"KDC" (space) message & send to 7575

پاناما گیٹ: وکلا کی تبدیلی اور زمینی حقائق

لندن کے فلیٹس کی ملکیت شریف خاندان ہی کی ہونے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں۔ اس وقت عدالت عظمیٰ وفاق کی جنگ لڑ رہی ہے، توقع ہے کہ وہ اس کا فیصلہ پاکستان کے مفادات کو مد نظر رکھ کر ہی کرے گی۔ اس وقت ملک کے بیس کروڑ عوام کی نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں۔ پاکستان کی ممتاز دانشور تہمینہ درانی نے بھی اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ اگر لندن کے فلیٹس میاں شریف کے نام ہوتے تو میاں شہباز شریف کو بھی ان سے حصہ ملنا چاہیے تھا۔ عمران خان کے وکلا کو دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے شواہد پر مبنی کیس اسی ایک نکتے کو لے کر آگے چلنا چاہیے۔ قوم سے خطاب اور قومی اسمبلی میں اپنے پالیسی بیان کے دوران وزیر اعظم نواز شریف کے دفاعی موقف کے خد و خال قطری شہزادے کے خط سے مختلف تھے۔ قومی اہمیت کے حامل موجودہ کیسز میں قانون کی بالا دستی اور اس کی روح کو زندہ رکھتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف، حسین نواز، حسن نواز اور مریم نواز کو عدالت میں طلب کیا جانا چاہیے اور جو انٹرویوز انہوں نے مختلف ٹیلی ویژن چینلز کو دیے تھے ان کے کلپس عدالت عظمیٰ کے روم نمبر ایک کی بڑی سکرین پر دکھانے چاہئیں۔ پھر ان پر بحث کروائی جائے تو مقدمے کا فیصلہ چند گھنٹوں میں ہو جائے گا۔ قانون و انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے زمینی حقائق کے تحت فیصلہ ہونا چاہیے۔
وزیر اعظم اپنے اختیارات سے پوری طرح لیس ہیں، حکومتی وسائل اور ملک کے تمام ادارے ان کے تابع ہیں۔ ادھر پاناما پیپرز میں حکومتی شخصیات کا ذکر ہے، ان سے آمدنی کے ذرائع حاصل کیے جائیں۔ قطری، سعودی اور دبئی کے شہزادگان کے خطوط سے استفادہ کرنے کے بجائے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر کو طلب کیا جائے اور پاکستان کی فیڈریشن کو مضبوط کرنے اور پاکستان میں کرپشن کا خاتمہ کرنے کے لئے انصاف کی عدالت سے فیصلہ کیا جانا چاہیے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف الزامات کے تین اہم پہلو ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اثاثہ جات میں لندن کے فلیٹس کی ملکیت اور مریم نواز کی زیر کفالت اثاثوں کو چھپانا۔ اس کی پاداش میں ان کو بطور رکن قومی اسمبلی نااہل کرنے کی سزا ہو سکتی ہے۔ ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کا ارتکاب اور فلیٹس خریدنے کے لئے غیر قانونی طریقے سے رقم ملک سے باہر منتقل کرنا بھی الزامات کی فہرست میں شامل ہیں جن کے ثبوت فراہم ہونے پر کڑی سزائیں دی جاسکتی ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف حقائق کو چھپانے کے لئے قوم کو یہ نہیں بتا رہے ہیں کہ 1990ء اور1993ء میں وہ جن فلیٹس میں رہائش پذیر تھے، ان کی ملکیت کس کے نام تھی، یہ قیمتی جائیدادیں انہوں نے کب اور کس سے خریدیں، خریدنے سے پہلے رہائش کی صورت میں کرایہ کس برطانوی لارڈ کو دیتے رہے اورکرائے کی رقوم کہاں سے بھجوائی گئیں؟ ٹیکس گوشواروں میں اس جائیداد کا ذکر موجود نہیں ہے۔ اگر رقوم پاکستان سے بھجوائی گئیں تو کیا اس کے لئے سٹیٹ بنک آف پاکستان کی منظوری حاصل کی گئی تھی یا نہیں؟ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے گوشواروں کے فارمA 28- میں اس کی پوری تفصیل موجود ہے، گویا وزیراعظم نے ان گوشواروں کے نیچے حلف نامہ پر جو دستخط کئے ہوئے ہیں، حقائق کی ان سے نفی ہوتی نظر آ رہی ہے۔ لہٰذا ان کی اہلیت کے لئے آرٹیکل 63-62 کے تحت سوال اٹھائے جا سکتے ہیں۔ چوہدری نثار علی خافن، صدیق الفاروق اور دیگر اہم رہنماؤں نے اعتراف کیا ہے کہ یہ فلیٹس گزشتہ اٹھارہ سے بیس سا سے شریف خاندان کے پاس ہیں۔ چنانچہ اہم سوالات ان فلیٹس کی ملکیت ، فنڈز کے ذرائع اور بھجوائے جانے کے طریقے کے گردگھوم رہے ہیں۔
اب بھیانک اور افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ اگر میاں شریف مرحوم کے قطر کے شاہی خاندان کے فرد حمد بن جاسم الثا نی کے خاندان سے کاروباری تعلقات تھے تو وزیر اعطم نواز شریف کو اپنے پہلے قومی خطاب اور بعد ازاں قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنی تقریر میں بتانا چاہیے تھا، معاملہ اسی لمحے ختم ہو جاتا اور عمران خان بھی آگے بڑھ کر نواز شریف کو گلے سے لگا لیتے۔ وزیر اعظم اور ان کے صاحبزادگان نے قوم کے سامنے خود تسلیم کیا ہے کہ مے فیئر فلیٹس ان کی ملکیت ہیں۔ اب ان انہیںمدعا علیہان کو یہ ثابت کرنا ہے کہ مالی ذرائع کیسے مے فیئر فلیٹس تک پہنچے۔ یہ مدعی نے ثابت نہیںکرنا 
کیونکہ یہ ٹرائل ہے اور انکوائری خود مدعا علیہ کی تہہ تک پہنچتی ہے۔ سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 183 (3) کے تحت کارروائی کر رہی ہے۔ یہ فوجداری مقدمہ نہیں اور سپریم کورٹ نے ہی وزیر اعظم نواز شریف، حسین نواز اور مریم نواز سے ان کے سابقہ بیانات کی روشنی میں براہ راست عدالتی کٹہرے میں حلف لینے کے بعد پوچھنا ہے۔
قطر کے شہزادے کے خط سے نواز شریف کی فیملی شدید دباؤ میں ہے۔ اسلامی فقہ (Islamic Jurisprudence) کی رو سے اس شخص کی گواہی قابل اعتماد قرار دی گئی ہے جو صاحب کردار ہو، اس کی ایمانداری، دیانتداری مسلمہ ہو، اچھی شہرت کا حامل ہو، لیکن یہاں معاملہ اس کے بر عکس ہے۔ شنید ہے کہ شہزادہ قطر پاناما لیکس میں ملوث پائے گئے ہیں اور موصوف اچھی شہرت کے حامل بھی نہیں ہیں۔ لندن کے اخبارات کے مطابق ان کے خاندان کی شہرت پر سوالیہ نشان سامنے آئے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز جج صاحبان کواسلامی فقہ، قرآن اور حدیث پر مکمل عبور حاصل ہے، لہٰذا انہیں اسلامی فقہ کے مطابق شہزادہ قطر کے ماضی و حال پر بھی نظر رکھنی ہوگی۔ اسلامی فقہ کے مطابق متعلقہ شخص کو عدالت میں حلف اٹھا کر اس کی تصدیق کرنا ہوگی۔(ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں