"KDC" (space) message & send to 7575

فاٹا کا سیاسی مستقبل اور نئے خدشات

وفاق کے زیر انتظام ملک کے شمال مغربی قبائلی علاقوں کو جو عام طور پر فاٹا کہلاتے ہیں اس کو قومی دھارے میں لانے کے راہ میں رکاوٹ پاکستان کے قیام کے بعد ہی شروع ہو گئی تھی اور بے یقینی اور ابہام کی کیفیت برقرار رکھی گئی۔ فاٹا کے عوام کی امنگوں کے مطابق انہیں قومی دھارے میں لانے کے لئے مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم کی جانے والی فاٹا اصلاحات کمیٹی کی رپورٹ کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے، وزیر اعظم نواز شریف کو صوبہ خیبر پختون خوا کے رہنمائوں نے یہ باور کرایا ہے کہ اگر فاٹا کو صوبہ خیبر پختون خواہ میں مدغم کر دیا گیا تو اس کا فائدہ تحریک انصاف اور اے این پی کو پہنچے گا اور صوبہ خیبر پختون خوا پنجاب کے بعد دوسرا بڑا سیاسی قوت رکھنے والا صوبہ بن جائے گا اور وزیر اعظم کی پنجاب پر گرفت کمزور ہو جائے گی، اگر سیاسی تبدیلیوں اور پاناما لیکس کے نتائج میں وزیر اعظم نواز شریف کی سیاسی پوزیشن کمزور پڑتی ہے تو عمران خان صوبہ خیبر پختون خوامیں اپنی سیاسی، انتخابی پوزیشن مضبوط کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سب سے بڑے حریف بن کر سامنے آئیں گے اور اسی خطرے کی وجہ سے فاٹا کے انضمام کا معاملہ وفاقی کابینہ کے ایجنڈے سے نکال دیا گیا ہے، عملاً صورت حال یہ ہے کہ فاٹا کے ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت فاٹا کو صوبہ خیبر پختون خوا میں ضم کرنے کے حق میں ہیں جس سے بادی النظر میں پاکستان مسلم لیگ (ن) ، پاکستان مسلم لیگ (ق)، تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور قومی وطن پارٹی بھی اس حق میں ہیں جب کہ مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی اس کے خلاف ہیں اور ریفرنڈم کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دوسری رائے یہ ہے کہ فاٹا کو آزاد حیثیت دینے کی راہ ہموار کی جارہی ہے اور مولانا فضل الرحمن اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان سیاسی مفاہمت ہو چکی ہے اور وزیر اعظم نے مولانا فضل الرحمن کو فاٹا کے معاملہ میں آگے کر دیا ہے، کیونکہ مولانا فضل الرحمن نے ہی نواز شریف کو خوف زدہ کر رکھا ہے کہ فاٹا کو صوبہ خیبر پختون خواہ میں ضم کرنے سے نواز شریف وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور عمران خان ان کو روندتا ہوا آگے نکل جائے گا۔
فاٹا کے عوام کو ان کا حق قائد اعظم محمد علی جناح کے اس فرمان کے مطابق دیا جائے جس میں قائد اعظم نے 1948 کے اوائل میں فاٹا کا دورہ کرتے ہوئے قبائلی عمائدین سے وعدہ کیا تھا کہ پاکستان کی وفاقی حکومت ان کے معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی اور وہ اپنے فیصلے کرنے میں خود مختار اور آزاد ہوں گے ، قائد اعظم کے اس ارشادات کی روح کے مطابق فاٹا کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور عوام کی اصل رائے جاننے کے لئے ریفرنڈم کے انعقاد پر بھی غور کیا جا سکتا ہے، کوئی بڑی دشواری حائل نہ ہو تویہ قدم اٹھانے میں تاخیر نہیں کی جانی چاہئے اور پھر حقیقی عوامی خواہشات کے مطابق فیصلے کئے جانے اور فاٹا کو ہر لحاظ سے ملک کے باقی حصو ں کے مساوی لانے کے لئے تمام ممکنہ تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں تاکہ سات دھائیوں سے محرومی کا شکار رہنے والے لوگوں کو کم از کم اب تو اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کی سہولتیں میسر آ سکیں، شمال مغربی قبائلی علاقوں کا جغرافیائی طور پر جائزہ لیا جائے تو یہ پاکستان کا انتہائی خوبصورت زرخیز اور معدنی دولت سے مالا مال ہے اور فروٹ، سبزی، خشک میوہ جات اور سیاحت کے ذریعے یہ اپنے علاقے کی ترقیاتی منصوبے کے لئے وسائل خود حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
پاکستان کے چاروں صوبوں میں دہشت گردی کی مختلف اور متعدد کارروائیوں میں جب اس بات کے مصدقہ شواہد ملتے ہیں کہ ان خود کش دھماکوں میں افغان آلہ کار بنتے ہیں اور ایسی مذموم کارروائیوں کے لئے بھارت ان کی سرزمین استعمال کر رہا ہے تو ان حالات میں فاٹا کے نظام حکومت میں تبدیلی لانے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانے چاہئے ان حالات میں فاٹا میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کرائے جائیں اور اس مقصد کے لئے فاٹا لوکل گورنمنٹ ریگولیشن 2002 میں ضروری ترامیم کے بعد بلدیاتی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے اور لوکل سسٹم کو جمہوری ، موثر اور نمائندگی کا حامل بنایا جائے، پولیٹکل انتظامیہ بلدیاتی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کے سامنے جواب دہ ہوں ، پاکستان کے باقی حصوں کی طرح فاٹا میں بھی خواتین کے لئے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں نشستیں مخصوص کی جائیں۔ فاٹا کے عوام کے بنیادی حقوق تسلیم کرنے کے لئے فرنٹیر کرائمز ریگولیشن میں خاطر خواہ ترامیم کی جائیں یا پھر اسے منسوخ کیا جائے، ملک کے دوسرے حصوں کی طرح یہاں بھی عدلیہ اور انتظامیہ کو علیحدہ کیا جائے، سپریم کورٹ آف پاکستان اور ہائی کورٹ کے دائرہ عمل کو فاٹا تک توسیع دی جائے، سول مسلح اداروں ، جیسا کہ خاصہ دار اور لیویز کو مضبوط و منظم کیا جائے اور انہیں بہتر طور پر مسلح کیا جائے تاکہ افغانستان سے درآمد ہونے والے تخریب کاروں کا یہی فورسز مقابلہ کریں، پورے فاٹا میں نچلی سطح تک تعلیم کے فروغ کی انتہائی ضرورت ہے، جب کہ فاٹا کے مقامی ہنر مندوں کی حوصلہ افزائی کی جائے، فاٹا میں مرد و خواتین کے لئے الگ الگ یونیورسٹیاں ، کالج اور تکنیکی تعلیم کے اداروں کا قیام ترجیحی بنیادوں پر عمل میں لایا جائے۔ کسی بھی فرد کو خواہ مرد ہو یا عورت ، مناسب معاوضے کے بغیر اس کی جائیداد سے محروم نہ کیا جائے اور فاٹا میں بھی قانون وراثت لاگو کیا جائے۔ فاٹا میں ہسپتالوں میں جدید سازو سامان سے لیس ٹراؤما سینٹر بھی ہونے چاہئیں، خواتین اور بچوں کے ہسپتال بھی قائم کئے جانے چاہئیں تاکہ خواتین اور بچوں کی شرح اموات کو کم کیا جا سکے، قدرتی اور مقامی وسائل کو استعمال میں لا کر ایک جامع ترقیاتی پیکیج کا آغاز کیا جائے جس کی مدد سے فاٹا کے عوام خوشحال ہو سکیں اور روز گار کے مواقع ملیں! اگر وفاقی حکومت فاٹا میں کم سے کم پانچ لاکھ افرد کو باعزت روزگار کے مواقع فراہم کر دیں تو اس علاقے سے تخریب کاری ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی، وفاقی حکومت اپنے تعمیری منصوبوں کو لاہور سے فاٹا کی طرف منتقل کریں، آخر میں تجویز ہے کہ پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس اور پیمرا آرڈیننس کو فاٹا تک توسیع دی جائے۔ راقم الحروف نے ان ہی تجاویز پر مشتمل ایک جامع سفارشات 2009 میں صدر آصف علی زرداری کو پیش کی تھیںاور صدر آصف علی زرداری نے اپنے سیکرٹری جنرل سلمان فاروقی کی موجودگی میں اس رپورٹ پر جامع کارروائی کے لئے گورنر سرحد کو بھجوانے کا وعدہ کیا تھا۔ فاٹا اعلامیہ کی جامع حکمت عملی کے لئے نیشنل ڈیموکریٹک فاؤنڈیشن سیاسی جماعتوں کے اشتراک سے ایک قومی راؤنڈ ٹیبل کانفرنس مارچ کے آخری ہفتے منعقد کر رہی ہے۔
فاٹا سے پورے ملک کا مفاد وابستہ ہے، لہٰذا موٹر وے کی طرز پر روڈ نیٹ ورک بنایا جائے، تعلیم و صحت اور سپورٹس کی سہولتیں دی جائیں اور قومی کرکٹ کے لئے یہاں کے قد آور نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور کرکٹ بورڈ کو موجودہ سربراہوںسے نجات دلائی جائے اور انہی علاقوں سے ہاکی اور فٹ بال کی بہترین ٹیمیں تیار کی جائیں اور سی پیک کا حصہ بناتے ہوئے صنعتی زون بنائے جائیں، تخریب کاری کی نرسری کے ازالے کے لئے نوجوانوں کو پورے پاکستان میں روز گار کے دروازے کھول دیں، اگر وزیر اعظم نواز شریف نے صرف سیاسی جماعت اور اتحادیوں کے مفاد کو مد نظر رکھا تو ایک نیا سیاسی ایشو کھڑا ہو جائے گا جو پاناما لیکس سے بھی زیادہ خطرے کا بم ثابت ہوگا۔
دنیاسے اگر دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے تو افغانستان میں موجود دہشت گرد ی کے نیٹ ورک کا خاتمہ ضروری ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہے کہ افغانستان میں موجود امریکہ اور نیٹو ممالک کی افواج ان دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے نہ صرف افغانستان کے امن کو تباہ کیا ہوا ہے بلکہ اب پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے تانے بانے بھی انہیں دہشت گرد گروپوں سے جا کرملتے ہیں ۔ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور کی ضرب المثل امریکہ نیٹو اور افغانستان پر بالکل درست لگتی ہے کیونکہ خطے میں امریکی اور یورپی مفادات کے تحفظ کے لئے یہ ممالک وہ کردار ادا نہیں کر رہے جو انہیں کر نا چاہیے ۔ پوری دنیا میں پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف دہشت گرد اور انتہا پسند ہونے کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے لیکن جب کارروائی کا وقت آتا ہے تو مفادات آڑے آ جاتے ہیں ۔ امریکہ نیٹو اور خطے میں موجود دیگر ممالک کو اپنے مفادات کو پس پشت ڈال کر افغانستان میں موجود دہشت گردی کے نیٹ ورکس پر بے رحم کارروائی کرنا ہوگی اور مفادات کی خاطر اپنائی جانے والی دو غلی پالیسی کو خیر باد کہنا ہو گا بصورت دیگر دہشت گردی پر مکمل قابو پانا ممکن نہیں ۔ 
پانامہ پیپرز کیس کے حوالے سے بعض ریٹائرڈ ججز حضرات یہ تاثرات دے رہے ہیں کہ عدالت کمیشن کی تحقیقات کی بنیاد پر کسی کو مجرم قرار نہیں دے سکتی، اگر عدالت اس نتیجہ پر پہنچتی ہے کہ کچھ مسائل ہیں تو اسے چیف الیکشن کمشنر کے پاس بھیج سکتے ہیں کہ وزیر اعظم کے حوالہ سے کچھ فیصلہ کریں! ان کی یہ منطق قانون کے حقائق کے برعکس ہے، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات کو عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کے در پردہ محدود کر دیئے گئے تھے اور مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے 1977ء کے الیکشن کے انعقاد سے پہلے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو وزیر اعظم سیکرٹریٹ سے منسلک کر دیا تھا اور جو ایکٹ اسی وقت کی پارلیمنٹ نے 1976ء میں بنایا تھا اس کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنے معاملات کی تفتیش کرنے سے عاجز ہے ،عدالت کو آئین کے آرٹیکل 183(3) کے تحت عوامی مفاد کے معاملات میں دائر اختیار سے تجاوز کر سکتی ہے، پاناما کیس کے ساتھ ساتھ ڈان گیٹ کیس بڑی اہمیت کا حامل ہے اور اس کی انکوائری کے نتائج بھی وفاقی حکومت نے قوم کے سامنے پیش نہیں کئے ! اسی طرح ملک بھر میں شروع ہونے والی مردم شماری میں افغانی باشندوں کو شمار کرنے کے اعلان کے بعد بلوچستان کی پشتون سیاسی جماعتیں افغان باشندوں کو مردم شماری میں شمار کرنے کے حق میں آواز بلند کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ اس صورت حال میں بلوچستان کی سیاسی جماعتوں اور عوام میں پائی جانے والی بے چینی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور مردم شماری اس وقت بلوچستان اور سندھ کے حوالے سے آتش فشاں کے دہانے پر کھڑے نظر آ رہے ہیں ۔
توقع ہے کہ فاٹا کے حوالے سے محولہ بالا تجاویز پیش کی گئی ہیں حکومت اور اپوزیشن ان پر وسیع تر قومی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے غور کریں گی۔ فاٹا کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔ اس کے جغرافیائی محل وقوع کا تقاضا ہے کہ اسے آئین و جمہوریت کے دائرے میں لانے کے لیے سیاست سے بالا تر ہو کر سوچا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں