"KDC" (space) message & send to 7575

پارلیمانی اصلاحات سے انتخابی دھاندلی رکے گی؟

قومی اسمبلی اور سینیٹ کی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات 25 جولائی 2014 ء کو تشکیل دی گئی تھی، جس کے 33 ارکان نے اپنی رپورٹ میں جو قوانین شامل کیے وہ ایکٹ 76 میں پہلے ہی موجود ہیں۔کمیٹی نے اپنا مسودہ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے۔ کمیٹی کو چار ہزار صفحات پر مشتمل 1200 سفارشات موصول ہوئیں، ان کے مطالعے کے بعد کمیٹی نے جو ترامیم تجویز کیں وہ کنفیوژن سے بھرپور ہیں، اس لئے کہ الیکشن قوانین میں تبدیلیوں کے بارے میں جو سفارشات پیش کی گئی ہیں ان سے انتخابی بے قاعدگیوں ، بے ضابطگیوں اور دھاندلی کی روک تھام کے لئے موثر اقدامات تجویز نہیں کیے گئے۔ حالانکہ انتخابی اصلاحات کمیٹی کو صاف شفاف انتخابات کے لئے قوانین میں ترمیم کے ساتھ ساتھ قانون بنانے کا ٹاسک بھی دیا گیا تھا۔ 
مناسب ہوگا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ76 کی دفعہ12 کے تحت کاغذات نامزدگی کے متعلق جو گوشوارے موجود ہیں ان کو برقرار رکھا جائے، ان کے ساتھ ویلتھ ٹیکس کے گوشوارے بھی منسلک کرنا لازمی قرار دیا جائے تاکہ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے ریٹرننگ آفیسرزکو امیدواروں کے بارے میں صحیح معلومات حاصل ہو جائیں اور مخالفین بھی مبہم اعتراضات کرنے کی بجائے ویلتھ ٹیکس کے گوشوارے سے اصل حقائق کی نشاندہی کر سکیں۔ اب ویلتھ ٹیکس کے گوشوارے کوکاغذات نامزدگی کا حصہ بنانے کی جو تجاویز سامنے آئی ہیں، وہ جناب شعیب سڈل کی مرتب کردہ ہیں جو انہوں نے وفاقی ٹیکس محتسب کی حیثیت سے 2013 ء کے انتخابات سے قبل چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم کو پیش کی تھیں۔ لیکن ان تجاویزکو پذیرائی نہ مل سکی۔
الیکٹرانک ووٹنگ، بائیو میٹرک ووٹنگ اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا فیصلہ کسی حد تک خوش آئند ہے۔ لیکن الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے طریقہ کار میں مداخلت کی مثال حالیہ امریکی انتخابات میں روس کی مبینہ کارروائی سے سامنے آچکی ہے۔ اس لئے پاکستان میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے طریقہ کار کی کامیابی کا امکان زیادہ روشن نہیں ہے۔ ڈیٹا ہیکنگ کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
انتخابی اصلاحات کمیٹی نے الیکشن ٹربیونل میں انتخابی عذرداریوں کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ عوامی نمائیندگی ایکٹ 76 میں پہلے ہی سے موجود ہے، اس پر عمل درآمد کرانے میں الیکشن کمیشن اس لئے کامیاب نہیں ہو سکا کہ اس کی راہ میں عدالتی فیصلے آتے رہے۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی کو چاہیے تھا کہ ان عدالتی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے جامع تجاویز پر مبنی طریقہ کار وضع کرتی۔ خواجہ سعد رفیق عدالتی حکم امتناعی پر اب تک رکن اسمبلی اور وفاقی وزیر ہیں۔ انڈیا میں عدالتیں الیکشن کمیشن کے فیصلوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتیں۔ سیاسی جماعتوںکی رجسٹریشن کے بارے میں جو طریقہ کار وضع کیا گیا ہے، وہ خوش آئند ہے، اس سے خود ساختہ جماعتوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی کو چاہیے تھا کہ وہ پولیٹکل پارٹیز ایکٹ 62 کو مد نظر رکھتے ہوئے پارٹی رجسٹریشن کے اختیارات الیکشن کمیشن کو تفویض کر دیتی۔ اس اختیار کو سپریم کورٹ نے اکتوبر 1988ء میں کالعدم قرار دے دیا تھا۔
انتخابی اصلاحات کمیٹی نے اپنی سفارشات میں بعض ایسی شقیں بھی شامل کی ہیں وہی ہیں جوالیکشن کمیشن نے 11 مارچ2009 ء کو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو پیش کی تھیں اور جو بعد ازاں پارلیمانی کمیٹی کا حصہ بن گئیں۔ راقم نے بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن و چیئر مین انتخابی اصلاحات کمیٹی یہ سفارشات مرتب کی تھیںاور ان کی منظوری اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس قاضی محمد فاروق نے دی تھی۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ انتخابی کمیٹی نے میری کاوش کو پذیرائی بخشی اور ان تجاویز پرکسی حد تک عمل در آمد کرانے کے لئے حکومت قانون سازی پر بھی آمادہ ہوگئی۔ انہی تجاویزکو اٹھارھویں اور 22 ویں ترمیم میں قانونی حیثیت دی گئی۔
انتخابی اصلاحات کمیٹی کی سفارشات بالعموم ایسی ہیں جن سے انتخابی عمل میں دھاندلیوں کا سد باب نہیں ہو سکے گا، اس لئے کہ ان کی حیثیت عوام، سول سوسائٹی اور میڈیاکی چشم شوئی سے زیادہ نہیں۔جو انتخابی اصلاحات پارلیمنٹ میں پیش کی گئی ہیں ان سے الیکشن کی شفافیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ضابطہ اخلاق بھی بظاہر بڑا فعال نظر آ رہا ہے، لیکن سیاسی جماعتوں کے ورکر پولنگ کے دن اس کو ہوا میں اڑا دیںگے۔ حال ہی میں بلدیاتی انتخابات میں کونسلر اور نامزد چیئرمین کھلم کھلا دھاندلی کرتے رہے۔ ان پر الزامات عائد کئے گئے کہ انہوں نے اثاثے چھپائے ہیں لیکن ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
پارلیمانی اصلاحات کمیٹی نے نو انتخابی قوانین کو یکجا کرکے انہیں مجوزہ الیکشن ایکٹ 2016ء کی صورت میں پارلیمنٹ سے منظور کرانے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔ مجوزہ ایکٹ میں جن قوانین کو یکجا کیا جا رہا ہے ان میں انتخابی فہرستوں کا ایکٹ 74 ، انتخابی حلقوں کے از سر نو تعین کے بارے میں حلقہ بندیوں کا ایکٹ 74 ، سینیٹ الیکشن ایکٹ 75 ، عوامی نمائندگی ایکٹ 76 ، الیکشن کمیشن آرڈر 2002ء ، کنڈیکٹ آف جنرل الیکشن آرڈر 2002ء ، پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء اور سمبل آرڈر 2002ء شامل ہیں۔ ان تمام قوانین کو یکجا کرنے کا الیکشن میں شفافیت سے کیا تعلق ہے؟ بلکہ اس سے سیاسی جماعتیں، امیدوار اور عوامی رہنما کنفیوژن کا شکار ہو جائیںگے۔ اب قوانین علیحدہ علیحدہ موجود ہیں، انہیں سمجھنے میں آسانی رہتی ہے۔ الیکشن کمیشن ان کو یکجا کر کے پہلے ہی کتابی شکل دے چکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام پارلیمانی اور دیگر بڑی سیاسی جماعتوں سے مشاورت سے ایک آئینی ترمیم منظور کرائی جائے کہ عوامی نمائندگی اور حکومتی مناصب پر صرف وہی شخص فائز ہو سکے گا جس کے پورے خاندان کا بیرونی ملک کاروبار اور جائیداد نہ ہو اور جن کا کاروبار یا جائیداد بیرون ملک موجود ہے، انہیں پابند کیا جائے کہ وہ اس کی پوری تفصیل فراہم کریں۔
انتخابی اصلاحات کمیٹی نے بیرونی ممالک سے فنڈنگ حاصل کر نے والی انٹرنیشنل این جی اوز، یو این ڈی پی، یو ایس ایڈ اور یورپی یونین کے دبائو پرکسی حلقہ انتخاب میں خواتین ووٹروںکے دس فیصد سے کم ٹرن آؤٹ کی صورت میں اس حلقے کا انتخاب کالعدم قرار دینے کی تجویز دی ہے جس پر تنازع پیدا ہوگا کیونکہ بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا میں روایات و اقدار کے تحت خواتین کوگھروں سے نکل کر ووٹ ڈالنے سے منع کیا جاتا ہے۔ اس شق پر عمل درآمد سے پاکستان کی ثقافتی اقدار پر حرف آئے گا۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی نے الیکشن میں دھاندلی، بے قاعدگی اور بے ضابطگیاں ثابت ہونے پر ریٹرننگ آفیسرز کو ذمہ دار قرار دینے کے بارے میں سفارش کو نظر انداز کر کے آئندہ انتخابات کے لئے دھاندلیوں کے دروازے کھول دیے ہیں۔ حلقہ 110کے حوالے سے سپریم کورٹ نے عوامی نمائندگی ایکٹ 68 کی تشریح کی ہے، اس میں مزید ترمیم کی ضرورت ہے تاکہ پولنگ عملہ اور ریٹرننگ آفیسرکو بے قاعدگیوں کا ذمہ دار قرار دے کر اس کے خلاف الیکشن آئین کے آرٹیکل 218 کے تحت کارروائی کی جا سکے۔
میری تجویز یہ ہے کہ 27ویں ترمیم پیش کرنے سے پہلے انتخابی اصلاحات کمیٹی اپنے سفارشات کو مزید جامع اور زمینی حقائق کے مطابق بنانے کے لئے ان پر نظر ثانی کرے اور ان پر عوام سے رائے لینے کے علاوہ چاروں صوبائی اسمبلیوں میں بحث بھی کروائے۔ الیکشن کمیشن انتخابات منعقد ہونے کے بعد ہمیشہ اعتراضات کی زد میں رہا ہے، اس لئے انتخابی اصلاحات کے مسودے کی منظوری سے پیشتر قوانین میں ایسی تبدیلی کروائی جائے کہ الیکشن کمیشن کی ساکھ پر حرف نہ آنے پائے۔ الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کے لئے منقولہ و غیر منقولہ اثاثہ جات اور بینک کھاتوں یا بیرون ملک سرمایہ کاری کی تمام تفصیلات فراہم کرنا پہلے بھی ضروری تھا، اب اس فارم کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے حوالے کر کے بہتر پیش قدمی کی گئی ہے۔ الیکشن قوانین میں ایسے افراد کے خلاف کارروائی کی گنجائش موجود ہے جس کے تحت اثاثے چھپانے کی سزا نااہلیت ہے۔ الیکشن ٹربیونلز اور اعلیٰ عدالتیں ایسے (کامیاب) امیدواروں کو نا اہل قرار دیتی رہی ہیں۔ انہی قوانین کے تحت اب بھی سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز زیر سماعت ہیں۔ ویلتھ ٹیکس کے گوشوارے داخل کرنے کی شرط کی بدولت ذرائع آمدنی کے بارے میں ریٹرننگ آفیسرز کے سامنے غلط بیانی کے دروازے بند ہو جائیں گے بشرطیکہ ریٹرننگ آفیسرز خود بھی غیر جانبدارانہ طور پر کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ 
حاصل کلام یہ ہے کہ پارلیمانی اصلاحات کمیٹی نے انتخابی دھاندلیوں کے تدارک کے لئے ٹھوس سفارشات پیش نہیں کیں، محض کاغذی کارروائی کرتے ہوئے قوانین کو کتابی شکل میں مرتب کرنے کا سہرا اپنے سر لینے کی کوشش کی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں