"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی اصلاحات اور مستقبل

پاکستان میں ہونے والے تقریباً ہر پارلیمانی الیکشن کی شفافیت ہمیشہ اعتراضات کی زد میں رہی جن کے ازالے کے لئے 2008 ء سے ہی انتخابی اصلاحات کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کو اس سلسلے میں متفقہ سفارشات مرتب کرنے کے لئے کہا گیا تھا جس کی منظوری وفاقی کابینہ نے دے دی ہے، اب حتمی منظوری کے لئے انہیں پارلیمنٹ کے اجلاس میں باقاعدہ بل کی صورت میں پیش کیا جائے گا۔ جمہوری نظام میں انتخابات کو کلیدی حیثیت حاصل ہے، ہمارے ہاں انتخابات میں شفافیت کے جتنے بھی دعوے کئے جائیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ عموماً انتخابات میں تنازعات سامنے آتے رہے ہیں۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مارچ 1977 ء کے انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کے الزامات لگے ۔ 3 فروری 1985 میں جنرل ضیاء الحق کے سائے تلے غیر سیاسی جماعتوں کے تحت الیکشن ہوئے جو پارٹی بنیاد پر نہ ہوئے اور متحدہ اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باعث نسبتاً شفاف تھے، تاہم جنرل ضیاء الحق اور بعد ازاں جنرل پرویز مشرف کے اپنی صدارت کے لئے کرائے گئے ریفرنڈم بد ترین دھاندلی کا شکار تھے۔1990 کے الیکشن نواز شریف کو اقتدار میں لانے اور پیپلز پارٹی کو شکست کا باعث بنے۔ سپریم کورٹ نے ان انتخابات کو انجینئرڈ قرار دیا اور ذمہ داروںکے خلاف کارروائی کرنے کی سفارش بھی کی، اس کے بعد 1993 میں الیکشن جنرل وحید کاکڑ کی نگرانی میں کرائے گئے اور 3 فروری 1997 کے انتخابات میں جنرل کرامت جہانگیر کی مشاورت سے ہوئے ۔نواز شریف اور بعد ازاں بے نظیر بھٹو نے نتائج پر تحفظات ظاہر کئے، کیونکہ فروری 1997 کے انتخابات میں صدر فاروق لغاری ، سید سجاد علی شاہ (چیف جسٹس پاکستان) اور جنرل کرامت جہانگیر کا ٹرائیکا بہت ہی مشہور تھا۔
2002کے انتخابات کے نتائج بھی مبینہ طور پر بدلے گئے۔ 18 فروری 2008 کے انتخابات پاکستان کی انتخابی تاریخ کے مثالی تھے اور انتخابات کی شفافیت میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابات کو غیر جانبدارانہ کرانے میں تمام سٹیک ہولڈرز کو انتخابی نتائج کا مشاہدہ کرانے کے لئے رسائی دی اور جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ان انتخابات پر گہری نظر رکھی ہوئی تھی اور صدر بش نے بھی خصوصی نگران سیل امریکی سفیر اینی پیٹرسن کے ذریعے بنائے ہوئے تھے! اور اس کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے بلا وجہ الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔ 2013 کے انتخابات پر تحریک انصاف نے بدترین دھاندلی کے الزامات لگا کر ملک گیر تحریک چلائی اور 11 مئی 2013 کے انتخابات میں بین الاقوامی مداخلت کے منظر بھی دیکھنے میں آئے، مڈل ایسٹ کے بعض ممالک، یورپی یونین اور بھارت نے بعض سیاسی پارٹیوں کے ساتھ روابط رکھے ہوئے تھے اور عالمی مبصرین نے بھی عالمی ضابطہ اخلاق کے بر عکس ہی اپنی کارکردگی دکھائی اور 11 مئی 2013 کے انتخابات پر ہر سیاسی پارٹی نے دھاندلی زدہ قرار دیا اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور نگران حکومت نے بادی النظر میں معاونت بھی کی، غیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ 11 مئی 2013 کے الیکشن میں یقینا دھاندلی ہوئی اور ہر امید وار نے منظم دھاندلی کی، امیدواروں کا جہاں زور چلا انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ریٹرننگ آفیسرنے اپنی اپنی پسندکی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو کامیاب کرانے میں بڑی تعداد میں بیلٹ پیپرز الیکشن کمیشن آف پاکستان کی منظوری کے بغیر پرنٹ کرائے اور پنجاب کے 93 ریٹرننگ آفیسران نے الیکشن سے ایک دن پہلے ہی تمام پولنگ سٹیشن بھی تبدیل کر دیئے جو ان کے اختیارات میں نہیں تھا اور الیکشن کمیشن کی اندرونی مشینری نے نہایت ہی لاپروائی کا مظاہر کیا۔
انتخابات کی شفافیت اور مستند حیثیت کے لئے انتخابی اصلاحات ممدو معاون ثابت ہوں گی تاہم ان میں اصلاح کی مزید گنجائش ہے، معاملہ پارلیمنٹ میں جائے گا تو ارکان پارلیمنٹ غور و خوض کریں گے ممکنہ حد تک یقینااصلاح کریں گے۔ انتخابی اصلاحات کے لئے معروضی حالات کے ساتھ ساتھ ماضی سے سیکھنے اور مستقبل کی ضروریات کو مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے، انتخابی سسٹم کی روح آئین کے آرٹیکل 62-63 کو مزید موثر بنانے کے لئے تاحال سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے نہیں ہو سکا، اس عدم اتفاق پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے، آئین میں یہ آرٹیکلز موجود ہونے کے باوجود ان کو معطل کر کے رکھ دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ارکان پارلیمنٹ ایک دوسرے پر آوازیں کستے ہیں۔اوورسیز پاکستانیوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے، جدید دور میں اتنی بھاری تعداد میں پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ بائیومیٹرک سسٹم جو اتنا مہنگا نہیں ہے اس کو استعمال میں نہ لانا انتخابی عمل میں غیر شفافیت کا راستہ کھلا رکھنے کے مترادف ہے۔ الیکشن ٹربیونلز کو مقررہ وقت میں فیصلوں کا سختی سے پابند بنایا جائے اور کامیاب امیدوار اگر اس کے لئے حکم امتناعی حاصل کرے تو اس کی رکنیت کو معطل کر کے الیکشن ٹربیونلز کے فیصلے سے منسلک کر دیا جائے اور اس کی موجودہ قوانین میں گنجائش موجود ہے،صرف قوت ارادی کی ضرورت ہے۔
رجسٹرڈ پارٹیوں کی تعداد 386 کے قریب ہے، اس کے باوجود آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لیتے ہیں، 11 مئی 2013 کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) ایک کروڑ 48 لاکھ، تحریک انصاف 75 لاکھ اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین نے 68 لاکھ ووٹ حاصل کئے، اس کے بعد آزاد امیدوار کبھی انفرادی اور کبھی گروپ بنا کر مفادات حاصل کرتے ہیں، انتخابی اصلاحات میں قانون سازی کی جائے کہ آزاد امیدوار جو غیر جانبدار عوام کے آزاد ووٹ حاصل کر کے اسمبلی میں پہنچتا ہے اس کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے مفادات کی پارٹی میں شمولیت اختیار کرے اگر آزاد امیدوار کسی پارٹی میں شمولیت اختیار کرتا ہے تو اس کو اپنی نشست سے محروم ہونا پڑے گا۔ 
جزوی متناسب نمائندگی کا طریقہ اپنانا چاہئے اس سے ہارنے والی پارٹی کے ووٹ ضائع نہیں ہوں گے، مثلاً ایک پارٹی کا امیدوار 70 ہزار ووٹ لیکر 75 ہزار والے سے ہار جاتا ہے تو 70 ہزار افراد کی نمائندگی سوالیہ نشان بن جاتی ہے، سر دست جزوی متناسب نمائندگی کا موقع ملے گا! ووٹر کی تعلیمی اہلیت ارکان پارلیمنٹ کے لئے ضروری ہے جس رکن نے پانچ سال میں اپنی رائے اور اپنے حلقے کے عوام کے مفاد میں کوئی تحریک پیش نہیں کی تو ایسے نا خلف ارکان کو آئندہ ٹکٹ دینے پر پابندی عائد کی جائے کیونکہ ایسے ارکان سے قانون سازی کی توقع عبث ہے۔ اسی طرح علاقے کی ترقی کے لئے فنڈز کی روایت ختم کی جائے، ارکان پارلیمنٹ کا کام صرف قانون سازی ہوتا ہے، دنیا کے کسی جمہوری ممالک میں یہ بدعت نہیں ہے لہٰذا بلدیاتی نمائندے منصوبے پیش کریںجن کی تکمیل کی نگرانی ارکان اسمبلی ضرور نگرانی کریں۔ انتخابی اصلاحاتی کمیٹی اپنے مجوزہ بل کو قومی اسمبلی میں پیش کرنے سے پیشتر سیاسی پارٹیوں سے تجاویز طلب کرے جس سے مزید اصلاحاتی مشن آگے بڑھے گا، موجودہ انتخابی صلاحات ترامیم کے زمرے میں آتی ہیں، اصلاحات سے اس کا تعلق نظر نہیں آرہا اور مجوزہ بل سے آئیندہ انتخابات میںشفافیت کے بجائے انارکی، انتشار اور پولنگ سٹیشنوں پر قبضہ اور پولنگ کے عملے کو ہراساں کرنے اور ترغیب کی راہ نکلے گی ۔ ان ہی تحفظات کے پیش نظر نیشنل ڈیموکریٹک فاؤنڈیشن نے انتخابی اصلاحات کو موثر بنانے اور انتخابات میں شفافیت لانے کے لئے اپنی تجاویز اسحاق ڈار ، زاہد حامد، سپیکر قومی اسمبلی، چیئر مین سینیٹ ، چیف الیکشن کمشنر ، متحدہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ، اعتزاز احسن، عمران خان، چاروں صوبائی وزراء اعلیٰ ، صدر مملکت ، وزیر اعظم پاکستان، چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف کو بھجوا دی ہیں اور خوش آئند پہلو یہ ہے کہ نیشنل ڈیموکریٹک فاؤنڈیشن کی تجاویز پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔ بھارتی ایوان زیر یں کے 542 ارکان میں سے ستر فیصد سے زائد ارکان جرائم پیشہ ہیں، ہماری وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان چاہے بہت زیادہ ذہین اور قابل نہ ہوں تاہم وہ یقینا بھارتی پارلیمنٹ کے اراکین سے بطور ارکان پارلیمنٹ بہت بہتر ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں