"KDC" (space) message & send to 7575

زرداری اور بلاول کے الیکشن لڑنے میں حائل مشکلات

سابق صدر آصف علی زرداری پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے چیئرمین اور پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی قوت پر گرفت مضبوط کرنے کے لئے اس کے شریک چیئر مین ہیں جبکہ بلاول زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے شریک چیئرمین ہیں۔ دونوں سیاسی جماعتوں کے ارکان ایک دوسرے کی جنرل کونسل، وفاقی کونسل اور سنٹرل ایگزیکٹوکونسل کے بھی رکن ہیں۔ اس حوالے سے امریکہ میں مقیم ایک پاکستانی شہری سید محمد اقتدار حیدر نے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور لاہور ہائی کورٹ میں ریفرنسز دائر کئے ہیں جن میں اپیل کی گئی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین اور پاکستان پیپلز پارٹی پر پابندی عائد کی جائے۔۔ درخواست گزار سید اقتدار حیدر نے جو 1997ء سے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث لیڈروں کے خلاف آئینی جنگ لڑ رہے ہیں، موقف اختیار کیاہے کہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین اور پاکستان پیپلز پارٹی کے عہدیدران سیاسی مفادات کے لئے ایک دوسرے کی سیاسی جماعت کا نام، جھنڈا اور عہدے استعمال کر رہے ہیں جبکہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے آرٹیکل 5 کے تحت کسی سیاسی جماعت کا کا رکن یا عہدیدار کسی دوسری سیاسی جماعت کے عہدے یا نام کو استعمال نہیں کر سکتا۔ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور ورکر ان قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک دوسرے کی سیاسی جماعت کے عہدے ، جھنڈے اور نام استعمال کر رہے ہیں جس کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ پولیٹیکل پارٹیرز آرڈر 2002ء کی شق 5 سے کھلم کھلا انحراف ہو رہا ہے۔
چونکہ آصف علی زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے چیئرمین ہیں، ان کو قانونی طور پر ایک جماعت کی سربراہی سے دستبردار ہونا پڑے گا اور بلاول زرداری کو بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ کے عہدے سے ہاتھ دھونے پڑیں گے کیونکہ قانونی طور پر وہ کسی دوسری سیاسی جماعت کے عہدیدار نہیں بن سکتے۔ آصف علی زراری پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے انتخابی نشان تیر سے الیکشن لڑنے کے اہل ہیں، لیکن بلاول زرداری چونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ ہیں، لہٰذا ان کو الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنے دیگر انتخابی نشانات میں سے کوئی نشان الاٹ کرے گا۔ اس طرح بلاول زرداری قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے واحد ممبر ہوں گے اور آصف علی زرداری اپنے پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے ارکان میں تو براجمان ہوں گے، اس لئے اصولی طور پر بلاول زرداری لیڈر آف دی اپوزیشن بننے کے لئے آصف علی زرداری کی طرف ہی دیکھیں گے اور ان کو پدرانہ شفقت میں تحفے کے طور پر لیڈر آف اپوزیشن بنایا جائے گا۔ جب آصف علی زرداری کاغذات نامزدگی داخل کریں گے تو ان کو عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 12 کے تحت اپنے اثاثہ جات کے گوشوارے بھی جمع کرانے ہوں گے جن میں ان کو ملکی اور غیر ملکی، منقولہ و غیر منقولہ جائیداد، بینک اکائونٹس، 
سرے محل اور سوئس بینکوں میں چھ کروڑ ڈالر کی مشکوک رقوم، انکم ٹیکس اور ویلتھ ٹیکس ظاہر کرنا ہوں گے۔ یاد رہے کہ یوسف رضا کیلانی کو سوئس بینک کیس میں اپنی وزارت عظمیٰ سے محروم ہونا پڑا تھا۔ اب یہ تمام کیسز ابھر کر سامنے آجائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں اپنی تعلیمی قابلیت کی ڈگریاں بھی منسلک کرنا ہوں گی۔ اگرچہ بی اے کی شرط انہوں نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے ذریعے ختم کروا دی تھی، لیکن تعلیمی قابلیت کے کالم میں ان کو اپنی موجودہ حیثیت دکھانا ہو گی۔ لاہور میں بلاول ہاؤس ، اسلام آباد میں زرداری ہاؤس اور کراچی میں بلاول ہاؤس کے علاوہ شوگر ملز اور اسی طرح فرانس کے پرانے محلات بھی اپنے اثاثے جات میں لازمی طور پر دکھانے ہوں گے۔ بلاول زرداری کو بھی اسی طرح کے پل صراط سے گزرنا ہوگا!
سید اقتدار حیدر کی جو درخواست لاہورہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے، وہ رنگ لائے گی اور جن ارکان نے آصف علی زرداری کو چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین اور شریک چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی منتخب کروایا ہے، ان کے خلاف بھی قانونی کارروائی کو خارج از امکان نہیںکیا جا سکتا۔ اگر وہ رہنما پارلیمنٹ کے حصہ ہیں تو ان کو قانون کے مطابق نا اہل قرار دینے کے لئے سپریم کورٹ اور قومی اسمبلی کے سپیکر کے ہاں ریفرنسز دائر ہونے کے امکانات موجود ہیں اور وہ پولیٹکل پارٹیز آرڈر2002 ء کے آرٹیکل 5 کی زد میں آ جائیںگے۔
آصف علی زرداری اور بلاول زرداری نے قومی اسمبلی کا حصہ بننے کے لئے انتخابی قوانین کے بم پر پاؤں رکھ دیا ہے۔ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر تقریر سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب آصف علی زرداری اس امانت کی واپسی کے مطالبے کی آس پر آ ئے اور وہ متحدہ اپوزیشن کے لیڈر بن کر اپنی مرضی کا نگران سیٹ اپ لینے کی کوشش کریں گے۔ آصف علی زرداری کے اپوزیشن لیڈر بننے سے پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہو جائے گی اور اعتزاز احسن، قمر زمان کائرہ، ندیم افضل چن، شوکت بسرا، سردار لطیف کھوسہ جیسے عقابی رہنما نواز حکومت کو متزلزل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ وفاقی وزیر خزانہ و اقتصای امور اسحاق ڈار نے انتخابی اصلاحات کمیٹی کی رپورٹ پر مبنی جو بل پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے، ارکان پارلیمنٹ کو وسیع تر ریاستی مفاد میں اس کا بغور جائزہ لینا چاہیے۔ ان اصلاحات سے آئندہ الیکشن میں شفافیت لانے کی کوئی تجویز سامنے نہیں آئی بلکہ الیکشن کمیشن ہی کنفیوژن کا شکار نظر آ رہا ہے۔ ان انتخابی اصلاحات سے پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے آرٹیکل 12 کی اصل روح ہی خارج کر دی گئی ہے کیونکہ انتخابی اصلاحات کے تحت سیاسی جماعتوں کے ہاں انٹرا پارٹی الیکشن کو اٹھارویں ترمیم کے ذریعے بے ضرر کر دیا گیا تھا۔ اب انتخابی اصلاحات کی آڑ میں انٹرا پارٹی الیکشن میں الیکشن کمیشن کے کردار کو ختم کر دیا گیا ہے، جس سے واضح ہو گیا کہ ملک میں سیاسی قیادت کسی طور پر بھی جماعتوں میں قیادت کے انتخاب کا شفاف طریقہ کار اپنانے کو تیار نہیں۔ پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات میں شامل تمام سیاسی جماعتیں کم از کم اس معاملے پر متفق ہیں کہ انٹرا پارٹی انتخابات میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کو یکجا کر کے مجوزہ انتخابی بل کا حصہ بنایا گیا ہے، جس میں اگرچہ کچھ نئی اصلاحات متعارف کراتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے اندراج کے طریقہ کار کو منظم کرنے سے متعلق نام نہاد کوششیں کی گئی ہے؛ تاہم شفاف انٹرا پارٹی الیکشن نہ ہونے کی وجہ سے نئی قیادت سامنے نہیں آئے گی اور سیاسی جماعتوں میں مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری برقرار رہے گی۔ مجوزہ الیکشن بل کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کا وفاقی، صوبائی اور مقامی عہدیدار پارٹی آئین کی روشنی میں منتخب کیا جائے گا، اگرچہ مجوزہ بل کی شق 207 میں واضح طور پر موجود ہے کہ تمام پارٹی ممبران کسی بھی عہدے کے لئے الیکشن لڑ سکتا ہے۔ تاہم سیاسی جماعتوں کے اندر ہونے والے الیکشن سے ہی عملی طور پر صورت حال مختلف ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے کے لئے انٹرا پارٹی الیکشن کے قواعد کو نظر انداز کر دیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں