارا لینا چاہیے تھا جو گزشتہ چند مہینوں سے نجی ٹیلی ویژن کے محقق اینکرز تواتر سے پیش کرتے آ رہے ہیں۔ اس طرح وہ اس طرح مقدمے کا رخ تبدیل کر سکتے تھے۔ میڈیا نے پاناما لیکس کا جو مقدمہ قوم کے سامنے پیش کیا وہ ناقابل تردید جامع ثبوتوں پر مبنی ہے۔ اسی طریقہ کار کے ساتھ اپنا کیس جارحانہ انداز میں پیش کر کے وزیر اعظم اور ان کے صاحبزادگان کو بند گلی میں کھڑا کیا جا سکتا تھا۔ تحریک انصاف کے وکلا کی کارکردگی پر ملک کے ماہرین آئین و قانون نے سوالات اٹھائے ہیں اور اسے ناقابل یقین اور مایوس کن قرار دیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاناما پیپرزکیس پر حکومتی ٹیم نے اپنا دفاعی نقطہ نظر موثر انداز میں پیش کیا۔ تاہم حکومت کے ہم خیال میڈیا پرسنز کو احساس ہونا چاہیے کہ پاناما کیس صرف عمران خان یا دیگر درخواست گزاروں کا مقدمہ نہیں بلکہ پاکستان کی بیس کروڑ عوام کا مقدمہ ہے۔ یہ پاکستان کی سالمیت اور فیڈریشن کی بقا کا اہم کیس ہے۔ اس وقت وطن عزیز بیڈ گورننس، کرپشن اور دہشت گردی جیسے سانحات سے گزر رہا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ قومی انتخابات2013 ء کے بارے میں مبینہ دھاندلی، بے قاعدگیوں، بے ضابطگیوںکے ازالے کے لئے جو انکوائری کمیشن عوام کے شدید دبائو پر بنایا گیا تھا، اس کے سربراہ کی رپورٹ نے ملک میں آزاد اور شفاف انتخابات کی راہیں مسدود کر دی ہیں۔ پاکستان میں کھربوں روپے کی کرپشن ہوئی۔ ملکی اور بین الاقوامی معاہدات میں جو میگا رشوتیں مبینہ طور پر ہماری سابقہ اور موجودہ حکومتوں نے وصول کیں ان سے پاکستان کی وحدت پر ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ اب اس کے تدارک اور ازالے کا موقع قدرت نے عدالت عظمیٰ کو دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے دیکھنا ہے کہ ملک کی تاریخ کا یہ اہم ترین مقدمہ عمران خان کے گرد نہیں گھومتا اور اخبارات کو پکوڑے کا درجہ دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ امریکہ کے سابق صدر نکسن ایسے ہی ایک پکوڑا اخبار کی خبروں کی وجہ سے اپنے اقتدار سے سبکدوش ہوئے تھے۔ پاکستان میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی پشاور کے ایک انگریزی اخبار کی رپورٹ پر عائد کی گئی تھی۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت لاہورکے اخبار کی زرد صحافت کا ہی نتیجہ قرار دیا جاتا ہے کیونکہ سید اکبر کے گھر پر جب پولیس انسپکٹر ابرار نے چھاپہ مارا تو اخبارات کے تراشے مجرم اکبر کے کمرے میں چاروں طرف لگے ہوئے تھے۔ اکبر انہی تراشوں پر اپنے نشانے کی مشقیں کرتا رہا تھا۔ اسی طرح 5 جولائی 1977ء کا مارشل لاء نافذ کرنے کے وقت جنرل ضیاء الحق نے اپنی پہلی نشری تقریر میں لاہور کے ہی چند اخبارات کے اقتباسات پڑھ کر سنائے تھے، جن میں غلام مصطفیٰ کھر کی آتشیں تقاریر کا حوالہ بھی دیا گیا تھا۔ اسی طرح قائد اعظم محمد علی جناح کی آئین ساز اسمبلی میں11اگست کی تقریر قومی ورثہ قرار دی گئی؛ حالانکہ اس کی ریکارڈنگ پاکستان میں سرکاری طور پر دستیاب نہیں ہے اور ان کی تقریر جو 13اگست کو ڈان میں شائع ہوئی تھی اس کو سرکاری درجہ دے دیا گیا۔ ان کی تقریرکا اصل مسودہ ہی ناپید ہے۔ یہ مثالیں دینے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا بھر میں اخبارات میں رپورٹ ہونے والی چیزوں کی حیثیت مسلمہ ہے اور ان کی بنیاد پر اہم شخصیات کے خلاف کارروائیاں ہوتی رہی ہیں۔ 
ہماری اشرافیہ افواج پاکستان کی تضحیک کرنے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ ''میرے عزیز ہم وطنو‘‘ کی اصطلاح کو ناپسندیدہ معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے؛ حالانکہ اس طرح قومی خطاب کا آغاز بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے کیا تھا جبکہ وزیر اعظم لیاقت علی خان قوم سے ''برادران ملت‘‘ کے لقب سے خطاب کیا کرتے تھے۔ اب بھی اگر ملک پر جارحانہ جنگ مسلط کی گئی تو حکومت کا سربراہ قوم سے میرے عزیز ہم وطنو کہہ کر ہی خطاب کرے گا۔ ان لفظوں میں ایسی للکار پوشیدہ ہے کہ پوری قوم فرد واحد کی طرح اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ لہٰذا میرے عزیز ہم وطنو کی اصطلاح کو متنازع بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔
قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں وزیر اعظم نواز شریف کے ایما پر حکومت نے آئین کے آرٹیکل 184 میں ترمیم کا بل پیش کیا جس کی رو سے شق 3 کے بعد 4 اور 5کا اضافہ کیا جائے گا، جس کے تحت سپریم کورٹ میں از خود نوٹسزکے فیصلے کے خلاف اپیل ہو سکے گی۔ اس ترمیمی بل کے نفاذ کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کے از خود نوٹس لینے کے اختیارات محدود اور بے اثر ہو جائیں گے۔ سابق وفاقی حکومت نے بھی عدالت عظمیٰ کے اختیارات میں کمی کی کوشش کی تھی، لیکن اپوزیشن لیڈر نواز شریف اس کی راہ میں اہم رکاوٹ بن گئے تھے؛ چنانچہ مضبوط و فعال چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خوف کی وجہ سے یوسف رضا گیلانی اپنی خواہش کو پورا نہ کر سکے اور اسی از خود نوٹس کی نذر ہوگئے۔ اب حکومت کا مقصد یہ ہے کہ آنے والے چیف جسٹس کے اختیارات کم کر دیے جائیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار کونسل اور صوبائی بار ایسوسی ایشنوں کو وفاقی حکومت کی بد نیتی کو آشکار کرنا چاہیے۔ (جاری )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں