"KDC" (space) message & send to 7575

مردم شماری جمہوریت کا ستون

جمہوری دنیا میں مردم شماری کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ ایک مقررہ وقت میں آئین کے مطابق ملک میں مردم شماری لازم قرار دی جاتی ہے تاکہ آبادی کا تعین کیا جا سکے۔ اس طرح نہ صرف منتخب ایوانوں کے ارکان کی تعداد کا تعین کیا جاتا ہے، بلکہ معاشی طور پر عوامی سہلولتوںکا بھی اندازہ کر کے معاشی پالیسی مرتب کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مردم شماری کو جمہوریت کا ایک اہم ستون قرار دیا گیا ہے۔ 
پاکستان کے آئین کے مطابق حکومت پر دس سال بعد مردم شماری اور خانہ شماری کرانے کا پابند کیا گیا ہے، مگر سیاسی حکومتوں کے پارٹی مفادات کے باعث 18سال گزر جانے کے باوجود ملک میں مردم شماری نہیں کرائی گئی۔ اس کی پشت پناہی سابق صدر آصف علی زرداری کرتے رہے کیونکہ ان کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ مردم شماری کے نتیجے میں متحدہ قومی موومنٹ کی قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں خاطر خواہ اضافہ ہو جائے گا اور کراچی و حیدر آباد کے مضافات میں دیہی علاقوں کو شہری علاقوں میں شامل کر دیا جائے گا۔ اس خوف کی وجہ سے سابق حکومت نے مردم شماری کو مؤخر کرانے کے لئے ملک میں امن و امان کی حالت کا سہارا لیا کیونکہ انہی ایام میں جنرل کیانی کی ہدایات پر سوات میں آرمی ایکشن شروع ہو چکا تھا۔
2013ء کے قومی انتخابات 1998ء کی مردم شماری کی بنیاد پر کرائے گئے جس سے ان میں بے قاعدگیوں، بے ضابطگیوں، انتخابی فہرستوں میں رد و بدل اور پولنگ سکیموں میں بے قاعدگیاں کر کے ریٹرننگ افسروں نے خود ہی انتخابات کو مشکوک بنا دیا۔ بعض ریٹرننگ افسروں نے بد نیتی کی بنیاد پر لاکھوں بیلٹ پیپرز الیکشن کمیشن کی مجاز اتھارٹی کے علم میں لائے بغیر شائع کروا دیے۔ اقوام متحدہ کے فنڈز سے الیکشن رزلٹ کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے تحت جو فعال ٹیم تیار کروائی گئی وہ اپنے مقصد کے حصول میں ناکام رہی اور عالمی ادارے کے چالیس کروڑ بے قاعدگیوں کی نذر ہوگئے۔ ان تمام زمینی حقائق کا انتخابی قوانین کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو مئی 2013ء کے انتخابات حلقہ بندیوں کے بغیر کرائے گئے جو انتخابات کے مسلمہ روایات کی روشنی میں غیر قانونی ہی کہلائے جا سکتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق ملک کی آبادی 12کروڑ قرار پائی تھی۔ جون 2002ء میں اسی کی بنیاد پر از سر نو حلقہ بندیاں کروائی گئی تھیں جبکہ 2013ء کے انتخابات کے وقت ملک کی آبادی غیر سرکاری اندازے کے مطابق 18کروڑ کے قریب تھی، لہٰذا مفروضوں کی بنیاد پر پولنگ سکیمیں مرتب کی گئیں۔ انتخابی فہرستیں بھی اس طرح مرتب کرائی گئیں کہ اس کے حقوق نادرا نے الیکشن کمیشن کو سپرد نہیں کئے، الیکشن کمیشن کی شہ رگ کو کنٹرول میں رکھا، من مانی کارروائی ہوتی رہی۔ اس عمل کی پشت پر بعض نادیدہ قوتیں کام کر رہی تھیں۔ اب خوش آئند پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار محمد رضا نے اپنے خصوصی اختیارات کے تحت انتخابی فہرستوں کی ملکیت نادرا سے الیکشن کمیشن کو منتقل کرا دی ہے۔ یہ ایک انقلابی پیش رفت ہے جس کی اہمیت کو میڈیا نے بالعموم نظر انداز کر دیا۔ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے سے الیکشن کمیشن نے نادرا سے انتخابی فہرستوںکے حقوق حاصل کر لیے ہیں۔ 
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان تمام زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کا نوٹس لیا اور حکومت کی طرف سے مردم شماری کرانے کے حوالے سے شیڈول پیش نہ کرنے کی مذمت کی، اس کے باوجود حکومت نے واضح طور پر حتمی تاریخ اور شیڈول نہیں دیا اور اسے فوج کی خدمات سے مشروط کر دیا۔ عدالت نے مردم شماری کرانے کا آئینی تقاضا پورا نہ کرنے کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے آئندہ سال مارچ/ اپریل میں مردم شماری کرانے کے جواب کو مسترد کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر اس حوالے سے غیر مبہم اور واضح تاریخ اور ٹائم فریم طلب کر لیا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے، حکومت تسلیم کرے کہ مردم شماری کرانے کا آئینی تقاضا پورا کرنا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ مردم شماری کا نہ ہونا سابق اور موجودہ حکومت کی ناکامی کا اعتراف ہے۔ سپریم کورٹ نے اس حوالے سے سخت ریمارکس بھی دیے اورکیس کی سماعت یکم دسمبر تک ملتوی کر دی اور حکم دیا کہ آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل واضح ٹائم فریم پیش کریں۔ مردم شماری آئینی تقاضا ہے، اسے ہر صورت مکمل کیا جانا چاہیے لیکن یہ بھی زمینی حقائق یہ ہیںکہ جنوری میں اساتذہ فارغ نہیں ہوں گے اور مارچ/ اپریل میں بھی وہ سکولوں کے امتحانات میں مصروف ہوںگے، لہٰذا سپریم کورٹ کو وفاقی حکومت کے شیڈول کو دیکھتے ہوئے ملک کے لاکھوں بچوں کے امتحانات کا شیڈول بھی دیکھنا ہوگا۔ اساتذہ مئی میں ہی فارغ ہوںگے اور اس کے بعد خانہ شماری کی مہم کا اجرا ممکن ہو سکے گا۔ 
عدالت عظمیٰ کا یہ کہنا کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ فوج کے بغیر مردم شماری نہیں ہو سکتی، ناقابل فہم ریمارکس ہیں۔ فوج کی معاونت کے بغیر مردم شماری کا عملہ بلوچستان، صوبہ خیبر پختونخوا اور کراچی کے مخصوص علاقوں میں کیسے اپنے فرائض کی ادائیگی کروا سکے گا۔ ترکی میں تو مردم شماری افواج کی نگرانی میںکرفیو نافذ کر کے کروائی جاتی ہے۔ پاکستان میں1998 ء کی مردم شماری اور اس سے قبل1982 ء میں بھی افواج پاکستان کی نگرانی میں مردم شماری کروائی گئی تھی۔ شماریات ڈویژن کے سربراہ محمد آصف کو مردم شماری کے خد و خال تیار کرتے وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مشاورت کرنی چاہیے کیونکہ مردم شماری کے شماریاتی بلاک سے انتخابی فہرستوں کی تیاری میں اہم تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ اپریل 2008ء اور 2009 ء میں جب مردم شماری کے لئے حکمت عملی مرتب کی جا رہی تھی تو راقم نے بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن اس سلسلے کے اہم اجلاسوں کی صدارت کی اور الیکشن کمیشن کے مفادات کو پیش نظر رکھا۔ اس وقت باہمی مشاورت سے جو حکمت عملی تیار کی گئی وہ مثالی تھی جس کی اس وقت کے الیکشن کمیشن نے منظوری دی تھی۔ الیکشن کمیشن کا موقف شماریات ڈویژن نے تسلیم کر لیا تھا۔ اسی حکمت عملی کے تحت جون 2010ء میں الیکشن کمیشن اور محکمہ مردم شماری کے باہمی تعاون سے خانہ شماری کا عمل شروع ہو گیا تھا، جسے بعد ازاں سیاسی مصلحتوں کے تحت سبوتاژکر دیا گیا۔
آئندہ عام انتخابات میں ٹرن آؤٹ 70 فیصد کرنے کے لئے الیکشن کمیشن جامع حکمت عملی تیار کر رہی ہے۔ اس کے نتائج خوش آئند اسی صورت میں ہو سکتے ہیں کہ مردم شماری کے بعد اس کی روشنی میں غیر جانبدارانہ حلقہ بندیاں تشکیل دی جائیں اور انہی حلقہ بندیوں کو سامنے رکھ کر ڈیٹا مرتب کیا جائے۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار رضا کی حکمت عملی کے تحت 7 دسمبر 2016 ء کو ووٹر ڈے بطور قومی دن منانے کے لئے ایوان صدر میں تقریب ہو رہی ہے جس میں صدر مملکت اور وزیر اعظم کی شرکت متوقع ہے۔ چاروں صوبوں کے گورنر ہائوسز میں بھی 7 دسمبر کو ووٹروں کے سالانہ دن کے طور پر منایا جا رہا ہے، جس میں صوبوں کے گورنر مہمان خصوصی ہوں گے۔ یہ تقریب 7 دسمبر 1970ء کو ملک میں پہلی بار بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کرانے کی نسبت سے منعقد ہو رہی ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنی پالیسی بیان میں واضح کیا ہے کہ پہلی بار مشرقی اور مغربی پاکستان کی عوام کو ون مین ون ووٹ کا حق دیا گیا تھا اور قومی اسمبلی کے الیکشن ون مین ون ووٹ کے اصول پر کرائے گئے تھے۔ اب یہ ماٹو حذف کر دینا چاہیے کیونکہ جب اس اصول پر انتخابات کرائے گئے تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد پڑ گئی۔ اگر یہ اصول نہ اپنایا جاتا اور پیرٹی کی بنیاد پر انتخابات کرائے جاتے تو مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو اکثریت حاصل نہ ہوتی۔ 1956ء کے آئین میں انتخابی عمل کو پیرٹی کے اصول پر کروانے کے لئے آئینی ضمانت دی تھی مگر جنرل یحییٰ خان نے بیرونی اشارے پر ون مین ون ووٹ کا اصول وضع کر کے مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی اکثریت کے لئے راہ ہموار کر دی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں