"KDC" (space) message & send to 7575

ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان

جارج واشنگٹن کی قیادت میں 1789 ء سے امریکی قوم جمہوری نظام پر عمل پیرا ہے ۔امریکی جمہوری نظام کو مثالی اور آئیڈیل صورت حاصل ہو چکی ہے ۔ آپسی اختلافات کے باوجود سنگین بحران میں پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بنی کھڑی دکھائی دیتی ہے! آج میںپاکستان کے دانشوروں اور سیاسی رہنماؤں کے لئے جارج واشنگٹن کی ایک عظیم مثال پیش کر رہا ہوں جو ابھی تک نظر انداز ہوتی رہی۔ جب 1776ء میںامریکی طویل جدوجہد کے بعد آزاد ہوئے تو قوم نے جارج واشنگٹن کو ان کی قومی خدمات اور جدوجہد آزادی کی قیادت کے باعث امریکہ کا پہلا صدر منتخب کرنے کی پیش کش کی تو انہوں نے انکار کرتے ہوئے اپنے دست راست کو امریکہ کا پہلا صدر منتخب کرانے کی دعوت دی، اور جب قرعۂ فال ان کے دست راست کے نام نکلا تو انہوں نے اپنے قریبی ایسے قائد کا نام تجویز کیا جس کی آزادی کی تحریک میں نمایاں خدمات تھیں، مگر اُنہوں نے بھی صدارت کا منصب سنبھالنے کی پیش کش یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکا رکر دیا کہ جارج واشنگٹن ہی امریکہ کے عظیم قائد ہیں اور یہ منصب ان کو ہی دیا جائے؛ چنانچہ بڑی ردوکد کے بعد جارج واشنگٹن کو بادل نخواستہ یہ پیشکش قبول کرنا پڑی۔ دوسری طرف پاکستان میں پہلی آئین ساز اسمبلی نے جب گورنر جنرل غلام محمد کے اختیارات محدود کئے تو انہوں نے آئین ساز اسمبلی کو ہی چلتا کر دیا۔ مزید سنئے! گورنر جنرل سکندر مرزا نے 1956 ء کے آئین پر اس وقت تک دستخط نہیں کئے جب تک موصوف کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صدارت پیش نہ کی گئی، سکندر مرزا نے آئین ساز اسمبلی کو دوبارہ تحلیل کرنے کی باقاعدہ دھمکی دی تھی۔ اسی ڈگر پر چلتے ہوئے جنرل یحییٰ خان نے ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن سے اپنے عہد صدارت کی توسیع کا مطالبہ کیا تھا جس کے نتیجہ میں سقوط مشرقی پاکستان کا سانحہ ہوگیا ۔ بعد ازاں ''با اصول ‘‘بیوروکریٹ سیاستدان صدر اسحاق خان نے نومبر 1988 ء میں بے نظیر بھٹو سے سودا بازی کی اور جب ان کو صدر بنانے کا وعدہ کیا گیا تو موصوف نے بے نظیر بھٹو کو وزیر اعظم مقرر کرنے کے فرمان پر دستخط کئے ۔ صدر اسحاق خاں نے18 جولائی 1993ء کو نواز شریف کی حکومت کو برطرف کرنے اور ملک میں از سر نو انتخابات کرانے کے لئے بے نظیر سے دوسری مرتبہ صدارت کا عہدہ اپنے پاس رکھنے کے لئے خفیہ معاہدہ کیا۔مگر جسے بے نظیر بھٹو نے معاہدے کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے وزیر اعظم بنتے ہی فاروق لغاری کو صدر منتخب کروا دیا ۔ اسحاق خان اپنی ذلت اور تضحیک کو برداشت نہ کر سکے اور اپنی وفات تک ایسے گوشہ نشین ہوئے کہ اپنی سرگزشت بھی نہ لکھ سکے۔ اسی مکروہ روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے جنرل پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو سے خفیہ مفاہمت کی اور ان کو 2008ء کے انتخابات میں فری ہینڈ دینے کے لئے این آر او تخلیق کیا۔ بعد ازاں اسی کے نتیجہ میں نواز شریف 27 نومبر 2007ء کو پاکستان آئے ۔ جنرل پرویز مشرف ‘آصف زرداری اور نواز شریف کی سیاست کے مقابلے میں پسپا ہو کرایوان صدر سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔ 
امریکی صدر ڈو نلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو حلف اٹھانے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں صدر پرویز مشرف کی طرز پر سب سے پہلے امریکہ کا نعرہ لگانے ہوئے تمام معاملات میں امریکی مفادات کو ترجیح دینے اور دنیا کو'' اسلامی دہشت گردی ‘‘سے پاک کرنے کے عزم کا اظہار کیا جب کہ اس دوران امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار منتخب صدر کے خلاف امریکہ اور دنیا کے کئی ملکوں میں سی آئی اے‘ ایف بی آئی اور پینٹاگون کی حکمت عملی کے تحت احتجاجی مظاہرے اور پر تشدد ہنگامے جاری ہیں۔ اس صورت حال کی وجہ واضح طور پر امریکہ کے نئے صدر کا انتہا پسندانہ اور مختلف طبقات اور گروپوں کے خلاف نفرت اور تحقیر پر مبنی طرز سیاست بھی ہے جس کا بھرپور مظاہرہ مسٹر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کیا۔
خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ اس امریکہ کے سربراہ کے بجائے جو کئی عشروں سے سیاست ، معیشت، تعلیم ، سائنس و ٹیکنالوجی اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں عالمی انسانی برادری کی قیادت کرتا چلا آرہا ہے، صرف امریکہ نامی ایک ملک اور اس کے مفادات کے علم بردار نظر آتے ہیں۔ تارکین وطن خصوصاً عرب اسرائیل قضیے￿ کے حوالے سے ان کے سنگ دلانہ موقف سے مشرقی وسطیٰ میں صورت حال مزید خراب ہوگی۔ انتخابی مہم کے دوران وہ جس طرح کے خیالات ظاہر کرتے رہے ہیں، ان کی بناء پر امریکی مسلمان خوف اور بے یقینی سے دوچار ہیں۔ موصوف نے دہشت گردی کے ساتھ اسلامی کا لفظ جوڑ کر کھلی بے انصافی کا مظاہرہ کیا، جب کہ دہشت گردی کا سب سے زیادہ نشانہ خود مسلم ممالک ہیں اور اس کی وجہ فی الحقیقت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی غیر منصفانہ اور مفاد پرستانہ پالیسیاں ہیں۔ عراق‘ افغانستان اور لیبیا پر امریکی فوج کشی کو صدر ٹرمپ اپنے ایک حالیہ بیان میں غلط قرار دے چکے ہیں، جب کہ فلسطین اور کشمیر کے مظلوم عوام کا سات عشروںسے اپنے حق سے محروم رہنا بھی امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کے خود غرضانہ رویوں کا نتیجہ اور دہشت گردی کے فروغ کی ایک بنیادی وجہ ہے۔کوئی مسلمان ملک اور حکومت دہشت گردی کی حامی نہیں‘ حقیقت ہے کہ اس کے بنیادی اسباب کا خاتمہ محروم عوام کو ان کا حق دئیے بغیر نہیں ہو سکتا۔ 
پاکستان کے سیاست دانوں کے لئے ایک مثال ہے کہ ہارورڈ یونیورسٹی میں آئین پڑھانے والا اور آٹھ برس تک دنیا کے طاقتور ترین ملک کا صدر رہنے والا بارک اوباما خدا حافظ کہہ کر رخصت ہوا تو اس کے اور اس کی بیوی کے ہاتھ خالی تھے، نہ تو کوئی سکینڈل بنا نہ کہیں شوگر ملیں لگائیں اور نہ لندن اور سوئٹزرلینڈ کے بنکوں میں کوئی آف شور اکاؤنٹ کھولا اور نہ ہی پانامہ سکینڈل میں اربوں کی جائیداد کا کہیں کوئی نشان ملا۔ شکاگو یونیورسٹی کے پروفیسر شہباز گل نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں بتایا کہ روز گار کے جو مواقع بھارت اور چین کی جانب منتقل ہو گئے ہیں ڈونلڈ ٹرمپ انہیں ریورس نہیں کر سکیں گے۔ پاکستان امریکہ کے ساتھ پاک چین اقتصادی راہداری کارڈ استعمال کر سکتا ہے، ٹرمپ کاروباری شخصیت ہے انہیں کاروباری معاہدات کی بات زیادہ سمجھ آئے گی!
پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا ثبوت یہ ہے کہ صدر اوباما نے نریندر مودی، اشرف غنی کوالوداعی کال کی‘ لیکن وزیر اعظم نواز شریف کو انہوں نے کوئی اہمیت نہیں دی ۔اس سے امریکہ کی آئندہ پالیسی اور رویوں کا اندازہ کرنا چاہئے۔ امریکہ جس نے اسلامی ممالک افغانستان ‘ عراق‘ شام‘ یمن اور لیبیا میں فوج کشی کر کے مسلم امہ کو منتشر کر دیا اور نتیجے میں امریکہ خود معاشی، مالی مشکلات سے دو چار ہو گیا‘ اقتصادی و معاشی طور پر امریکہ اس قدر مستحکم و مضبوط نہیں رہا۔ صدرٹرمپ امریکی وحدت کو برقرار رکھنے کے لئے عرب ممالک کو کمزور کرناچاہیں گے۔ امریکہ مشرق وسطیٰ کا نقشہ تبدیل کر کے چھوٹے چھوٹے ملک بنانا چاہتا ہے تاکہ چین کو اقتصادی طور پر سپر پاور بننے سے روکا جائے۔ وہ پاک چین اقتصادی راہداری کی راہ میں رکاوٹ ڈال کر پاکستان کی وحدت کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے ۔جس کا خواب نواب اکبر بگٹی مرحوم، سردار عطا اللہ مینگل، عبدالحفیظ پیرزادہ اور ممتاز بھٹو نے کنفیڈریشن آف پاکستان کا تصور دیتے ہوئے یونائیٹڈ سٹیٹس آف پاکستان کا نظریہ پیش کیا تھا ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ نظریہ بھی سی آئی اے اور امریکی وزارت خارجہ کے تعاون سے ہی بنایا گیا تھا ۔منصوبے کے خدوخال لندن میں تیار کئے گئے تھے اور اب بھارتی فکر سے مرعوب دانشور پاکستان کو کنفیڈریشن کی ریاست بنانے کی راہ پر چل پڑے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں