"KDC" (space) message & send to 7575

ٹرمپ کا ورلڈ آرڈر یا نئی جنگ کا آغاز

امریکہ کی سیاسی تاریخ میں سب سے بڑا اپ سیٹ ہوا۔ تمام سروے، پولز غلط ثابت ہوئے اور میڈیا کی حمایت کسی کام نہ آئی۔ ہیلری کلنٹن کو جعلی عوامی جائزوں پر بڑا اعتماد تھا اور امریکہ کے مین سٹریم میڈیا نے انہیں سنہرے خوابوں کا اسیر بنا رکھا تھا۔ لیکن امریکی تاریخ کی سب سے متنازعہ انتخابی مہم کے بعد بالآخر ٹرمپ صدر منتخب ہوگئے۔
اکیسویں صدی میں ری پبلکن پارٹی کا دور اقتدار شروع ہوا۔ امریکی روایات کے برعکس امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ روایتی سیاست دان نہیں ہیں۔ انہوں نے کبھی سیاست کی نہ سرکاری عہدہ سنبھالا۔ اس پس منظرکے باعث ان میں سیاسی بصیرت نہیں ہے۔ ان کی کامیابی سے پاکستان، ایران اور سعودی عرب پر گہرے اثرات پڑنے کے امکانات ہیں۔ پاکستان کو کسی بہتری کی توقع رکھنا مناسب نہ ہوگا۔ عین ممکن ہے کہ وہ بھارت کی طرف مزید دوستی کا ہاتھ بڑھائیںگے کیونکہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ میں بہت سی باتیں مشترک ہیں، جن میں سب سے بڑی یہ ہے کہ دونوں نسل پرست ہیں اور وہ نسل پرستی میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ امکان ہے کہ وہ نئے ورلڈ آرڈر کی آڑ میں نئی جنگ میں مبتلا ہو جائیں گے کیونکہ ان کی نظر میں امریکی ڈاکٹرائن کے مطابق1946 ء میں پاکستان کا قیام بھارت، چین اور روس کے مابین بفر سٹیٹ کے طور پر عمل میں آیا جس میں امریکہ کا کردار اہم تھا۔ امریکہ نے ہی برطانوی حکومت کو دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد باور کرایا تھا کہ مستقبل کے چین اور بھارتی توسیع پسندی کے سامنے ایک ایسی آہنی دیوار کھڑی کر دی جائے جو روس کو بھارت اور چین تک آگے نہ بڑھنے دے۔ اسی نظریے کے تحت امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پینٹاگان نے برطانوی حکومت کو قائل کیا تھا کہ مسلم ریاست کا قیام امریکہ اور برطانیہ کے مفاد میں ہے۔ اس سلسلے میں وزارت خارجہ کے 
آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
اب چونکہ پاکستان کو گلوبل ورلڈ میں تنہا کرنے کی عالمی پالیسی کا ایجنڈا تیار کر لیا گیا ہے، اس لئے اس کی جغرافیائی سرحدوں کے ارد گرد علیحدگی پسندوں کو ہوا دی جائے گی۔ اس وقت پاکستان اور دنیا کا منظرنامہ کچھ یوں ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف پاناما لیکس کے میگا کرپشن کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر ساکھ کھو بیٹھے ہیں۔ پاکستان میں احتجاجی لہر جاری ہے۔ انتہا پسندی اور بھارت کے رویے میں آتشی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کی موجودہ قیادت بین الاقوامی شطرنج کے میدان میں لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ پاکستان کی موجودہ قیادت جعلی سروے اور میڈیا کے خود ساختہ فارمولے پر کھڑی نظر آر ہی ہے۔ بد قسمتی سے بش سینئر اور جونیئر کا دور اکیسویں صدی کا تاریک آغاز تھا جس کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے افغانستان، عراق اور شام میں دہشت گردی کو بھرپور فروغ ملا۔ اس پس منظر میں ایک نیا ورلڈ آرڈر از سر نو ترتیب دیا جائے گا۔
صدر ٹرمپ مشرق وسطیٰ اور پاکستان کو نظر انداز کرنا چاہیں گے لیکن اس مرتبہ ماضی کے بر عکس مشرق وسطیٰ اور پاکستان آگے بڑھ کر ٹرمپ کو گھیر لیں گے اس لئے کہ پاکستان کی پشت پر چین کھڑا ہے۔ اچانک ناگہانی طور پر ایک خوفناک چوائس ان کے سامنے آ کھڑی ہوگی۔۔۔۔ جنگ یا امن۔۔۔۔ اور ٹرمپ انتظامیہ کے پاس سوچنے کا وقت نہیں ہوگا۔ ادھر پاکستان میں مضبوط سیاسی قیادت کا فقدان ہے، زیر اعظم نواز شریف اپنے فیملی کے اثاثوں کی وجہ سے انتہائی متنازعہ حیثیت اختیار کر چکے ہیں اور ان کی ٹیم میں صلاحیت نہیں ہے کہ وہ امریکہ کی نئی انتظامیہ سے ملکی مفاد میں بہتر فیصلہ کروا سکیں۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کی سب سے بڑی جنگی سرحد 3600 کلو میٹر ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان ہی دنیا کا واحد ملک ہے جو بیک وقت تین خوفناک جنگی مراحل کی زد میں ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پہلے نمبر پر کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن جو انڈین جنگی حکمت عملی ہے، اس کے لئے اس کی فوج کی سات کمانڈز میں سے چھ پاکستانی سرحد پر تعینات ہو چکی ہیں۔ یہ انڈیا کی تقریباً 80 فیصد سے زیادہ فوج بنتی ہے۔ مذکورہ نظریے پر عملدرآمد کے لئے انڈین فوج کی مشقیں جاری ہیں، فوجی نقل و حمل کے لئے سڑکوں، پلوں اور ریلوے لائنوں کی تعمیر اور اسلحے کے بہت بڑے بڑے ڈپو نہایت تیز رفتاری سے بنائے جا رہے ہیں۔ اس ڈاکٹرائن کے تحت صوبہ سندھ میں جہاں انڈیا کو جغرافیائی گہرائی حاصل ہے وہ تیزی سے داخل ہو کر سندھ کو پاکستان سے جدا کرتے ہوئے بلوچستان کی طرف بڑھیں گی اور مقامی طور پر ان کو سندھ میں جسقم اور بلوچستان میں بی ایل اے کی مدد حاصل ہوگی۔ جسقم کے بارے میں 'را‘ کے سابق چیف اعتراف کر چکے ہیں کہ ان کو فنڈنگ اس خفیہ ایجنسی سے حاصل ہوتی رہی ہے۔ پاکستان کی ایجنسیوں کی طرف سے بھی باور کرایا گیا تھا کہ جسقم کو بھارت فنڈنگ کرتا رہا ہے۔ پاکستان کو اصل اور سب سے بڑا خطرہ اسی سے ہے اور پاک آرمی انڈین فوج کی اس نقل و حرکت کو مانیٹر کرتے ہوئے اپنی جوابی حکمت عملی تیار کر رہی ہے۔ پاکستان آرمی کی عظیم مشقیں جوگزشتہ کچھ برسوں سے باقاعدگی سے جاری ہیں ان کا مقصد انڈیا کے کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن کا جواب دینے کی تیاری ہے۔ اس طرح پاک آرمی جارحانہ دفاع کے لئے تیار ہو رہی ہے گوکہ اس معاملے میں طاقت کا توازن بری طرح ہمارے خلاف ہے۔ انڈیا کی کم از کم دس لاکھ فوج کے مقابلے میں ہماری صرف دو سے ڈھائی لاکھ فوج دستیاب ہے۔ پاکستان امریکی ایف پاک ڈاکٹرائن کی زد میں بھی ہے۔ امریکن ایف پاک ڈاکٹرائن (American AFPak Doctrine) کو اب نئے صدر ٹرمپ آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے۔
بارک اوباما ایڈمنسٹریشن کی جنگی حکمت عملی کا مقصد افغان جنگ کو بتدریج پاکستان کے اندر لے کر جانا اور پاک آرمی کے خلاف گوریلا جنگ شروع کروانا ہے۔ اسی ٹاکٹرائن کے باعث اس وقت پاکستان کی کم از کم دو لاکھ فوج حالت جنگ میں ہے اور اب تک ہم ہزاروں فوجیوں کی قربانی دے چکے ہیں اور یہ تعداد پاکستان کی بھارت کے ساتھ لڑی جانے والی تینوں جنگوں میں شہید ہونے والوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہے۔ اس جنگ کے لئے امریکہ اور انڈیا کا آپس میں آپریشنل اتحاد ہے اور اسے اسرائیل کی تکنیکی مدد بھی حاصل ہے۔ اسی مقصد کے لئے کرم ایجنسی اور ہنگو ایجنسی میں شیعہ سنی فسادات کروائے گئے اور وادی سوات میں نفاذ شریعت کے نام پر ایسے گروہ کو مسلط کیا گیا جس نے وہاں عوام پر مظالم ڈھائے اور فساد برپا کیا اور اسے فرو کرنے کے لئے جنرل کیانی کو پاک فوج اس وادی میں داخل کرنا پڑی۔ پاک فوج نے عملی طور پر ان کو ختم کر دیا لیکن نظریاتی طور پر اب بھی ان کو بہت سے حلقوں کی حمایت حاصل ہے؛ تاہم عوام پاک فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اب امریکہ Fourth Generation Warfare کی طرف بڑھ رہا ہے جو نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے۔ نہایت خطرناک جنگی حکمت عملی کے تحت ملک کی افواج اور عوام میں مختلف طریقوں سے دوری پیدا کی جاتی ہے، وفاقی حکومتوں کو کمزور کیا جاتا ہے، صوبائیت کو ہوا دی جاتی ہے، لسانی اور مسلکی فسادات کروائے جاتے ہیں اور عوام میں مختلف طریقوں سے مایوسی اور ذہنی انتشار پھیلایا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے کسی ملک کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا خریدا جاتا ہے، اینکر پرسنز کے بینک بیلنس میں اضافہ اور بیرونی ممالک میں ان کے لئے جائیدادیں خریدی جاتی ہیں اور ان کے ذریعے ملک میں خلفشار، انارکی اور بے یقینی کی کیفیت پیدا کی جاتی ہے۔ فورتھ جنریشن وارکی مدد سے امریکہ نے پہلے یوگوسلاویہ، عراق اور لیبیا کا حشر کیا، اب اسی جنگی حکمت عملی کو پاکستان اور شام پر آزمایا جا رہا ہے اور بدقسمتی سے انہیں اس میں کافی کامیابی حاصل ہو چکی ہے۔ پاکستان کے خلاف فورتھ جنریشن وار کے لئے امریکہ، انڈیا اور اسرائیل اتحادی ہیں۔ 
صدر بارک اوباما نے خود اعتراف کیا تھا کہ وہ پاکستان کے میڈیا میں 50 ملین ڈالرز سالانہ خرچ کر رہے ہیں۔ آج تک کسی اپوزیشن لیڈر ، حکومت یا میڈیا نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ کس مقصد کے لئے اور کن کو یہ رقوم ادا کی جا رہی ہیں۔ ادھر انڈیا کا پاکستانی میڈیا پر اثر و رسوخ (ایک خاص میڈیا ہائوسز کے ذریعے) اس وقت دیکھا جا سکتا ہے جب اس کے اینکرز شیطانی اور طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ پاک فوج کی تضحیک کرتے ہیں۔ پاکستان کی پوری قوم امریکن فورتھ جنریشن کی زد میں ہے۔ کیری لوگر بلزکے تحت 50 ملین ڈالر کی خطیر رقوم کے استعمال کے بارے میں ہمارا میڈیا خاموش ہے۔ اب جبکہ ڈان کو خبر فیڈ کرنے کے حوالے سے کمیٹی جسٹس (ر) عامر رضا کی سربراہی میں بنائی گی ہے، اسے سرل المیڈا کے ساتھ ساتھ پاکستان کے میڈیا ہاؤسز اور بعض اینکر پرسنز کے رویوں کا بھی جائزہ لینا ہوگا جو پاکستان کی تخلیق کے حوالے سے قوم میں انتشار پیدا کرا رہے ہیں اور انڈین صحافیوں کو بھی ناپسندیدہ قرار دینا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں