"KDC" (space) message & send to 7575

قبل از وقت انتخابات کا طبل !

انٹرنیشنل ری پبلیکن انسٹیٹیوٹ (آئی آر آئی)کا تجزیاتی سروے گمراہ کن اور حقائق کے برعکس ہے۔آئی آر آئی پر 2008ء میں اس کی بعض قابل اعتراض سرگرمیوں کی بنا پر قدغن لگا دی گئی تھی۔ وزارت داخلہ نے اس کے کنٹری ڈائریکٹر کے ویزے کی توسیع کی استدعا مسترد کر دی تھی! نواز حکومت حقیقی تعمیراتی کرنے کے بجائے ''سروے اور تشہیر‘‘ کی سیاست پر زیادہ توجہ دے رہی ہے۔حکومت تشہیر کی مد میں اب تک 11 ارب روپے خرچ کر چکی ہے۔ سروے کرنے ، کروانے اور ماننے والے حقیقت تک پہنچنے کے لئے حالیہ امریکی الیکشن کو بھی مد نظر رکھیں، جب ہیلری کلنٹن کے دلفریب سروے اور میڈیا تجزیے دھرے کے دھرے رہ گئے اور ٹرمپ جیت گئے۔ ہیلری کے اربوں ڈالر اس تشہیری مہم میں ڈوب گئے۔ لہٰذا ایسے سرووں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ میڈیا مینجمنٹ اور بین الاقوامی گروپس سے محض دولت کے زور پر کرائے جاتے ہیں۔ امریکہ کی سیاسی تاریخ میں سب سے بڑا سیٹ اپ 7 نومبر کو ہوا، جب تمام سروے، پولز غلط ثابت ہوئے اور میڈیا کی حمایت کسی کام نہ آئی، انٹرنیشنل ری پبلیکن انسٹیٹیوٹ ڈیموکریٹک پارٹی امریکہ کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ اس نے جو نام نہاد سروے جاری کیا تھا، اس کی تحقیق اور جانچ پڑتال کے بجائے پنجاب حکومت نے تمام اخبارات میں 7 فروری کو رنگین اشتہارات جاری کروادئے جس میں ظاہر کیا گیا کہ ملک کے 63 فیصد عوام نے مقبولیت کے لحاظ سے وزیراعظم نوازشریف کو ملک کا سب مقبول سیاسی رہنما قرار دیا ہے۔ جبکہ 67 فیصد عوام وزیر اعظم کی کارکردگی کو سراہتے ہیں اور 79 فیصد عوام نے موجودہ پنجاب حکومت کی کارکردگی کا اعتراف کر لیا ہے۔ایسے جعلی سروے عدالت عظمیٰ پر دباؤ ڈالنے کا بھی نفسیاتی حربہ ہیں اور نفسیاتی جنگ اسی طریقے سے لڑی جاتی ہے! 
ملک میں چوتھی سیاسی قوت کے لئے راہ ہموار کی جارہی ہے اور مارچ 1977ء کے انتخابات کی طرح یہاں بھی ایک ایسی قوت تیار کی جارہی ہے جس میں ملک کی چھوٹی اوربا اثر سیاسی پارٹیاں ایک اتحادی کی حیثیت سے قوت بن کر آئندہ کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کا مقابلہ کریں گی۔اس ممکنہ سیاسی اتحاد میں متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان سر زمین پارٹی، مسلم لیگ (ق) مسلم لیگ (ضیاء الحق ) مسلم لیگ (ہم خیال)، حامد ناصر چٹھہ گروپ مسلم لیگ فنکشنل، سندھ ، بلوچستان، مغربی پنجاب، صوبہ خیبر پختون خوا اور وطن پارٹی اور پیپلز الائنس شامل ہو سکتی ہیں۔ اور اس کی سربراہی کے لئے اے آرڈی طرز پر پینل بنایا جائے گا تاکہ تمام رہنماؤں کی انا بھی برقرارہے۔ سیاسی اتحاد آئندہ انتخابات کے لئے جامع حکمت عملی کے تحت ن لیگ کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں اُترے گا۔ مجوزہ اتحاد کا پیپلز پارٹی کے ساتھ انتخابی معاہدہ بھی ممکنات میں سے ہے۔
پاناما پیپرز کا اہم کیس عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے۔ اس کے فیصلے کے بارے میں سردست کچھ کہنا ممکن نہیں؛ تاہم ظاہر ہو رہا ہے کہ فیصلے کے دونوں پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم قومی اسمبلی کو تحلیل کرکے قبل از وقت انتخابات کا طبل بجا دیں گے تاکہ اپوزیشن جماعتوں کو اپنی صفیں درست کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔ جس طرح وزیر اعظم بھٹو نے 3 جنوری 1977ء کو قومی اسمبلی تحلیل کر کے قبل از وقت انتخابات کرانے کا اچانک اعلان کر کے اپوزیشن کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے ممکنہ فیصلے سے قطع نظر اس وقت انتخابات کے لئے سب سے زیادہ تیاریاں مسلم لیگ (ن) نے ہی کی ہیں۔ پنجاب میں اس کی گرفت بہت مضبوط ہے، اگر پنجاب کے ہر ضلع میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی ہر نشست کا جائزہ لیا جائے تو اس امر کی غیر جانبدارانہ تصدیق ہوتی ہے کہ ن لیگ کی پوزیشن قدرے بہتر ہے۔ قومی اسمبلی کی کل 272 نشستوں پر براہ راست انتخابات والی نشستوں میں سے 148 نشستیں پنجاب میں ہیں جب کہ کل 342 نشستوں میں سے پنجاب میں 183 نشستیں بنتی ہیں۔ جو سیاسی جماعت پنجاب کو کنٹرول کرتی ہے وہی وفاق میں حکومت بنا سکتی ہے۔ وزیر اعظم نوازشریف کی نظریں اس وقت سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں اور معزز ججز صاحبان کے ریمارکس اور کیس جس سمت جا رہا ہے اس کے پس منظر سے نواز شریف بخوبی آگاہ ہیں کیونکہ ان کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح سپریم کورٹ کے کمپیوٹر تک رسائی حاصل ہو جائے، جو کہ بظاہر ناممکن نظر آ رہا ہے۔ جس طرح روس کے صدر پیوٹن نے بڑی مہارت سے امریکی انتخابات میں ہیلری کلنٹن کا ڈیٹا ہیک کرنے کے لئے اپنی کمپیوٹر ٹیکنالوجی استعمال کی۔ اسی طرح کی ایک واردات بھارت میں بھی کرنے کی کوشش کی گئی۔ جون 1976ء میں وزیر اعظم اندرا گاندھی کے خلاف انتخابی عذر داری کے مقدمے میں الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سنہا نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے بارے میں فیصلے کو محفوظ رکھا ہوا تھا تو بھارت کی تمام ایجنسیوں کے اہلکاروں نے جسٹس سنہا کے پرائیویٹ سیکرٹری کو گھیرا ہوا تھا تاکہ ٹائپ کرتے ہوئے فیصلے کاقبل از وقت پتہ چل جائے۔ لیکن جسٹس سنہا نے فیصلے کا آخری پیراگراف اپنے ہاتھ سے لکھا اوراندرا گاندھی کو نا اہل قرار دے دیا‘ یوں ایجنسیاں منہ دیکھتی رہ گئیں، اب ٹیکنالوجی نے بڑی ترقی کرلی ہے۔ کوئی بعید نہیںکہ سپریم کورٹ کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہو۔
وزیر اعظم نے اقتدار کے تحفظ کے لئے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ خواجہ سعد رفیق، پرویز رشید، آصف کرمانی‘ طلال چوہدری ، دانیال عزیز اور رانا ثنا ء اللہ جیسے رہنما اس مشن کی تکمیل کے لئے میدان میں اترے ہیں۔ مگر کیا چیف جسٹس ثاقب نثار کے ساتھ وہ سلوک ممکن ہوگا جو چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ بعض ججوں کی مدد سے کیا گیا، یا کیا جنرل قمر باجوہ اسی طرح خاموشی سے چلے جائیں گے جیسے جنرل کرامت چلے گئے تھے! میڈیا نے عوام کو ایسا شعوردے دیا ہے کہ اب وزیراعظم کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئے۔ وزیر اعظم نوازشریف نے علاقائی طاقتوں اور سیاسی قوتوں کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کر لئے ہیں جبکہ عمران خان نے ملکی سیاست میں بہت فعال ہونے کے باوجود ان طاقتوں سے سیاسی تعلقات کے لئے ہوم ورک نہیں کیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں