"KDC" (space) message & send to 7575

نئی تقرری کے مضمرات

محل وقوع نے پاکستان کو دنیا کا سیاسی اور معاشی مرکز بنا دیا ہے، یہ صدی مغرب کی نہیں بلکہ مشرق کی ہے، مشرق میں بڑی بڑی معاشی طاقتیں وجود میں آرہی ہیں۔ صدر ایوب خان نے 1964ء میں ہی ان حقائق کا ادراک کرلیا تھا؛ چنانچہ اس نے معاہدہ استنبول کی بنیاد رکھ کر پاکستان کو ایران اور ترکی سے منسلک کر دیا تھا اور آرسی ڈی ہائی وے کوئٹہ،قلات، خضدار، تفتان سے مشہد، تہران اور ترکی کے لئے تعمیر ہونی شروع ہوگئی تھی، اور اب سی پاک منصوبے کی وساطت سے پاکستان ، چین اور روس ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہورہے ہیں۔ سب سے اہم نکتہ نظر یہ ہے کہ معاشی مفادات کی بنیاد پر اس خطے میں ہونے والی نئی صف بندی میں امریکہ کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ اس کی نیو ورلڈ آرڈر والی سیاست اس خطے میں بے معنی ہو رہی ہے؛ چنانچہ اس تناظر میں نام نہاد 39 ملکی مسلم فوجی اتحاد کا سربراہ جنرل راحیل شریف کو مقرر کرنا مناسب نہیں کیونکہ بادی النظر میں مذکورہ اتحاد عالم اسلام کو متحارب گروپوں میں تقسیم کرنے کے مترادف ہے اس اتحاد کے اہداف اور اغراض و مقاصد ابھی تک واضح نہیں ہیں ، اور پھر یہ ایک ایسی تنظیم ہے جسے مسلم دنیا کی مکمل حمایت ہی حاصل نہیں۔ ایسا اتحادبنانے کا فیصلہ درست نہیں ہے جس کی پشت پر امریکی مفادات پوشیدہ ہوں‘ جسے اسرائیل کی حمایت بھی حاصل ہو۔ یہ مسلم فوجی اتحاد سعودی عرب کے موقف کی حمایت کرتا ہے جویمن میں جنگ لڑ رہا ہے اور وہ اپنے مفادات رکھتا ہے، حالانکہ یمن کی سرحد طائف تک پھیلی ہوئی ہے اور طائف عرب و حجاز کے ایام میں یمن کا ہی حصہ رہا اور سعودی سلطنت کی جب بنیاد رکھی گئی تھی تو یمن نے طائف کو سو سال کی لیز پر سعودی حکومت کو دیا تھا۔یمن نے لیز کی مدت پوری ہونے پر طائف کا وسیع علاقہ واپس مانگا تو یمن میں خانہ جنگی شروع ہوگئی اور زیدی شیعہ مسلک کے لوگ ایران کی پشت پناہی سے بغاوت پر اتر آئے۔
سعودی اور یمن کے درمیان فوجی جنگ میں ایسے بہت سے ممالک ہیں جو سعودی عرب کی حمایت کرتے ہیں اور کئی ایسے ممالک بھی ہیں جو یمن میں اُس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ جنرل راحیل کی حالیہ تعیناتی ان کی تین سالہ مدت ملازمت کے دوران خدمات (بطور پاک فوج کے سربراہ کے) تعریف کی گئی اور مغربی ممالک نے بھی جنرل راحیل کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ ضرب عضب کی کامیابی سے ان کی شخصیت کو بہت مقبولیت ملی۔ جنرل راحیل مغربی ممالک کے بالعموم اور سعودی حکومت کے بالخصوص بہت قریب ہوتے گئے۔ جنرل راحیل کو یمن میں فوجی آپریشن میں شامل ہونے کے دوران بہت محتاط رہنا پڑے گا‘ خاص طور پر ایسے وقت جب یمن کے تنازع کے حوالے سے مسلم امہ میں اتفاق رائے موجود نہیں ۔ جنرل راحیل شریف کے فیصلہ سے قوم سکتے میں آگئی اور ان کے فیصلے کے خلاف ایک سروے کے مطابق 95 ہزار سے زائد ٹویٹ جاری ہوئے اور عوام کی بڑی اکثریت نے ان کے فیصلے کو قدر کی نگاہ سے اس لئے نہیں دیکھا کہ ان کو شہداء فاؤنڈیشن کی سربراہی کرتے ہوئے شہیدوں کے خاندانوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں فقیر منش عبدالستار ایدھی سے آگے بڑھ کر کام کرنا چاہئے تھا۔ اب شہداء فاؤنڈیشن کی سربراہی ان کی اہلیہ ہوں گی لیکن ان کے خواب بھی جنرل راحیل کے بغیر ادھورے ہی رہ جائیں گے، جنرل راحیل قوم کے مسیحابن کر ابھرے تھے اور اگر وہ پاکستان میں جمہوری بنیاد پر اپنی سیاسی جماعت کی تشکیل کر لیتے تو چند برسوں میں ان کے وزیر اعظم بننے کی راہ کی تمام رکاوٹیںدور ہو جاتیں۔ وہ بنگلہ دیش کے جنرل ارشاد حسین کی طرح اپنے ملک کے وزیر اعظم ہوتے۔جنرل ارشاد حسین نے جیل سے الیکشن میں حصہ لیا اور ان کی پارٹی نے بنگلہ دیش کی اسمبلی کی تین سو نشستوں میں سے سو سے زائد نشستیںحاصل کیں۔ جنرل راحیل شریف کو قوم کے بہترین مفاد میںیہ پیش کش ٹھکرا کر واپس وطن کی خدمت کے لئے آجانا چاہئے کیونکہ تاریخ لکھی جائے گی کہ آل سعود کی پہلی بین الاقوامی مسلح افواج کا سپریم کمانڈر پاکستانی تھا۔جنرل (ر) راحیل شریف کو پاکستان کا قومی مفادات مد نظر رکھنا چاہئے تھا اور ان کا یہ فیصلہ درست نہیں ہے۔ یہ معاملہ محض ایک عرب ملک کے دفاع کا نہیں ہے اور اس تقرری پر فوجی، مذہبی، سیاسی طور پر اعتراضات بہت زیادہ ہیں اور اس کے مستقبل میں جو گہرے اثرات ہوں گے اس کے مضمرات کا احساس کرنا چاہیے۔
اسلامی فوج کے نام پر ایک ایسا عسکری اتحاد تشکیل دیا گیا ہے جس پر ایک خاص مسلک کی گہری چھاپ لگی ہوئی ہے، جب کہ پاکستان نے یمن سعودی کشمکش سے علیحدہ رہنے کی پالیسی اپنائی تھی۔ 1982ء میں بھی یہی صورت حال تھی جب چند خلیجی ممالک کے ایما پر صدر صدام حسین کو ایران پر حملہ کرنے کی ترغیب دی گئی تھی اور صدام نے انتہائی غلط قدم اٹھایا جو ایران پر حملہ کر دیا یہ جنگ آٹھ سال جاری رہی۔ مگر صدر صدام حسین کو پسپائی اختیارکرنی پڑی ۔
جنرل راحیل شریف کو ادراک ہونا چاہئے کہ اس اتحاد کی بنیاد ہی درست نہیں ہے کیونکہ 39 مسلم ملکوں پر مشتمل اس فوجی اتحاد کے تحت جو فوج تشکیل دی جا رہی ہے اس میں فرقہ واریت کا تاثر آتا ہے، بظاہر تو یہ اتحاد دہشت گردی کے خلاف ہے تاہم اس میں ان ممالک کے نام شامل نہیں ہیں جن کے تعلقات ایک عرب ملک سے خوشگوار نہیں ہیں۔ اس اتحاد کے اپریل 2015ء سے لیکر ابھی تک خدوخال ہی واضح نہیں ہیں کہ کس طرح معاملات ہوں گے، فوج کون ہوگی، عالمی برادری کا تعاون کس نوعیت کا ہوگا۔جنرل راحیل شریف کو عمرہ کی ادائیگی کے بعد پاکستان لوٹ آنا چاہئے۔خاموشی سے اپنا تھنک ٹینک تیار کریں اور شہداء فاؤنڈیشن کے ذریعے عبدالستار ایدھی کی طرز پر پاکستان کے مفلوک الحال عوام کی خدمت کریں۔
انتخابی اصلاحات کے لئے پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے انتخابی قوانین کے لئے مجوزہ بل میں اسمبلی یا سینیٹ کے انتخابات میں کامیاب یا ناکام امیدواروں کے لئے اپنے خلاف عذرداری پر الیکشن ٹربیونل کے حتمی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں رٹ دائر کرنے کی تجویز دی گئی ہے،یعنی سینیٹ، قومی یا صوبائی اسمبلی کے کسی منتخب رکن یا عذرداری مسترد کئے جانے کے خلاف الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف صرف سپریم کورٹ سے ہی رجوع کیا جا سکے گا۔ہائی کورٹ سے رجوع نہیں ہو سکے گا۔ یہ انتہائی مضحکہ خیز تجویز ہے، عوامی نمائندگی ایکٹ 76 ء کے مطابق الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف اپیل صرف سپریم کورٹ میں ہی دائر ہوتی رہی ہے اور 2013ء کے انتخابا ت کی عذر داریوں کے بارے میں فیصلے آتے رہے ان کے خلاف سپریم کورٹ میں ہی اپیلیں ہوتی رہیں، اس کی تازہ مثال خواجہ سعد رفیق کی ہے جن کو الیکشن ٹربیونل کے خلاف سپریم کورٹ ہی نے حکم امتناعی جاری کیا ہوا ہے۔ اسی طرح خواجہ محمد آصف، گوجرانوالہ کے افتخار چیمہ، ساہیوال کے رائے حسن نواز سمیت تقریباً پندرہ کے لگ بھگ ایسے فیصلے جو الیکشن ٹربیونل نے فیصلے دیئے‘ ان کے خلاف سپریم کورٹ میں ہی درخواستیں دائر کی گئیں۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی کے معزز ارکان کو انتخابی قوانین کے بارے میں مکمل بریفنگ نہیں دی گئی جس کی وجہ ے یہ ابہام پیدا ہو رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں