"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی اصلاحات بل کا جائزہ

مجوزہ انتخابی اصلاحات بل 2017ء کی بعض شقیں آئین کے آرٹیکل 19 کے خلاف ہیں۔ مجوزہ قانون کا جائزہ لیتے ہوئے شک ہوتا ہے کہ مجوزہ قانون الیکشن کمیشن کو اعتماد میں لئے بغیر‘ میڈیا اور الیکشن کمیشن میں خلیج پیدا کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ بل صریحاً آئین، بنیادی حقوق اور جمہوری معاشرے کے منافی ہے۔ مذکورہ الیکشن کمیشن بل 2017ء کے تـحت الیکشن کمیشن کی آزادی و خود مختاری پر زد پڑتی ہے۔کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے مرحلے پر میڈیا اور انتخابی مبصرین کی رسائی پر بھی قدغن لگا دی گئی ہے۔اس طرح شکوک وشبہات کو ہوا ملے گی‘ من پسند امیدواروں کو منتخب کروایا جائے گا اور قوم اپنے نمائندوں کے کوائف سے بے خبر رہے گی۔امیدواروں نے جو کوائف کاغذات نامزدگی میں درج کئے ہیں ان پر اعتراض لگانے کے لئے قوم کو اندھیرے میں رکھا جائے گا۔ ریٹرننگ آفیسران با اثر سیاسی شخصیات کے دباؤ میں رہیں گے۔ الیکشن ایکٹ 240 بھی حذف کرنے کی سفارش کی گئی ہے ۔مجوزہ بل کے تحت الیکشن کمیشن کو انتخابی اخراجات یا اثاثوں کی تفصیلات میں غلط بیانی پر کسی کو نا اہل قرار دینے کا اختیار نہیں رہے گا، اسی طرح الیکشن ایکٹ (1)53 کے تحت ریٹرننگ آفیسران انتخابی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے تمام ضروری اقدامات کرنے کا مجاز ہوگا اورالیکشن کمیشن ان کے انتخابی عمل میں مداخلت کرنے سے قاصر رہے گا، اصولی طور پر ریٹرننگ آفیسران کو الیکشن کمیشن کی نگرانی اور ہدایات کے ماتحت ہونا چاہئے۔ ریٹرننگ آفیسران کو الیکشن میں بے قاعدگیوں ، بے ضابطگیوں اور دھاندلی کے مرتکب ہونے پر جواب دہ بنانا چاہئے۔اب انتخابی اصلاحات میں ان کو با اختیار بنا کر آئندہ الیکشن میں دھاندلیوں کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں۔ مذکورہ الیکشن بل 2017ء کے تحت کسی بھی اہم خبر کو لیک کرنا یا اطلاع دینے والے کو پچاس لاکھ روپے جرمانہ اور پانچ سال قید کی سزا آئین کے آرٹیکل 19 کی نفی کرتا ہے‘ جمہوری ممالک ایسے قانون کو مضحکہ خیز اوربین الاقوامی مبصرین اسے کمیونسٹ ممالک کے قوانین قرار دیں گے، اسی طرح کے قوانین وسط ایشیا کے ممالک میں بھی پائے جاتے ہیں۔ مجوزہ سفارشات الیکشن کمیشن کے اختیارات کو ختم کر کے انتخابی عمل کو مشکوک بنانے کی سازش ہے۔ اس طرح کے قوانین تو مرحوم ذوالفقار علی بھٹو بھی مارچ 1977ء کے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے نہیں بنا سکے تھے، دراصل میڈیا کو خوف دلا کر خاموش رکھنے اور مقامی مبصرین کے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ مشاہدات چھپانے کی گہری سازش ہے۔لگتا ہے کہ ارکان پارلیمانی کمیٹی اور اپوزیشن کے ارکان کو اس قانون کو پڑھنے کی فرصت ہی نہیں ملی۔
حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن کو قانونی طور پر خود مختار بنانے کی کوششوں اور انتخابی اصلاحات کے لئے کمیشن کے کئے گئے اقدامات کے باوجود مروجہ انتخابی نظام میں تبدیلی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ۔یوں منتخب ایوانوں میں عوام کی حقیقی نمائندگی کا تصور آج بھی خواب ہے۔ جب کہ اپوزیشن آج بھی انتخابی دھاندلیوں کے بارے میں حکومت کی پراسرار حکمت عملی کی وجہ سے تحفظ کا اظہار کر چکی ہے۔ اب حکومت نے دو سال کی نام نہاد محنت و کاوش سے جو انتخابی اصلاحات کا بل پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے نظام کی اصلاح کے داعیان کے لئے یقینا لمحہ فکریہ ہے، انتخابی اصلاحات میں ریٹرننگ آفیسران کے جانچ پڑتال کرنے کے مرحلہ کے دوران میں اشتراکی ممالک کی طرز پرآہنی پردے لگائے جا رہے ہیں۔ مجوزہ انتخابی اصلاحات میں الیکشن کمیشن کی اتھارٹی کو محدود کر دیا گیا ہے ۔ آئین کے آرٹیکل 62 اور63 کو متنازع بنا کر ''سٹیٹس کو‘‘ والے انتخابی نظام کو مسلط کیا جارہا ہے، اگر انتخابی عمل میں عام آدمی کی کوئی گنجائش ہی نہ نکل سکے گی تو سلطانیٔ جمہور کے تقاضے کیسے پورے ہو سکتے ہیں؟ عوام کی نمائندگی کی دعویدار سیاسی جماعتوں نے حقیقی انتخابی اصلاحات کے لئے الیکشن کمیشن سے تعاون میں پس و پیش سے کام لیا اور جمہوری انتخابی نظام لانے کے لیے قومی ذمہ داریاںپوری کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ مروجہ انتخابی نظام میں موجود قباحتوں کے باعث ہی عام آدمی انتخابات میں حصہ لینے سے قاصر ہے۔ انتخابی عمل پر عوام کا اعتماد آج تک قائم نہیں ہوسکا۔ جب کہ ان قباحتوں کے نتیجہ ہی میں الیکشن کمیشن آزادانہ اور منصفانہ انتخابات میں ناکامی اور انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کی زد میں آتا رہا ہے اوراُس کی غیر جانبداری پر بھی سوالات اٹھتے رہے! کرپشن اور اختیارات کے ناجائیز استعمال کے کلچر میں آلودہ ہمارے انتخابی نظام نے ہمیشہ مراعات یافتہ اشرافیہ طبقات کو ہی تقویت پہنچائی ہے۔ عوام مروجہ انتخابی نظام کے ذریعے اپنی حکمرانی سے مایوس ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اپوزیشن کے ارکان حکومتی حصار میں گھرے رہے اور اپنی عقل و دانش کو بروئے کار نہ لا سکے۔ اپوزیشن نے انتخابی نظام کے ماہرین سے بھی مشاورت کرنا ضروری نہ سمجھا ۔ اپوزیشن پارٹیوں میں تھنک ٹینک کا بھی فقدان رہا ہے جس کی وجہ سے حکومت اپنی منشاء کے مطابق انتخابی اصلاحات کا بل قومی اسمبلی میں پیش کر رہی ہے۔ چیف جسٹس(ر) ناصر الملک کے انکوائری کمیشن نے انتخابی اصلاحات کے حوالے سے جو تجاویز دی تھیں، ان کو بھی انتخابی اصلاحات کمیٹی نے نظر انداز کر دیا۔
انتخابی اصلاحات کمیٹی الیکشن میں اخراجات پر پابندی لگانے کی حکمت عملی تیار کرنے میں یکسر ناکام رہی۔جب کہ بھارتی حکومت قانون سازی کر رہی ہے کہ الیکشن کے امیدواروں کے انتخابی اخراجات ریاست برداشت کرے اور اس مقصد کے لئے بھارتی حکومت ایک کھرب روپے پر مشتمل الیکشن فنڈقائم کر رہی ہے۔ پارٹی کے امیدواروں کے اسی فنڈسے انتخابی اخراجات پورے کئے جائیں گے‘ تاکہ وہ کسی جماعت کے زیربار احسان نہ رہیں اور نہ ہی مافیا گروپ پر مبنی کارپوریٹ کمپنیاں ان کی راہ میں حائل ہو سکیں۔ اس طرح متوسط طبقے کے امیدوار ریاست کے خرچ پر انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں اس طرح کا ڈھیلا سا نظام صدر ایوب خان نے بھی بنایا تھا۔صدارتی انتخاب کے امیدواروں کے اخراجات کے لئے ایک لاکھ روپے ادا کرنے کی سکیم کا اجراء کیا تھا۔ ان کے مد مقابل امیدواروں جن کو‘ میں کمال حسین اور محمد بشیر شامل تھے‘ ایک ایک لاکھ روپے انتخابی اخراجات کی مد سے الیکشن کمیشن نے ادا کئے تھے ‘البتہ محترمہ فاطمہ جناح نے اس پیش کش کو مسترد کر دیا تھا۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی نے انٹرا پارٹی الیکشن کے لئے الیکشن کمیشن کے اختیارات ختم کر دیئے ہیں، جب کہ انڈین الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی الیکشن پارلیمنٹ کی طرز پر کرواتا ہے۔ انڈین الیکشن قوانین کے تحت پارٹی امیدوار کو اسی حلقے میں انتخاب لڑنے کی اجازت ہوتی ہے جس حلقے میں اس کے ووٹ کا اندراج ہوتا ہے اگر کوئی امیدوار دو حلقوں سے انتخابات میں حصہ لینے کا خواہش مند ہو تو اس کے اخراجات اُسے خود ادا کرنے ہوتے ہیں۔ انٹرا پارٹی الیکشن کے انعقاد کے بارے میں حقیقی قانون سازی کرنے کی بجائے خاندانی موروثی کے قانون کی بنیاد رکھ دی گئی ہے ۔ اب عام ورکر پارٹی کی سربراہی تک نہیں پہنچ سکتا۔
سیاسی جماعتوں کے فنڈز کے بارے میں الیکشن کمیشن ہر سال 30 اگست کو پارٹیوں کے اکاؤنٹس اور اثاثہ جات طلب کرتا ہے اور اسی فنڈز کے ذرائع کے بارے میں معلومات کی دلیل بہت ہی منفی اور کمزور بنیاد پر کھڑی کی گئی ہے جب کہ انڈیا کے الیکشن قوانین میں ترامیم کر دی گئی ہے جس میں پارٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے کہ وہ ظاہر کریں کہ پارٹی کے فنڈز کے ذرائع کیا ہیں؟ جنہوں نے پارٹی فنڈز میں رقوم بھجوائی ہیں، ان کا انکم ٹیکس نمبر کیا ہے اور ان کے مالی وسائل کیا ہیں ؟پارٹی قانونی طور پر یہ تمام اثاثے عوام اور میڈیاکو بھیجنے کی پابند ہے۔اسی طرح انڈین الیکشن قوانین میں یہ درج ہے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا‘ پارٹی کے فنڈز کے بارے میں تمام گوشوارے اسمبلی کے سپیکر کو پیش کرے۔ اسمبلی کا سپیکر ان کی جانچ پڑتال کرے گا جس کے بعد عام بحث کے لئے اسے اسمبلی میں پیش کر دیا جاتا ہے ۔ ہر سیاسی پارٹی اپنے اپنے فنڈز کی وصولی کے بارے میں اپنا دفاع کرنے کے لئے مجبور ہے، پارلیمنٹ ایکٹ کے مطابق سپیکر سیاسی پارٹیوں کے فنڈز کے بارے میں باقاعدہ جانچ پڑتال کرانے کا پابند ہے اور اس کی معاونت کے لئے انڈیا کے ادارے موجود ہیں۔
آئندہ انتخابات کی شفافیت کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ریٹرننگ آفیسران جو حتمی رزلٹ عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 39 کے تحت تیار کرتے ہیں اس کو قانونی طور پر پابند کیا جائے کہ وہ فزیکل طور پر تمام بیلیٹ پیپرز کی از سر نو گنتی کرائے اور گنتی کے وقت پریذائڈنگ آفیسران کے تیار کردہ فار م xiv کو مد نظر رکھے اور فارم xvi اور xvii تیار کرنے کے بعد ریٹرننگ آفیسران کو پابند کیا جائے کہ وہ حتمی رزلٹ کے ہمراہ فارم xiv بھی الیکشن کمیشن کو بھجوائے اور ان تینوں فارموں کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد الیکشن کمیشن کامیاب امیدواروں کے لئے سرکاری گزٹ نوٹی فکیشن جاری کرے، اسی طریقہ کار سے الیکشن ٹربیونلز میں عذر داریاں کافی حد تک کم ہو جائیں گی اور امیدواروں کو ریٹرننگ آفیسران کی دہلیز پر انتخابی انصاف مل جائے گا۔ ریٹرننگ آفیسران قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے لئے علیحدہ علیحدہ مقرر کئے جائیں ۔اس طرح ان پر انتظامی، عدالتی اور امن و امان، ضابطہ اخلاق کی پابندی کرانے کے لئے بوجھ اور دباؤ کم ہو جائے گا۔ نیشنل ڈیموکریٹک فاؤنڈیشن انتخابی اصلاحات بل کی ان متنازع شقوں کو زیر بحث لانے کے لئے 25 جنوری کو راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کا انعقاد پاکستان فریڈم موومنٹ کے باہمی اشتراک سے کر رہی ہے‘ جس میں انتخابی امور کے ماہرین ان متنازع شقوں کا جائزہ لیں گے جس کے بعد رپورٹ انتخابی اصلاحات کمیٹی کے چیئر مین اسحاق ڈار، چیئر مین سینیٹ رضا ربانی، سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اور چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا کو بھجوائی جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں