"KDC" (space) message & send to 7575

اگر مزاحمت ہوئی …

قارون، ہامان، اور شداد کو اللہ تعالیٰ نے بہت سرمایہ دیا تھا، اللہ نے قارون کا واقعہ سورۃ ا لقصص کی آیت نمبر 76 سے 83 میں اس طرح بیان فرمایا ہے،''قارون، موسیٰؑ کی قوم میں سے تھا، پھر وہ ان پر زیادتی کرنے لگا اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دیئے تھے کہ ان کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت کو اٹھانا مشکل ہوتیں۔ اللہ تعالیٰ نے غرور و تکبر اور ظلم کے سبب قارون کو مع خزانے کے زمین میں دھنسا دیا‘‘ پاکستان کی مظلوم اور پسماندہ قوم سمجھتی ہے کہ عمران خان ہی پاناما کیس کے اصل محرک ہیں ۔ فرسودہ نظام کی وجہ سے ثبوت فراہم نہ کرنے کا فائدہ حکمران اور ان کی فیملی کے دولت مند افرد اٹھاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاناما کیس نے نواز لیگ کی ساکھ کو خاصا نقصان پہنچا یاہے۔وزیراعظم نوازشریف کے صاحبزادگان کے انٹرویوز نے بھی فیملی کی مشکلات میں اضافہ کیا۔ وز یر اعظم کے صادق اور امین ہونے کے معیار کو مجروح کر دیا ۔ وزیر اعظم کی اہلیت کا فیصلہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بینچ نے کرنا ہے جو اس سے پیشتر سید یوسف رضا گیلانی کی نا اہلیت کے کیس کی سماعت کرنے والے بنچ کا حصہ رہے۔ انہوں نے قرآن و حدیث کے حوالوں سے تاریخی فیصلہ میںاپنے ریمارکس میں یہ ثابت کر دیا تھا کہ یوسف رضا گیلانی صادق اور امین کے معیار پر پورے نہیں اترے۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں فلسفی خلیل جبران کے حوالے بھی دیئے تھے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے مستقبل کے الیکشن کے لئے ریٹرننگ افسران کے لئے جو رہنما اصول دیئے تھے، بدقسمتی سے جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم کے کمیشن نے اس پر عمل نہیں کیا ۔جبکہ راقم نے چیف الیکشن کمشنر کو ریفرنس بھیجا تھا کہ جسٹس آصف کھوسہ کے تاریخی فیصلے کے اس حصے کو الیکشن کمیشن اپنا کر اسی انداز سے ریٹرننگ آفیسران کی تربیت کا بندوبست کرائیں، لیکن بد قسمتی سے وہ اور ان کی الیکشن مشینری یو این ڈی پی کے سحر میں مبتلا ہو کر غیر ملکی تجربات سے استفادہ حاصل کرتے رہے‘ اسی طرح سابق چیف جسٹس اپنی ریٹائرمنٹ سے 25 دن پیشتر ہی بینچ کی سربراہی سے پراسرار انداز میں علیحدہ ہوگئے۔ محترم چیف جسٹس ثاقب نثار نے قومی مفاد میں جناب جسٹس آصف سلیم کھوسہ کی سربراہی میں بینچ تشکیل دے دیا۔ اب قوم ان کے فیصلے کا شدت سے انتظار کر رہی ہے ۔ پاناما کیس کا فیصلہ نواز فیملی کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے، اس کیس کے قانونی اور اخلاقی پہلو ہیں، اس کیس کا فیصلہ پاکستان کے مستقبل کے سیاسی نقشے کو ہی بدل کر رکھ دے گا۔
ہماری جمہوریت کی کمزوری بلکہ مفلوج ہونے کے اصل اسباب میں بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت مفقود ہے۔ تمام سیاسی امور میں پارٹی رہنما کی زبان سے ادا ہونے والے لفظ کو حرف آخر کی حیثیت حاصل ہے۔جماعتی انتخابات کے دوران ہر سطح اور ہر مرحلہ پر نامزدگیاںکی جاتی ہیں۔ پارٹی کے سربراہوں کا ارکان اور ورکرز کا عوام سے کوئی رابطہ ہی نہیں ہوتا۔ عوامی خدمت یا عوام میں مقبولیت تو اب سراب کی مانند ہے۔
اخلاقی بحران کے حوالے سے صدر مملکت نے درست نشاندہی کی ہے کہ ''ہماری قوم کو حرام خوری کی عادت پڑ گئی ہے‘‘ افسوس تو یہ ہے کہ اس حقیقت کو سبھی جانتے ہیں۔ مگر اسے بدلنے پر کوئی آمادہ نہیں۔ حالانکہ ہمارے تمام مسائل کی جڑ ہمارا یہی اخلاقی بحران ہے۔ صدر مملکت نے شکوہ کیا کہ پانی و بجلی کے حکام کو انہوں نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے کرپٹ سربراہوں کو تبدیل کرنے کے لئے کہا تھا مگر ان کی تجویز پر عمل نہیں کیا گیا۔دراصل قانون نافذ کرنے والی مشینری کے ذمہ دار ضمیر فروش، خائن اور بد دیانت ہیں ‘جبکہ ہمارے ارکان پارلیمنٹ خواہ اُن کا تعلق اپوزیشن سے ہو یا حکمران جماعت سے۔ صادق اور امین کے دائرے سے باہر نکل چکے ہیں۔ عشروں سے ریاستی اختیارات اور مناصب
پربالعموم وہ طبقات قابض چلے آ رہے ہیں جن کے نزدیک کرپشن سے نفرت اور اخلاقی اقدار کی سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں بلکہ دنیاکی دولت اور لا محدود عیش و عشرت کی زندگی ہی ان کا مطلوب و مقصود ہے۔ قوم اور ملک کے مفادات ذاتی اور خاندانی مفادات کی بھینٹ چڑھانا‘ اس طبقے کے بیشتر افرادکے ضمیر پر بوجھ نہیں بنتا۔ قومی وسائل کو لوٹ کر ٹیکس چوری اور کمیشن خوری کے طریقے اپنا کر بیرون ملک بیلنس اور جائیدادیںبنانے والے اگر کبھی اتفاقاً پاناما پیپرز کی گرفت میں آ جائیں تو اپنے ناجائز اقدامات کو جائز ثابت کرنے کے لیے قانونی جنگ لڑنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ اپنی تقریروں کا بھی نیا روپ دکھانے کے لئے طاقتور میڈیا کی خدمات حاصل کر لیتے ہیں۔ مہنگی فیسوں والے وکلاء کے ذریعے قانون و انصاف کا رخ پھیرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں، اب پاناما پیپرز کے فیصلے کے بعد عوام اپنے ووٹوں سے ایماندار، فرض شناس اور مخلص افراد کو اقتدار کے ایوانوں تک لیکر جائیں، اس وقت اپوزیشن نے پاناما لیکس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں اپنے دلائل مکمل کرلئے ہیں اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کے منتظر ہیں۔ صدر ممنون حسین کے متذکرہ ارشادات حکومتی حلقوں میں ناپسندیدگی سے دیکھے جا رہے ہیں کیونکہ کرپشن کے عفریت سے صدر پاکستان سخت نالاں نظر آ
رہے ہیں۔ کرپشن کا زہر پاکستان کے ہر ادارے کی رگوں میں سرایت کر چکا ہے‘ اس ناسور کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے بے رحم آپریشن کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔ معاشرے میں کرپٹ افراد کی زیادتی نے صدر مملکت کو بھی مغموم کر دیا ہے اور بالواسطہ اور بلاواسطہ صدر مملکت پاناما پیپرز کے بحران سے بے زار ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور ایسی ہی کیفیت ستمبر 1996 ء میں صدر فاروق لغاری پر بھی طاری ہو گئی جب انہوں نے صدارتی مشیر شاہد حامد کے ذریعے بے نظیر بھٹو وزیر اعظم پاکستان کو دردمندانہ خطوط لکھے تھے اور ان کی اصلاح کرنے کی کوشش کی تھی جس کے مثبت نتائج نہ ملنے پر صدر فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو تحلیل کر دیا تھا۔ اب چونکہ صدر مملکت ایسے اختیارات سے محروم ہیں لہٰذا وہ درد مندانہ انداز میں اپنا موقف پیش کرتے رہتے ہیں۔ صدر مملکت نے اپنے خطاب میں بد عنوان افراد کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرنے میں بے بسی ظاہر کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔ پاناما لیکس کے حوالے سے اس وقت بات کی تھی جب بظاہر یہ معاملہ دب ہی چکا تھا کہ یہ پاناما لیکس اللہ کی طرف سے ہے اور خلق خدا اس میں بڑے بڑے معززین کو امتحان میں دیکھے گی۔ اب اپنے تازہ ترین ارشادات میں انہوں نے حکومت کی گورننس کا پول کھول دیا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے آنے کے بعد اگر حکومت نے مزاحمتی طریقے اختیار کئے تو آئین کے آرٹیکل 90 کے تحت کارروائی کرنے کا وقت آ جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں