"KDC" (space) message & send to 7575

جنرل راحیل کا ممکنہ کردار

جنرل راحیل شریف نے اعلیٰ روایات قائم کیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے دہشت گردی اور اس سے وابستہ معیشت اور کرپشن کے خلاف انہوں نے جو اقدامات کیے پاکستان کی پوری قوم انہیں نجات دہندہ کے روپ میں دیکھ رہی تھی۔ ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب یہ تاثر پختہ ہوا کہ نواز حکومت داخلی اور خارجی محاذوں پر ناکام ہو گئی ہے، ڈان لیکس سے کور کمانڈروں میں اضطراب کی لہر دوڑ رہی تھی، تاہم انہوں نے حکومت کو بحرانوں سے نکالا۔ بعض سیاسی جماعتیں اس خواہش کا اظہار کر رہی تھیں کہ اگر جنرل راحیل شریف پاناما لیکس، قومی سطح پر احتجاجی تحاریک اور سکیورٹی لیکس پر رد عمل کے طور پر اقتدار سنبھال لیں تو اکثریت ان کا خیر مقدم کرے گی۔ ادھر عوام بھی کرپٹ سیاستدانوں کی اربوں ڈالرز کی کرپشن سے اکتا چکے ہیں، لیکن جنرل راحیل شریف نے ان حالات سے کوئی سیاسی فائدہ نہ اٹھایا اور بعض حلقوں کی خواہش پر راست اقدام نہ کیا؛ حالانکہ چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی بھی گورننس کے بارے میں شدید ریمارکس دے چکے تھے۔ جنرل راحیل شریف نے پاکستان میں جمہوری نظام کو بظاہر مضبوط کر دیا ہے۔ حکمران جماعت اور ان کی اتحادیوں کو چاہیے کہ وہ کرپشن کے مقدمات میں انصاف کے تقاضوں کے تحت اربوں ڈالر کی رقوم واپس پاکستان لے آئیں۔ پاناما لیکس کے پس منظر میں بیرونی شہزادگان کے خطوط سے پاکستان کی جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی۔ عوام غیظ و غضب سے آگے بڑھیں گے تو ادارے بھی محفوظ نہیں رہ سکیںگے۔
آئین کی حدود میں رہنے کی تلقین کرنے والوں کوکرپشن سے لوٹی ہوئی دولت کا حساب دینا ہوگا۔ جنرل راحیل شریف نے مہم جوئی کی خواہش رکھنے والے ذہنوں کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ عوامی مقبولیت حقیقی ہو یا مصنوعی، دونوں صورتوں میں کسی کو آئینی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے، پاناما لیکس اور ڈان لیکس کے بارے میں انصاف کے تقاضے پورے ہونے چاہئیں۔ پاکستان کے میڈیا کی موثر طاقت کی وجہ سے ملک میں کسی حد تک کرپشن پر قابو پایا جا سکا ہے۔ 
جنرل راحیل شریف 29 نومبر کو فوج کی کمان جنرل قمر جاوید باجوہ کو سپرد کرکے قوم کی دعاؤں سے رخصت ہو گئے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر سرکاری میڈیا مینجمنٹ کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں، اس کے مراعات یافتہ ارکان کی طرف سے جنرل راحیل شریف کی کردار کشی روکنے کے لئے اقدامات کریں۔ وزیر اعظم نے یہ قدم اٹھانے سے گریز کیا تو موجودہ آرمی چیف جہاں نرم خو ہیں، وہاں وہ نظم و ضبط کے بھی مرد آہن ثابت ہوںگے اور انہیں کوئی قدم اٹھانا پڑے گا۔ جنرل راحیل شریف دہشت گردی کی جنگ میں رہنما اصول مرتب کر گئے ہیں۔ انہوں نے محنت، خلوص اور عزم کے اعلیٰ ترین معیارات قائم کیے۔ مراعات یافتہ صحافیوں کو احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ نئے آرمی چیف کو بھی میڈیا سے فاصلہ رکھنا ہوگا۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے ٹویٹس کے بجائے باقاعدہ پریس ریلیز جاری ہونی چاہئیں کیونکہ ٹویٹس سے ابہام پیدا ہوتا رہا ہے۔ افواج پاکستان کو بطور ادارہ روشناس کرانا چاہیے۔ بھارت کے بیشتر عوام اپنے آرمی چیف کے نام سے نا آشنا رہتے ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے نئے آرمی چیف کا تقرر کیا ہے۔ ہمارے سیاسی رہنما اور میڈیا پرسنز وزیر اعظم کے صوابدیدی اختیارات کا حوالہ دیتے رہے جو درست نہیں۔ وزیر اعظم کو آئین نے صوابدیدی اختیارات سے لیس نہیں کیا بلکہ آئین میں Jurisdiction کا ذکر ہے، جس کا بین السطور معنی سنیارٹی کو ملحوظ رکھنا ہے۔ لہٰذا افواج پاکستان کے بارے میں جو قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں وہ غیر ضروری اور افسوس ناک ہیں۔ پیمرا کو ایسے اینکر پرسنز کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی جو بھارتی ایجنسیوں کے ایما پر افواج پاکستان اور سول انتظامیہ کے درمیان خلیج حائل کرنے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لئے ضروری ہے کہ مریم نواز صاحبہ کی سربراہی میں میڈیا سیل کی سر گرمیوں پرگہری نظر رکھنے کے علاوہ سابق صدر آصف علی زرداری اور بعض حکومتی ارکان کی زبان کو بھی قابو میں رکھا جائے۔ حکومت کے نادان مشیروں نے نومبر/ دسمبر کے مہینوں کے حوالے سے ذو معنی ریمارکس دے کر فوج اور سپریم کورٹ کو نقصان پہنچایا ہے۔
جنرل اشفاق ندیم اور جنرل جاوید اقبال رمدے دو ایسے جرنیل ہیں جو جنرل قمر جاوید باجوہ کے کورس میٹ، دوست اور ہم پلہ ہیں۔ آرمی میں روایت رہی ہے کہ جب دو لیفٹیننٹ جنرل فور سٹار جنرل کے عہدے پر فائز ہوتے ہیں تو سپر سیڈ ہو نے والے جنرل ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں۔ اس بار دونوں سپر سیڈ ہونے والے جنرل، فوج کا قیمتی سرمایہ ہیں، ان کی قابلیت اور تجربہ اس ملک کے لئے خزانے سے کم نہیں۔ ایسے ذہین اور قابل جرنیل برسوں میں سامنے آتے ہیں۔ جنرل اشفاق ندیم وہ جنرل ہیں جن کی ہیبت سے بھارت اور دہشت گردوں کی روح کانپ اٹھتی ہے ۔ ضرب عضب کی تمام تر کامیابی کا سہرا جنرل راحیل شریف کی مربوط پلاننگ کے سر اور اس کی کامیابی جنرل اشفاق ندیم کی مرہون منت ہے۔ جنرل راحیل کی کامیابی کے پیچھے جنرل اشفاق ندیم تھے، اگرچہ پوری ٹیم ہی زبردست تھی۔ ایسے جرنیل قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ جنرل جاوید اقبال رمدے میں جو صلاحیتیں پوشیدہ ہیں، شاید ان کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ یہ پڑھا لکھا اور دانشور جنرل قوم کا قیمتی سرمایہ تھا۔ بطور صدر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اور کور کمانڈر انہوں نے اپنی عسکری صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور ثابت کیا کہ وہ بھی ایک بہترین چوائس تھے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی نامزدگی کے بعد وزیر اعظم نواز شریف سے جو رسمی ملاقات کی وہ غیر متوقع تھی۔ اس کے مناظر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر دکھائے جاتے رہے۔ آصف علی زرداری بھی ایسے ہی انوکھے تجربات کرتے رہتے تھے۔ جب جنرل کیانی ان سے ملنے جاتے یا ان کو بلوایا جاتا تو ان کو بغیر پشت کے صوفہ سیٹ پر بٹھایا جاتا تاکہ ان کی کمر جھکی رہے، آصف علی زرداری شاہانہ انداز میں ان کو دیکھتے رہتے۔ جنرل کیانی کی جھکی ہوئی کمر سے ان کے سامنے بیٹھنے پر مجبور ہوتے تھے، لیکن جنرل راحیل شریف کی وزیر اعظم نواز شریف نے برابر کی حیثیت سے عزت افزائی کی۔ نامزد چیف آف آرمی سٹاف کے بارے میں ایسے مناظر بار بار دکھائے گئے جن سے میری دانست میں آرمی کی دل آزاری ضرور ہوئی ہوگی۔
سپریم کورٹ میں وزیر اعظم کے بیانات میں کھلا تضاد سامنے آگیا ہے، وزیر اعظم کے نااہل آئینی و قانونی ماہرین نے قطر کے شہزادے کا خط پیش کر کے قطر اور پاکستان کے عوام کے درمیان دوستی و احترام کے رشتے کو نقصان پہنچایا ہے۔ عدالت نے حمد بن جاسم جو قطر کے سابق وزیر اعظم اور سابق وزیر خارجہ ہیں کا خط مسترد کر دیا ہے۔ قطر کے سابق وزیر اعظم نے بھی سفارتی اصولوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔ عمران خان کو چاہیے کہ وہ قطر کی حکومت سے احتجاج کریں۔ خاندانی معاملات میں ایسے خطوط پیش کرنے سے ملک کے وقار پر آنچ آنے کے امکانات ہوتے ہیں۔ کاروباری معاملات میں قظر کی حکومت کو ملوث کرنا ریاست کے مفاد میں نہیں ہے۔
ان حالات میں اگر نگران سیٹ اپ آئین کے مطابق سامنے آیا تو جنرل راحیل شریف کو نگران وزیر اعظم بننے میں کوئی آئینی اور قانونی رکاوٹ حائل نہیں ہوگی کیونکہ نگران وزیر اعظم غیر جانبدار اور غیر سیاسی ہوتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کے بطور نگران وزیر اعظم بننے سے ملک میں شفاف انتخابات کی راہ ہموار ہوگی اور ملک کے بیس کروڑ عوام کو حقیقی نمائندے منتخب کر نے کا موقع ملے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں