"KDC" (space) message & send to 7575

پاناما کیس، مردم شماری اور افغان پناہ گزین

پاناماکیس کی سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے۔ اس کا جو بھی فیصلہ آئے گا اس کے ملکی سیاست اور بین الاقوامی سطح، بالخصوص پاک چین تعلقات پر دور رس اثرات مرتب ہوںگے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ اب فریقین نے عامیانہ انداز اختیار کرکے ماحول کو تلخ کر دیا ہے۔ اگر گہری نظر سے دیکھیں تو حکومتی حلقوں کی مایوسی صاف نظر آ رہی ہیں۔ ملتان میں میٹرو بس سروس کا آغاز اگرچہ ملتان کی ترقی میں سنگ میل ثابت ہوگا، لیکن اس کے افتتاح کے موقع پر حکمرانوں کے چہروں پر مستقبل کے خدشات صاف نظر آرہے تھے۔ انہوں نے نامکمل پروجیکٹ کا افتتاح کیا۔ دراصل پاناما کیس اب الیکشن 2018ء کی انتخابی مہم کا مرکزی نقطہ ہوگا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان، میری ناقص رائے میں، پاناما کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے تحقیقاتی اداروں کے ذریعے انکوائری کرانے کا حکم صادر کرے گی اور اس کے ٹائم فریم کا بھی تعین کر دے گی، کیونکہ پاناما کیس اب قومی مفادات کے زمرے میں شامل کر لیا گیا ہے۔ پاکستان کا مستقبل سپریم کورٹ کے فیصلے کا منتظر ہے، ممکنہ طور پر وزیر اعظم نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے دستبردار ہونا پڑے گا اور صدر مملکت آئین کے آرٹیکل 90 کے تحت قومی اسمبلی کے ارکان میں سے ایسے رکن کو جو اعتماد کا ووٹ لینے کا اہل ہو، حکومت بنانے کی دعوت دے سکتے ہیں۔ بادی النظر اور میری ناقص رائے میں چوہدری نثار علی خان ہی سینئر ترین رہنما ہیں۔
پاکستان میں کرپشن کا سرطان جس حد تک سرایت کر چکا ہے،کوئی پاکستانی اس سے بے خبر ہو سکتا ہے اور نہ متفکر ہوئے بغیر رہ سکتا ہے۔ کرپشن کے اس کلچر کو فروغ دینے میں آصف علی زرداری کے دور حکومت سے پہلے کے بے شمار عوامل بھی شامل ہیں جن کا آغاز 1985ء میں ہو گیا تھا۔ لیکن ملک میں احتساب کے منصفانہ اور شفاف نظام کی عدم موجودگی میں اس کا سدباب کرنا ممکن نہ ہو سکا۔ بد قسمتی سے 2008ء سے ملک کے حکمرانوں نے قانون کی حکمرانی کے تصور سے حقیقی وابستگی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ انہوں نے ایسی حکمت عملیاں اپنائیں جنہوں نے کرپشن کو آگے بڑھایا۔ صدر پرویز مشرف نے قومی ''اصطبل‘‘ کی صفائی نہیں کروائی۔ انہوں نے جنرل شاہد عزیز کو بطور چیئرمین قومی احتساب بیورو نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات کو آگے بڑھانے ہی نہیں دیا۔ بقول جنرل شاہد عزیز جب انہوں نے تین سو سے زائدکرپشن آلود فائلوں کے ساتھ چھیڑ خانی شروع کی تو صدر پرویز مشرف نے ان کی سرزنش کر دی، جس سے دل گرفتہ ہوکر انہوں نے قومی احتساب بیوروکی چیئر مین شپ سے گلو خلاصی کرالی۔ اب پاناما کیس کی سماعت کے دوران اور سپریم کورٹ کے باہر اس تسلسل کے ساتھ جھوٹ بولا جا رہا ہے کہ سچ اور جھوٹ کی پہچان باقی نہیں رہی۔
پاناما کیس خاموشی سے آگے بڑھ رہا ہے اور ممکنہ طور پر پاکستان کے انتخابی سیاست میں اہم تبدیلی لائے گا۔ دی ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ڈیووس کے دورے پر مبینہ طور پر لاکھوں ڈالر خرچ کیے گئے۔ اس کے علاوہ ہمارے حکمرانوں نے محض سری لنکا کے بے اختیار اور بے اثر وزیر اعظم سے ملاقات پر ہی اکتفا کیا اور کسی اجلاس میں شریک نہ ہو سکے۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں کی رہنمائی کے لئے اللہ کی آخری کتاب میں سورۃ التکاثر موجود ہے جس کا مطالعہ کر کے لیو پولڈ کی زندگی ہی بدل گئی اور وہ اسلام قبول کرنے کے بعد ڈاکٹر اسد کہلائے۔انہوں نے ''روڈ ٹو مکہ‘‘ لکھ کر عالم انسانیت کی روح کو تڑپا دیا۔ سورۃ التکاثر کا ترجمہ یہ ہے: ''زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کی ہوس نے تمہیں غافل رکھا، حتیٰ کہ تم قبروں میں جا پہنچے۔ ہاں، ہاں تم جلد جان جاؤ گے،، تمہیں اپنے کرتوتوں کا انجام جلد معلوم ہو جائے گا۔ ہاں، ہاں اگر تم اس انجام پر یقین رکھتے ہو تو ایسا ہر گز نہ کرتے، تم دوزخ دیکھ کر رہو گے، یقیناً تم جہنم کو اپنی آنکھوں سے دیکھو گے‘‘۔ ڈاکٹر اسد لکھتے ہیں کہ مال کی ہوس اور اس کے ہولناک انجام کے بارے میں قرآن کے الفاظ پڑھ کر ان کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے!
آئینی طور پر مردم شماری کا مرحلہ مارچ 2009ء میں شروع ہوجانا چاہیے تھا مگر آصف علی زرداری کی حکومت اور بعد ازاں نواز شریف حکومت اور دیگر سیاسی جماعتیں مردم شماری کی اہمیت کا ادراک نہ کر سکیں اور اب بھی بعض سیاسی جماعتیں اسے متنازع بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ بڑی سیاسی جماعتوں بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کو ہوم ورک کرنا چاہیے کیونکہ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں نشستوںکے رد و بدل سے نئے چہرے متعارف ہوں گے۔ پنجاب اور سندھ میں مردم شماری سے زیادہ تنازعات نئی حلقہ بندیوں کے بارے میں جنم لے سکتے ہیں۔ اگرچہ مردم شماری فوج کی نگرانی میں ہو رہی ہے، جو واحد ادارہ ہے جس پر عوام کو اعتماد ہے، لیکن اس کے ساتھ سیاسی پارٹیوں کو بھی احساس ہونا چاہیے کہ فوج کے جوان صرف فارموں کی تقسیم کے وقت، ان کی حفاظت کے لئے تعینات کئے جا رہے ہیں، ریکارڈ میں ہیرا پھیری تو ضلعی حکام نے بعد میں کرنی ہے۔ یعنی فوج کے جوان فارموں کی تقسیم اور ان کی وصولی تک ہی ان کے ساتھ رہیں گے، مردم شماری کا عملہ جو حکمران جماعتوں کے زیر اثر رہے گا، وہ جو بھی اعداد و شمار مرتب کرے گا ان سے فوج کا کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ اسی طرح الیکشن کے دوران فوج سے معاونت حاصل کی جاتی ہے، وہاں بھی خوش آئند بیانات سامنے آتے ہیں جبکہ زمینی حقائق کچھ یوں ہیںکہ پولنگ سٹیشنوں کے اندر جو اندھیر مچایا جاتا ہے اس سے فوج کا دورکا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ فوج کے ترجمان کو اس اہم قومی مسئلے کی طرف توجہ دینی اور ٹرم آف ریفرنسز کے حوالے سے پوزیشن کو واضح کرنی چاہیے۔
مردم شماری ہر دس سال بعد اپنے وقت پر کرانا لازمی ہے اور ایسا نہ کرنا عوام کو بنیادی حقوق سے محروم کرنا ہے۔ حکومت کے لیے لازم ہے کہ وہ ہر مردم شماری شفاف انداز میں کرائے اور اسے سیاسی جماعتوں کے لئے قابل قبول بنائے،کسی بھی شکایت کو قاعدے قانون کے ذریعے دور کرے۔ وقت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ افغان مہاجرین کے حوالے سے اب حتمی فیصلہ کر لیا جائے کیونکہ اس مسئلے کی وجہ سے عوام بالخصوص صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تشویش پھیل رہی ہے۔ کراچی میں تقریباً 40 لاکھ سابق مشرقی پاکستان کے شہری آباد ہیں جو رجسٹر ہو چکے ہیں، ان کی پاکستان کی شہریت آئینی طور پر جائز ہے، ان کے آباؤ اجداد نے تحریک پاکستان اور بعد ازاں سانحہ مشرقی پاکستان وقوع پذیر ہونے سے پیشتر بے پناہ قربانیاں دیں، ان کو مکمل آئینی حقوق ملنے چاہئیں، ان کی موجودگی پر کسی سیاسی پارٹی کو اعتراض نہیں کرنا چاہیے، بلکہ سابق مشرقی پاکستان کے شہریوں کے لئے قومی اور صوبائی اسمبلی میں خصوصی نشستوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ستر لاکھ سے زائد بیرون ممالک میں مقیم پاکستانی شہریوں کو بھی مردم شماری کے عمل سے محروم رکھنا درست نہیں، ان کے لئے کوئی درمیانی راستہ نکالا جا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں