"KDC" (space) message & send to 7575

مردم شماری:چند تحفظات

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے اعتراف کیا ہے کہ صدر زرداری کی حکومت کی اجازت سے انہوں نے پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے اسامہ بن لادن کی تلاش کے لئے سی آئی اے کے اہل کاروں کی پاکستان میں بڑی تعداد میں موجودگی میں مدد فراہم کی۔ ان اہل کاروں نے اسامہ بن لادن کی تلاش میں مدد کی ، اسی طرز پر اب وفاقی حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ سکیم کے تحت جو سروے کروانے کا عزم کیا ہے اور اس کے پیچھے سی آئی اے کے ہی اہل کار ایک نجی ادارے کے روپ میں ایسے ملکی سلامتی کے خلاف سروے کروانے جا رہے ہیں جس سے گھروں کی دیوار کی چوڑائی اور موٹائی اور ساخت کے بارے میں ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ وفاقی حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پرگرام کے ملک بھر میں جیو میپنگ کے ذریعے غربت سروے کا کام نجی اداروں کے سپردکر کے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ بی آئی ایس پی نے یہ فیصلہ کر کے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے، جیو میپنگ کے ذریعے کیا جانے والا قومی سماجی اقتصادی رجسٹری سروے (این ایس ای آر) ملکی سلامتی کے لئے خطرے کا موجب بن سکتا ہے، سروے کا پائلٹ پروگرام ملک کے 16 اضلاع میں شرع کیا گیا ہے، چار اضلاع میں ڈیسک سروے کیا گیا جبکہ 12 اضلاع میں گھر گھر سروے کیا جا رہا ہے اور اس کے لئے سیٹیلائٹ سے مدد لی جا رہی ہے، نجی اداروں کے ذریعے گوگل نقشوں کی مدد سے کمپیوٹر ٹیبلٹس پر ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے، پائلٹ سروے کے تمام اضلاع سی پیک روٹ پرواقع ہیں، یہ ڈیٹا ملک دشمن عناصر کے ہاتھ لگنے کا بھی خدشہ ہے، سروے کے لئے غیر ملکی ڈونرز ادارے فنڈنگ اور معانت کر رہے ہیں اور ملک کے ہر گھر کی سیٹیلائیٹ میپنگ ہو رہی ہے، سر وے کرنے کے لئے ٹیمیں گلگت پہنچ چکی ہیں۔ واضح رہے کہ گلگت اور غزر اضلاع واخان پٹی کے ساتھ ہیں جو کہ چترال ضلع میں ہے اور چین اور افغانستان کو ملاتی ہے۔ درمیان میں تھوڑا سا علاقہ تاجکستان کا ہے۔ واخان پٹی میں بے شمار درے ہیں جو کہ افغانستان کے ساتھ ملتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے بقول انہی نالوں اور دروں سے دہشتگرد پاکستان آتے ہیں، واخان پٹی سے شاہراہ ریشم کا پیدل راستہ تقریباً ایک ہفتے کا ہے اوریہاں صرف ایک کمپنی حفاظت کے لئے مامور ہے۔
یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو پاکستان کے تمام گھرانوں کی سیٹیلائٹ میپنگ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ کام غیر ملکی اور مقامی این جی اوز کو کیوں سونپا گیا؟ دیگرا ضلاع جن میں سروے کا کام عروج پر ہے ان میں مہمند ایجنسی چار سدہ (دونوں ہی انتہائی حساس ہیں) میر پور، لکی مروت، قلعہ سیف اللہ، کیج‘ لیہ، فیصل آباد، چکوال، جیکب آباد اور ٹھٹھہ شامل ہیں۔ ہری پور ، نصیر آباد، سکھر اور بہاولپور میں یہ کام پہلے ہی مکمل کیا جا چکا ہے لیکن بی آئی ایس پی نے اس ڈیٹا کو محفوظ کرنے اور کسی دوسری جگہ شیئر نہ ہونے کو یقینی بنانے کے لئے کوئی میکنیزم نہیں بنایا انہوں نے نے کہا کہ بی آئی ایس پی غیر ملکی کنسلٹنٹ، مشاورتی فرمز اور این جی اوز کی خدمت غریبوں سے زیادہ کر رہی ہے اوران کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے غیر ملکی اداروں اور این جی اوز کی مشاورت سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت ملک بھر میں گھر گھر جیو میپنگ کے ذریعے سروے کر رہی ہے، اس لئے اس سروے کے ذریعے حاصل کیا جانے والا ڈیٹا ملک دشمنوں کے ہاتھ لگنے کا قوی امکان ہے اوردشمن عناصر سٹیلائٹ نقشوں کے حامل اس ڈیٹا کو ڈرون حملوں کے لئے بھی استعمال کر سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ بی آئی ایس پی غربت سروے کے لئے شماریات ڈویژن کے ساتھ مل کر بھی سروے کر سکتا ہے حکومت کو این آ ٓئی ایس آر سروے پر نظر ثانی کرنی چاہئے، اور اس کو فوری طور پر بند کرنا چاہئے کیونکہ این ایس ای آر شکیل آفریدی کی پولیو مہم اور اسامہ بن لادن فیم کی طرز پر حساس علاقوں تک رسائی حاصل کر رہی ہے اور تمام ڈیٹا اور تمام کمپیوٹر ٹیبلٹ آئی ایس آئی کے حوالے کرنا چاہییں اور حساس اداروں کو بے نظیر انکم سپورٹ سروے کروانے کے متحرک پر گہری نظر رکھنی چاہئے، نیشنل ڈیموکریٹک فاؤنڈیشن نے صدر مملکت کو اس منصوبے کے خطرناک محرک سے آگاہ کر دیا ہے۔ 
انیس برس کے بعد ہونے والی مردم شماری کے نتائج سے پاکستان کا مستقبل ابھر کر سامنے آئے گا، جس سے نہ صرف انتظامی اور سیاسی نقشہ بدلے گا بلکہ اقتدار کے روائتی مراکز میں بھی تبدیلی آئے گی، یہی وہ خوف ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے مردم شماری کے انعقاد میں مانع تھا۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ، خواہ وہ کسی بھی نظریے سے تعلق رکھتی ہوں، شہری عوام کی نمائندہ ہو یا چھوٹے صوبوں کے مفادات کی نگہبانی کا دعویٰ کرتی ہوں، حیران کن طور پر اس اہم معاملہ سے لا تعلق تھیں یا دانستہ طور پر ان قوتوں کا ساتھ دے رہی تھیں جو ملک میں کسی قسم کی تبدیلی لانا نہیں چاہتیں، جن کا مقصد ملک پر چند سیاسی اجارہ داریوں کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی گرفت کو مضبوط رکھنا ہے۔ 
مردم شماری کا انعقاد 15 مارچ سے شروع ہونا ہے، لیکن اس بات کے اشارے مل رہے ہیں کہ ماضی کی طرح اس مردم شماری پر بھی تنازعہ کھڑا ہو سکتا ہے، حکمران جماعت کی اتحادی جماعت نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اور وفاقی وزیر برائے بندرگاہ میر حاصل بزنجو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ افغان پناہ گزینوں کی موجودگی میں ہونے والی مردم شماری ان کے لئے قابل قبول نہیں ہے لہٰذا افغان پناہ گزینوں کی واپسی تک مردم شماری موخر کی جائے، دوسری جانب بلوچستان ہائی کورٹ میں مردم شماری روکنے کے لئے ایک درخواست دائر کی جا چکی ہے جسے ہائی کورٹ نے سماعت کے لئے منظور بھی کر لیا ہے، بلوچستان کی دیگر قوم پرست تنظیموں کو بھی بلوچستان میں افغان پناہ گزینوں کی موجودگی پر تحفظات ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جب تک افغان پناہ گزین صوبے میں موجود ہیں، حقیقی مردم شماری نہیں
ہو سکتی، اس قسم کی آوازیں سندھ میں سنائی دے رہی ہیں ، متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ فاروق ستار نے بھی سندھ کے دیہی علاقوں کی آبادی کو بڑھا چڑھا کر دکھانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے! ان حالات میں یہ انتہائی ضروری ہے کہ مردم شماری کا کام نہایت احتیاط، غیر جانبداری اور خالصتاً پیشہ وارانہ بنیاد پر انجام دیا جائے۔ مردم شماری کا انعقاد ہر حال میں ضروری ہے کیونکہ گزشتہ سال اگست میں اقوام متحدہ کی نسلی امتیاز کے خاتمے سے متعلق کمیٹی ، پاکستان میں مردم شماری کروانے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ آبادی کی نسلی ترکیب اور اس کی معاشی اور معاشرتی صورت حال سے متعلق درست اعداد و شمار کی روشنی میں کمیٹی کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں مدد مل سکے۔ شماریات ڈویژن کے ایک اعلامیے کے مطابق مردم شماری میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے، اس وقت تقریباً ستر لاکھ پاکستانی بیرون ممالک میں مقیم ہیں، جن میں بڑی تعداد پنجاب، خیبر پختون خوا اور آزاد کشمیر سے تعلق رکھتی ہے، شماریات ڈویژن کا کہناہے کہ صرف ان افراد کو شمار کیا جائے جو گزشتہ چھ ماہ کے دوران ملک سے باہر گئے ہیں۔ طویل عرصے سے بیرون ملک مقیم پاکستانی اس مردم شماری میں شامل نہیں ہوں گے، اصولاً اس فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے کوئی ایسا نظام وضح کرنے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے بیرون ملک مقیم پاکستانی اور ان کے اہل خانہ بھی شمارہو سکیں ویسے بھی اخلاقی طور پر یہ مناسب نہیں کہ ہم ان کے ارسال کردہ زرمبادلہ سے فائدہ تو اٹھائیں مگر انہیں اپنا شہری شمار کرنے سے گریز کریں۔ خدشات یہی ہیں کہ سندھ حکومت مردم شماری کے نتائج کے اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کرے گی اور اسی ڈگر پر پنجاب کی بیوروکریسی کے ذریعے اعدادوشمار کے نتائج تبدیل کئے جائیں گے کیونکہ سندھ حکومت نے مردم شماری کا ڈیٹا اپنی نگرانی میں مرتب کرنے کے اختیارات حاصل کر لئے ہیں جو کہ وفاق کے قاعدے کے مطابق آئین سے انحراف ہے، لہٰذا ان خدشات کے خاتمے اور ازالے کے لئے سیاسی جماعتوں کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ عدالت عظمیٰ نے یہ بھی قرار دیا کہ مردم شماری کے بغیر 2018 کے الیکشن مذاق ہوں گے، اس ریمارکس کی رو سے اگر مردم شماری کے نتائج قومی، علاقائی سیاسی جماعتوں نے مسترد کر دیئے تو پھر الیکشن کمیشن حلقہ بندیاں کرانے سے قاصر رہے گا اور نگران حکومت کے قیام کے بعد اگر کوئی فریق سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت کیس دائر کر دیتا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کے بغیر الیکشن کا انعقاد غیر آئینی ہے تو پھر نگران حکومت کا دورانیہ نوے روز سے تجاوز ہونے کے امکانات موجود ہیں۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں