"KDC" (space) message & send to 7575

نتائج کچھ بھی آئیں

دہشت گردی کی نئی لہر کے دوران ملک کے مختلف حصوںمیں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا جس سے عوام شدید مضطرب ہوئے۔ ان حالات میں ملک کے مقتدر حلقوں میں نئی سوچ ابھر کر سامنے آ رہی ہے۔ دوسری جانب پاناما پیپرز کیس کی وجہ سے حکومت کمزور ہو رہی ہے۔ دہشت گردی کی پے در پے سنگین وارداتوں نے قوم میں بد دلی اور مایوسی پیدا کر دی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف عسکری قیادت اپنے تمام ذرائع استعمال کر رہی ہے اور پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈے کے ازالے کے لئے پوری نیت نیتی سے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے بعض غیر ملکی سرویز کے نتائج کی تشہیر کی جا رہی ہے۔ عوام کو ریلیف ملنے کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آ رہا، لیکن میڈیا میں حکومتی پروپیگنڈے کی یلغار آئے دن بڑھ رہی ہے۔ اس کے باوجود عوام کے ذہنوں میں منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ 
حکومتی ترجمان جس انداز میں اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، ان کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی آئین کے آرٹیکل 63(2) کے تحت کارروائی کرنے کا مجاز ہے۔ حکومت میں شامل سیاستدانوں اور ان کے ورکروںکے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف بھرپور ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ 
میڈیا میں 11مئی 2013ء کے انتخابات میں ریٹرننگ آفیسرزکے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ یر غمال بنا لیے گئے تھے اور چند با اثر شخصیات نے مبینہ بیرونی دباؤ پر مسلم لیگ ن کو 11 مئی کی شب کامیاب کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ شام چھ بجے
سے رات گیارہ بجے کے دوران الیکشن نتائج نواز لیگ کی امیدوں کے برعکس آنے شروع ہوئے تو خصوصی حکمت عملی کے تحت موجودہ حکومت کو مینڈیٹ دلوا دیا گیا۔ یہ ایک پر اسرار واردات ہے۔ راقم نے 3 مارچ 2013ء کو ہی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں قوم کو خبر دار کر دیا تھا کہ 11 مئی 2013ء کے انتخابات کا میچ فکس ہو چکا ہے۔ میرے کالم اور الیکٹرانک میڈیا کا ریکارڈ میرے پاس موجود ہے، میں نے 3 مارچ 2013ء کو اپنے خطوط سے مطلع کر دیا تھا کہ ایک خفیہ گٹھ جوڑ سے ایک سیاسی قوت کو اقتدار میں لانے کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ عمران خان اپنے دوستوں کی ریشہ دوانیوں سے بے خبر رہے، لیکن اب آہستہ آہستہ حقائق سے پردہ سرک رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک ادارے سے بحیثیت ڈائریکٹر سبکدوش ہونے والی شخصیت سے صرف اتنی وضاحت طلب کر لی جائے کہ الیکشن نتائج حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اعلی مہارت کی جو ٹیم تیار کرنے کے لئے تقریباً چالیس کروڑ روپے خرچ کئے تھے، ان کا انفارمیشن ٹیکنالوجی سسٹم رات 11 بجے ناکارہ کیسے ہو گیا؟ یو این ڈی پی کے سابق سربراہ نے اپنی سبکدوشی سے پیشتر پاکستان کی گورننس کے بارے میں حقائق سے پردہ اٹھا دیا تھا لیکن یورپی ممالک ایسی غیر سرکاری تنظیموں کو فنڈنگ جاری کر رہی ہے، جس سے جعلی سروے کروانے کا کام لیا جا رہا ہے۔ یہ تنظیمیں پاکستان کی سکیورٹی ایکسچینج کمیشن میں بھی رجسٹرڈ نہیں ہیں۔
بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر عالمی استعمار اس کو غیر مستحکم کر کے اسے پاکستان سے علیحدہ کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ، بھارت اور مڈل ایسٹ کے بعض ممالک اس مقصد کے لئے افغانستان کی سر زمین پر بیٹھ کر سازش کر رہے ہیں۔ امریکہ ، بھارت، اسرائیل اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیاں اور کسی حد تک ایران کی خفیہ ایجنسیاں بھی اسی وجہ سے بلوچستان میں متحرک ہیں۔ ان ممالک کی خفیہ ایجنسیاں تین مختلف طریقوں سے بلوچستان میں تخریب کاری کروا رہی ہیں۔ بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کے اہل کار براہ راست ملوث ہیں۔ 'را‘ کا ایجنٹ کلبھوشن یادو ہو، الطاف حسین ہو،کوئی امریکی جاسوس ہو یا افغان خفیہ ایجنسی کے اہل کار ہوں، یہ پاکستان آتے ہیں، بلوچستان پہنچتے ہیں اور وہاں کے گمراہ نوجوانوں کو ڈالروں کے عوض خریدتے ہیں اور ان کے ذریعے بلوچستان میں مکروہ کارروائیاں کرتے ہیں۔
اعلیٰ حکام کو احساس ہونا چاہیے کہ بلوچستان پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ اور کل رقبے کا 44 فیصد ہے۔ بلوچستان کی سرحد کا ایک حصہ ایران سے متصل ہے۔ اس کے اضلاع گوادر، تربت، ہنگو، چاغی اور مکران کے علاقوں میں زندگی کا زیادہ دار و مدار ایرانی بارڈر سے آنے والی اشیا پر ہے۔ یہاں ایرانی منڈیوں سے غذائی اجناس آتی ہیں۔ دوسری طرف بلوچستان کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔ ژوب، قلعہ عبداللہ، پشین، نوشکی اور چاغی کے اضلاع افغانستان سے متصل ہیں۔ ان علاقے میں رہنے والے بآسانی سرحد کے اس پار افغانستان جا سکتے ہیں اور افغانی اس طرف آسکتے ہیں۔ 
امریکہ نے خلیج عدن تک اپنا راستہ بنا لیا ہے اور فلسطین پر قبضہ کر کے اسرائیل کو آباد کر چکا ہے۔ اسرائیل کے راستے خلیج عدن کے سمندر پر بھی قابض ہو چکا ہے۔ پھر یہاں سے یہ بحیرہ عرب تک اپنا راستہ ہموار کر چکا ہے۔ امریکہ اسی حکمت عملی کے تحت چین اور روس کی ناکہ بندی کرنے، پاک چین اقتصادی راہداری کو پامال کرنے اور گوادر کی بندرگاہ کو اپنے کنٹرول میں کرنے کے لئے مڈل ایسٹ کے بعض نادان دوست ممالک اور بھارت کے ساتھ مل کر یہاں ایک آزاد مملکت بنانے کے لئے کوشاں ہے۔ ادھر پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا ڈھانچہ میگا کرپشن اور کھربوں روپے کے قرضہ جات حاصل کرنے کے باعث زمین بوس ہو چکا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف پاناما پیپرز کے معاملات میں اپنی حکومت کی ساکھ کھو بیٹھے ہیں اور سازشوں کا جال پھیل چکا ہے۔پاکستان میں صف اول کی قیادت کا فقدان ہے۔ جان کیری لوگر بل کے تحت کھربوں روپے تقسیم ہو چکے ہیں، اداروں کو کمزور کرنے کے لئے سول سوسائٹیوں کو اربوں روپے غیرممالک سے براہ راست فنڈنگ ہو رہی ہے۔ ماضی کے حکمران میڈیا میں زندہ رہنے کے لئے اپنے فرسودہ خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ان کی عوام میں جڑیں نہیں ہیں۔ ملک میں انتشار اور انارکی سر اٹھا رہی ہے۔ مردم شماری کے ذریعے عوام کو تقسیم کیا جا رہا ہے۔ خدشہ ہے کہ اس کے اعداد شمار میں اسی انداز میں ہیرا پھیری ہوگی جس طرح 2013ء کے انتخابات میں ریٹرننگ آفیسرز نے کی تھی۔ پاناما پیپرز کیس کا فیصلہ آنے تک حکومت کی گرفت مزید کمزور ہو جائے گی۔ ان حالات سے امریکہ، بھارت، افغانستان فائدہ حاصل کرنے اور چین کے گرد حصار کھڑاکرنے کے لئے ملک میں خون ریزی کرانے سے باز نہیں آئیں گے۔ صدر ٹرمپ نے شام، یمن اور عراق کے گرد چھ اسلامی ریاستوںکو تقسیم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، اس کے اثرات اس خطے پر بھی پڑنے کا اندیشہ ہے۔ ان حالات میں پاکستان کی سیاسی قیادتوں کو یک جا ہو کر وزیر اعظم نواز شریف سے اسمبلیوں کی تحلیل کرانے اور ازسر نو عوام کا مینڈیٹ حاصل کرنے کے لئے مشترکہ کوشش کرنی چاہیے کیونکہ پاناما پیپرز کیس خواہ اس کے نتائج کچھ بھی سامنے آئیں، جمہوریت اور حکومت کو زک پہلے ہی پہنچ چکی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں