"KDC" (space) message & send to 7575

پیپلز پارٹی کا اتحاد اور انتخابی نشان کا مخمصہ

پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین نے الیکشن کمیشن کے احکامات کی روشنی میں انٹرا پارٹی الیکشن کروا دیئے ہیں ، جو پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002 ء کے آرٹیکلز کے بر عکس ہی ہیں، بہرحال ملک کی بیشتر جماعتوں نے یہی طریقہ اختیار کیا ہوا ہے، اور الیکشن کمیشن نے بھی ان کے پارٹی کے اندرونی انتخابات کوبادل نخواستہ تسلیم کر کے ان کے غیرجمہوری طریقوں پر خاموشی ہی اختیار کی ہوئی ہے ۔ الیکشن کمیشن ان کے انٹرا پارٹی الیکشن پر باز پرس کرنے کے اختیارات سے قانوناًمحروم ہے، دوسری طرف ڈاکٹر صفدر عباسی اورناہید خان نے الیکشن کمیشن پیپلز پارٹی کی رجسٹریشن اور اس کے انٹرا پارٹی الیکشن تسلیم نہ کرنے کی استدعا کی ہے۔ ناہید خان کا موقف ہے کہ پیپلز پارٹی کی رجسٹریشن کا کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا ء ہے جس کی سماعت 23 جنوری کو ہو گی۔ اس پس منظر میں صورت حال بڑی مضحکہ خیز ہے جب آصف علی زرداری صدر تھے تو ان کے خلاف آئینی پیٹیشن دائر کی گئی کہ وہ بحیثیت صدر پیپلز پارٹی کے عہدیداران کا اجلاس ایوان صدر میں طلب کر کے اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہے ہیں ۔جس پر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے صدر زرداری کو نوٹس بھجوا دیئے۔ خدشہ تھا کہ صدر آصف علی زرداری عدالتی مواخذہ کی زد میں آجائیں گے دوسری طرف اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخارمحمد چوہدری بھی ان پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ بہرحال ایوان صدر کے فاضل وکیل وسیم سجاد نے لاہور ہائی کورٹ میں یہ موقف اختیار کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی سیاسی جماعت نہیں بلکہ غیر سرکاری فلاحی تنظیم ہے، جس پر ہائی کورٹ نے کیس کو نمٹاتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کو غیر سرکاری تنظیم تسلیم کر کے صدر آصف علی زرداری کو بیل آؤٹ کر دیا۔
انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کے لئے پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے تحت جو سر ٹیفکیٹ رولز 9.7 کے تحت الیکشن کمیشن میں بھجوایا جاتا ہے اس کے مطابق آج تک کسی سیاسی جماعت نے حقائق کے مطابق قانونی ضروریات کو مد نظر نہیں رکھا، غیر سرکاری تنظیمیںجو پاکستان میں جمہوری اقدار کے فروغ کے لئے کروڑوں روپے غیر ملکی فنڈز کی صورت میں وصول کر رہی ہیں، انہوں نے بھی اپنے مغربی مفادات کے پیش نظر اس اہم شق کو نظر انداز ہی کر رکھا ہے اور کسی اعتراض کے بغیرپارٹی کے انٹرا پارٹی الیکشن کی توثیق کرتے آئے ہیں اور کبھی اس قومی معاملہ پر سروے کروانے کی زحمت نہیں کرتے! نیشنل ڈیموکریٹک فاؤنڈیشن ‘ایسے غیر جمہوری انتخابات کے خلاف اقوام متحدہ ، اور یورپی یونین کے ممالک کو ریفرنسز بھجوانے کے لئے یاد داشتیں مرتب کر رہی ہے اور عنقریب اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے ممالک کوتحقیقات کے لیے بھیجی جائیں گی۔ عوام کی رہنمائی کے لئے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 ء کے آرٹیکل 11 کا حوالہ دے رہا ہوں تاکہ سیاسی جماعتوں کو انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کے لئے قانونی ادراک حاصل ہو:
Article 11-(3)
All members of the political party at the federal, provincial and local levels shall constitute the electoral college for election of the party general conduct at the respective levels.
اطلاعات ہیں کہ پیپلز پارٹی اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین میں اتحاد کی بنیاد پر ایک ہی نشان پر انتخاب لڑنے پر غور و خوض کیا جا رہا ہے۔ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء جوملک کے ذہین ترین آئینی ماہر محترم سید شریف الدین پیرزادہ نے تخلیق کیا تھا، اس کے آرٹیکل 13,12 کو مد نظر رکھنا پڑے گا، جس کی رو سے دونوں جماعتوں کو اتحاد کے بعد ایک نشان الاٹ نہیں کیا جا سکے گا۔پیپلز پارٹی کے آئینی ماہرین کو پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002 ء کے آرٹیکل 14 (2) کو مد نظر رکھنا ہوگا اور اس کے مطابق پیپلز پارٹی اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کو علیحدہ علیحدہ انتخابی نشان الاٹ کئے جائیں گے ۔ قانونی و آئینی طور پر اگر پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین مدغم ہوئی ہے تو پھر پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے تمام ارکان پارلیمنٹ (بشمول صوبائی اسمبلیوں کے ارکان) کو مستعفی ہونا پڑے گا، آئندہ الیکشن کے لئے دونوں پارٹیاں ایک دوسرے میں مدغم ہو کر ایک سیاسی جماعت کا انتخابی نشان حاصل کرنے کی قانونی مجاز ہیں۔ اس مقصد کے لئے زرداری صاحب کو پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر کے عہدے سے دستبردار ہونا اور جماعت کو تحلیل کرنا پڑے گا۔
انٹرا پارٹی الیکشن پولیٹکل آرڈر 2002ء کے آرٹیکل 11 اور 12 کے تحت کروانے کے لئے الیکشن کمیشن کی نگرانی میں مانیٹرنگ کرانے کے لئے انتخابی اصلاحات کمیٹی غور کرے اور اس کے لئے آرٹیکل 12 کے نیچے ایک نئی شق کا اضافہ کیا جائے۔ 
وزیر اعظم نواز شریف نے برآمد کنندگان کے لئے ایک کھرب 80ارب کے ریلیف پیکیج کا اعلان کرکے آئندہ انتخابات کے لئے انتخابی جنگ اکانومی کا آغاز کر دیا ہے۔ جدیدترین سکول بسوں کی فراہمی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے!بادی النظر میں وزیر اعظم نواز شریف اوراپوزیشن جماعتوں کو ملک کے وسیع تر مفاد میں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی ۔ ساڑھے تین سال سے سید خورشید شاہ حکومت کے اتحاد میں ہی نظر آتے رہے اور ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا حکومت کا استحقاق تھا! وزیر اعظم نواز شریف پاناما کیس میں عدالتی فیصلے کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اب ملک میں ترقیاتی کاموں کے منصوبوں کو میڈیا کے ذریعے مشتہر کرایا جا رہا ہے، انہوں نے 27 اکتوبر 1997 ء کو بھی جب سپریم کورٹ میں ان کے خلاف چیف جسٹس (ر) سجاد علی شاہ شطرنج کا کھیل کھیل رہے تھے اور ان کی پشت پر صدر فاروق لغاری اورکسی حد تک جنرل کرامت جہانگیر کھڑے تھے تو انہوں نے عجلت میں موٹر وے کا افتتاح کر دیا تھا تب موٹر وے تعمیر کے مرحلے سے گزر رہی تھی ۔ افتتاح کے کہیں تین ماہ بعد ہی موٹر وے استعمال کے قابل ہوئی تھی۔ دریں اثناء سٹیٹ بنک کی تازہ رپورٹ میں پاکستانی معیشت کے بارے میں جو انکشافات ہوئے ہیں وہ حکمرانوں ، اپوزیشن اور میڈیا کی آنکھیں کھولنے اور عوام کے رونے کے لئے کافی ہیں۔رپورٹ بتاتی ہے کہ مالی خسارہ بلندی کی انتہا کو پہنچ رہا ہے‘ آمدنی اور خرچ کا فرق بڑھتا جارہا ہے ۔روزانہ ایک ارب بیس کروڑ روپے کے نئے نوٹ چھاپے جا رہے ہیں تو کہیں قیمتی عمارتوں کو گروی رکھ کر اربوں روپے کے قرضے حاصل کئے جارہے ہیں ۔سیاستدانوں نے شرح خواندگی میں اضافہ محض اس لیے نہیں ہونے دیا کہ عوام کہیں ان کی کرپشن کے خلاف ہی نہ اٹھ کھڑے ہوں اور اگر یہ رپورٹس عوام کی سمجھ میں آنا شرع ہو گئیں تو پھر وزیر اعظم کا 180 ارب کا انتخابی پیکیج رائگاں جائے گا۔
َ1985ء میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات اور اس کے بعد اب تک ہونے والے سارے انتخابات کے نتیجے میں پارلیمنٹیں وجود میں آتی اور حکومتیں بنتی رہی ہیں ان کے ادوار میں بد عنوانیوں میں اضافہ ہی ہوتا رہا ۔کرپشن کینسر کی طرح ہمارے سیاسی رہنماؤں میں سرایت کر چکی ہے ۔اگلے انتخابات کو بہتر بنانے کے لیے الیکشن کمیشن کے سربراہ اور ارکان کو غیر جانبدار ہنا اور اُنہیں آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پرسختی سے عمل درآمد کرانے کے لئے انتخابی اصلاحات سے بھر پور فائدہ اٹھا نا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں