"KDC" (space) message & send to 7575

کمشنری نظام کی بحالی اور آئندہ انتخابات

پنجاب میں ڈپٹی کمشنر کا عہدہ بحال کرنے کا فیصلہ ناقابل فہم ہے۔ در اصل پنجاب حکومت نے2018 ء کے انتخابات کو ہائی جیک کرنے کے لئے نو آبادیاتی دور کی یادگار کو بحال کیا ہے۔ حکومت نے پہلے تو بلدیاتی اداروںکے انتخابات کے انعقاد میں لیت ولعل سے کام لیا اور جب عدالتی احکامات کی بنا پر ان کا انعقاد ناگزیر ہوگیا تو بادل نخواستہ انتخابات کروائے گئے، مگر ساتھ ہی ایسی قانون سازی کی گئی جس سے مقامی حکومتیں بے جان، بے روح اور بے اختیار ہوگئیں۔ خدشہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لئے ڈپٹی کمشنر کو ضلعے کے مکمل اختیارات سونپتے ہوئے تمام ضلعی اداروںکو اس کے ماتحت کر دیا جائے گا۔ الیکشن مشینری کے لئے تمام سٹاف بھی ڈپٹی کمشنر کی رضا مندی سے تعینات کیا جائے گا اور ریٹرننگ آفیسرز بھی متعلقہ ڈپٹی کمشنر کی خواہش و منشا کے مطابق مقرر کئے جائیں گے۔ چونکہ ریٹرننگ آفیسرز ڈپٹی کمشنر کے ماتحت ہوں گے اس لئے وہ بالواسطہ اسی کے احکامات پر عمل درآمد کریں گے۔ یہی طریقہ کار وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مارچ 1977ء میں اپنایا تھا اور ڈپٹی کمشنرز کے کرائے ہوئے انتخابات سے دو تہائی اکثریت حاصل کی اور بالآخر ملک کو مارشل لاء کے حوالے کر گئے۔ اس سے قبل صدر ایوب خان نے یہی حربہ استعمال کر کے محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی الیکشن میں ہرایا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تو مارچ1977 ء کے الیکشن کے لئے پارٹی امیدواروں کی فہرستیں بھی ڈپٹی کمشنروں سے بنوائی تھیں اور انہی کی رائے کو مقدم جانتے ہوئے پیپلز پارٹی کے ان امیدواروں کو ٹکٹ دلوائے تھے جو اپنے علاقے میں کامیاب ہونے کی اہلیت رکھتے تھے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ سرگودھا ڈویژن کی قومی اسمبلی کی 26 نشستوں اور 60 کے لگ بھگ صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر ڈپٹی کمشنروں کی خفیہ رپورٹ کی بنیاد پر ٹکٹ تقسیم ہوئے تھے۔ راقم ان دنوں سرگودھا ڈویژن کا ڈپٹی الیکشن کمشنر تھا۔ 
مقامی حکومتوں کا نظام تمام ترقی یافتہ جمہوری و فلاحی مملکتوں کے لئے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ کئی ترقی پذیر ممالک نے بھی اقتصادی خوشحالی اور سماجی بہتری کی راہ پر تیزی سے گامزن ہونے اور تمام شہریوں تک ترقیاتی منصوبوں کے ثمرات پہنچانے کے لئے مقامی حکومتوں ہی کا نظام اپنایا ہے۔ لیکن پنجاب حکومت نے پندرہ سال بعد ڈپٹی کمشنر کا عہدہ بحال کر کے بلدیاتی نظام کی روح کو ہی ختم کردیا۔ پنجاب سول ایڈمنسٹریشن آرڈیننس 2016ء کے تحت ہر ڈویژن، ضلع اور تحصیل کی سطح پر کو آرڈینیشن کمیٹیاں بنیں گی جن میں متعلقہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان اور بلدیاتی نمائندے ماتحت کی حیثیت سے شریک ہوں گے اور بالترتیب کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر ان کے اجلاسوں کی صدارت کریںگے۔ تحصیل، ضلع اور ڈویژن میں امن و امان کا قیام، انتظامی و مالی اختیارات اور ترقیاتی کام ڈپٹی کمشنر کی مرضی سے ہوںگے، نو منتخب نمائندے اب اپنی مرضی سے گلی محلے کا کام بھی نہیں کروا سکیں گے، بلکہ انہیں ان مسائل کے حل کے لئے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے دروازے پر کھڑا ہونا پڑے گا۔ پولیس سمیت تمام محکمے کمشنر اور ڈپٹی کمشنرکے ماتحت ہوں گے، کمشنر کسی بھی افسر کے خلاف کارروائی کرنے کا مجاز ہو گا۔ گویا ہر کمشنر اپنے ڈویژن اور ضلع میں ڈپٹی کمشنر پنجاب کے وائسرائے کا نمائندہ ہوگا اور ان کے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے الیکشن2018ء کے انتخابات کے نتائج اپنی مرضی کے مطابق حاصل کرے گا۔ خدشہ ہے کہ اپوزیشن کے امیدواروں کے خلاف فوجداری مقدمات درج کرائے جائیںگے۔ 
کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کا نظام قیام پاکستان سے قبل کا ہے اور انگریزوں نے کمشنر اور ڈپٹی کمشنرز کو انتظامی امور کے حوالے سے بے پناہ اختیارات تفویض کئے تھے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں یہ اختیارات ختم کرتے وقت نیا بلدیاتی نظام متعارف کروایا گیا تھا جس میں ناظمین کو وسیع اختیارات دیے گئے تھے؛ تاہم وہ ان کا درست استعمال نہیںکر سکے تھے۔ کئی مرحلوںکے بعد اب جبکہ پنجاب میں بلدیاتی نمائندوں، میئرز، ڈپٹی میئرز اور چیئرمین،وائس چیئر مین کا انتخاب مکمل ہوا ہے تو ایک بار پھر پرانا نظام بحال کر دیا گیا ہے۔ ڈپٹی کمشنرز کو فوجداری مقدمات کی سماعت کے اختیار مل گئے ہیں اور ہر ضلع کا ڈپٹی کمشنر ترقیاتی کاموں کی مانیٹرنگ کا فریضہ بھی انجام دے گا۔ اگلے مرحلے میں مجسٹریسی نظام بھی بحال ہو جائے گا۔ عمومی رائے یہی ہے کہ پرانا نظام بحال ہونے سے منتخب عوامی نمائندوںکے اختیارات محدود ہوگئے ہیں اور پولیس کے محکمہ کو بھی ڈپٹی کمشنر کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔
پاناما سکینڈل کی از سر نو سماعت شروع ہو چکی ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود کو نوتشکیل بنچ سے علیحدہ رکھ کر تمام قیاس آرائیوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔ عام انتخابات قبل از وقت ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ حکمران جماعت کا اصل مقابلہ تحریک انصاف سے ہی ہوگا کیونکہ پیپلز پارٹی پنجاب میں مکمل پسپائی اختیار کر چکی ہے۔ امکان یہی ہے کہ اس سال کے آخر میں پیپلز پارٹی کی قد آور شخصیات آصف علی زرداری سے دل برداشتہ ہو کر آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب میں حصہ لیں گی۔ پاناما لیکس کا فیصلہ ہی وزیر اعظم نواز شریف اور عمران خان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ عمران خان 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلیوں اور اگست 2014ء کے احتجاجی معرکے میں ناکام ہوئے، آئندہ انتخابات میں ان کی کامیابی کا دارومدار بڑی حد تک پاناما کیس کے فیصلے پر ہوگا۔ اس حوالے سے میاں نواز شریف کا اپنا سیاسی مستقبل بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اگر منفی فیصلہ آتا ہے تو ان کے سیاسی ورثا کا سنہری دور ختم ہو جائے گا کیونکہ عمران خان نے پنجاب میں عملی طور پر پیپلز پارٹی کی جگہ حاصل کر لی ہے اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں نے اندرون خانہ آصف علی زرداری پر عدم اعتماد کر دیا ہے۔
حکمران جماعت کو بھی احتیاط کا دامن پکڑنا چاہیے اور ایسے ٹویٹ جاری نہیں کرنے چاہئیں جن کی وضاحت وفاقی وزراء کو دینی پڑے۔ پاناما لیکس بادی النظر میں وزیر اعظم آئین کے آرٹیکل 9 ، آرٹیکل 15 ، آرٹیکل 16، آرٹیکل 17 (الف) آرٹیکل 19اورآرٹیکل 63,62 اور 65 سے انحراف کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ملک میں بہتر نظام حکومت کے لئے وزیر اعظم نے اپنے عہدے کا جو حلف اٹھایا ہے وہ بھی پاناما لیکس کی زد میں آ چکا ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ریاستی ادارے کی مضبوطی کے لئے قومی احتساب بیورو کو براہ راست صدر مملکت کی نگرانی میں دیا جائے تاکہ وہ کرپشن کے خاتمے کے لئے اس ادارے کی خدمات سے استفادہ کر سکیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی صدر مملکت کے سامنے جواب دہ بنانے کے لئے آئین کے آرٹیکل 58-B جو کالعدم ہو چکی ہے کو اس انداز میں بحال کیا جائے کہ قومی احتساب بیورو، الیکشن کمیشن آف پاکستان ، سٹیٹ بینک آف پاکستان اور آڈیٹر جنرل صدر مملکت کے براہ راست تابع ہوں اور ان اداروں کی آئینی کوتاہیوں پر صدر مملکت کو باز پرس کرنے کے اختیارات حاصل ہوں۔ میری معلومات کے مطابق انڈیا میں الیکشن کمیشن اور تحقیقاتی ایجنسیاں صدر مملکت کی نگرانی میں کام کرتی ہیں۔
ممتاز دانشور اور روزنامہ دنیا کے کالم نگار نسیم احمد باجوہ نے سید فیروز شاہ گیلانی کے حوالے سے خوب لکھا ہے کہ ملک کی سیاسی قیادتیں ایسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہوچکی ہیں جس کے مریض چاہے ارب پتی ہوں، چوری کرنے سے باز نہیں آ سکتے۔ ملک کی بد قسمتی ہے کہ صدر مملکت بھی کرپشن کے حوالے سے چند آنسو بہاتے ہیں لیکن اس کا علاج نہیں کر پاتے۔ جس ملک کی حکومت پر عادی اور ناقابل علاج چوروں کا قبضہ ہو یا اتنا عمل دخل ہو کہ وہ اپنی وارداتوں کا سلسلہ جاری رکھ سکیں اور کوئی ہاتھ اتنا مضبوط نہ ہو کہ انہیں روک سکے یا ان کو گرفت میںلایا جا سکے،ایسے ملک کا خدا ہی حافظ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں