"KDC" (space) message & send to 7575

مردم شماری کے اثرات

مئی 2013 کے انتخابات میں امریکہ، یورپی یونین اور قطر سمیت بھارت کے ٹرائیکا کا بڑا عمل دخل رہا اور نگران حکومت نے موجود ہ حکمرانوں کو اقتدار تک پہنچانے کی راہ ہموار کی اور کل رجسٹرڈ ووٹوں میں سے محض دس فیصد ووٹ حاصل کر کے تیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہو گئے۔ پاکستان کی بد قسمتی یہ ہے کہ ملک میں کوئی ایسا رہنما نہیں ہے جو مدبر سیاست دان ہو اور عہد کے مسائل کا ادراک رکھتا ہو اور جو ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے پوری قوم کو ایک ساتھ لیکر آگے بڑھ سکتا ہو، خارجی اور داخلی بحرانوں کے ساتھ ساتھ قوم قیادت کے بحران سے بھی دوچار ہے، اس وقت ہمارے قومی سیاسی رہنماؤں میں نواز شریف ، آصف علی زرداری، عمران خان، مولانا فضل الرحمن، سراج الحق اور اسفند یار ولی خان قابل ذکر ہیں، لیکن ان سب کا حلقہ اثر محدود ہے اور انہیں ملک کے تمام صوبوں اور علاقوں میں وسیع تر مقبولیت حاصل نہیں ہے، نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو اپنی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر عالمی طاقتوں کے مفادات کی جنگ کا میدان بنا ہوا ہے، پاک چین اقتصادی راہداری کی وجہ سے بین الاقوامی سازشیں یہاں ہورہی ہیں، سب سے زیادہ سازشیں ہو رہی ہیں جن میں ہمسائے مسلم ممالک بھی پیش پیش ہیں، ایک ایسے ملک میں جو شخص با اثر طاقتوں کے سہارے تیسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوا ہو وہ یقینا غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل ہونا چاہئے لیکن شواہد بتا رہے ہیں وزیر اعظم نواز شریف وسیع تر وژن والے قومی لیڈر نہیں بن سکے اور پنجاب تک محدود ہو گئے ہیں۔ سب کو پاناما لیکس کے فیصلے کا انتظار ہے جو ان کے سیاسی مستقبل کا تعین کر سکتا ہے۔ پاناما لیکس کا فیصلہ بادی النظر میں ریڈ کلف ایوارڈ کی ہی طرز پر ہوگا ۔ پانامہ لیکس کے فیصلے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کے حوالے سے
قانونی رکاوٹیں سامنے آئیں گی اور ملک کے مستقبل کے عبوری وزیر اعظم چوہدری نثار علی خان ہی ہوں گے ۔
پہلے مرحلے میں تین دن کی خانہ شماری کے دوران مردم و خانہ شماری کرنے والے عملے کی جانب سے بہت سی بے قاعدگیوں کی نشان دہی ہوئی ہے ۔ سیاسی مذہبی اور قوم پرست جماعتوں نے مردم و خانہ شماری کے عمل پر اعتراضات نہیں کئے بلکہ و زیر اعلیٰ سندھ اور ان کی صوبائی حکومت نے بھی باقاعدہ طور پر تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔ ملک بھر کے 63 اضلاع میں خانہ شماری مکمل ہونے کے دعوے کی عملی کیفیت کے مشاہدے و تجربے کے مد نظر 15 مارچ سے شروع ہونے والی مردم شماری کے حوالے سے بعض ایسے سوالات اور اندیشے سر ابھار رہے ہیں جن کی بازگشت سینیٹ میں پیپلز پارٹی متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے آنے والے تحفظات اور بعض سیاسی رہنماؤں کے بیانات میں نظر آتی ہیں۔ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کے اس دور میں بین الاقوامی سطح پر موجود معیارات نے جن کاموں کو آسان بنا دیا ہے وہ وطن عزیز میں سپریم کورٹ کے احکامات آنے کے بعد اگر کئے بھی جاتے ہیں تو تھانوں میں انچارجوں کی تبدیلی، متعلقہ عملے کے پاس برسوں پرانے نقشوں کی موجودگی، کچی پنسلوـںسے اندراجات جیسے واقعات سامنے آرہے ہیں اور متعدد چھوٹے بڑے شہروں میں سینکڑوں فلیٹوں والے پلازوں سمیت ہزاروں مکانات خانہ شماری کے نشان سے محروم رہ جاتے ہیں، خانہ شماری اور مردم شماری ایسا عمل ہے جس سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کی بنیاد پر قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں اور بلدیاتی یونٹوں کے از سر نو تعین کے علاوہ وسائل اور منصوبوں کے نئے اہداف نشان زد کرنے میں مدد ملتی ہے، خانہ شماری کے دوران کئی کوتاہیاں سامنے آئی ہیں! شماریات ڈویشن کے حکام سے خانہ شماری
اور مردم شماری جیسی بڑئی قومی ذمہ داری کی ادائیگی کے حوالے سے پیشگی تیاری کا یہ پہلو نظر سے اوجھل رکھتا ہے کہ رہائش گاہوں، پلاٹوں اور افرد سے متعلق سرکاری ریکارڈ کا بڑا حصہ کمپیوٹروں میں اور گھر گھر جا کر اندراجات کا مقصد انہیں اپ ڈیٹ کرنا ہو، اب بھی وقت ہے کہ مردم شماری کے عمل کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے کے لئے ترکی کے رہنمائی حاصل کرنا چاہئے جہاں پر افواج کی زیر نگران ایک ہی دن میں مردم و خانہ شماری کا عمل مکمل ہو جاتا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ اور سندھ حکومت کا موقف درست ہے کہ زیر تعمیر خالی پلاٹوں کو ایک ساتھ کئی کئی نمبرز الاٹ کئے جا رہے ہیں، حالانکہ وہ بے چراغ کے زمرے میں آتے ہیں کیونکہ وہاں کوئی آبادی نہیں ہے، مختلف سیاسی جماعتوں نے یہ بھی شکایت کی ہے کہ کچی آبادیوں اور پسماندہ علاقوں میں مرد گھروں پر نہیں ہوتے خواتین مردم شماری کے عملے سے بات نہیں کرتیں یا درست طریقے سے بتا نہیں سکتیں، سرکاری عملہ ایسے گھروں پر ایک نمبر الاٹ کر کے چلایا جاتا ہے اور فارم میں لکھا جاتا ہے کہ یہاں کوئی نہیں ہرتا، اس طرح کی عدم توجیہ کی وجہ سے مردم شماری کے عمل کے بارے میں شک و شبہات جنم لے رہے ہیں، 2010 میں ملک میں خانہ شماری ہوئی تھی، اس کے نتائج صوبائی حکومتوں نے مسترد کر دیئے تھے اس خانہ شماری میں اربوں روپے خرچ ہوئے، لاکھوں سرکاری ملازمین اور سکیورٹی اداروں کے اہل کاروں نے فرائض انجام دیئے، حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی قومی مشق ہوئی اور اسی کے نتائج صدر زرداری کی حکومت نے مسترد کر دیئے اور قوم خاموش رہی، کوئی بھی اس کی ذمہ داری بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہے، صوبائی حکومتوں نے اس خانہ شماری کے نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا اور وفاقی حکومت کی طرف سے یہ تاثر دیا گیا مردم و خانہ شماری کی وجہ سے ملک کو انتہائی نقصان ہوگا۔ وفاقی خزانہ ، اقتصادی امور اور شماریات ڈویژن کو مردم و خانہ شماری کے موقع پر قوم سے خطاب کرنا چاہئے تھا اور یہی اسباب بھی بتانے چاہئے تھے۔
گزشتہ خانہ شماری کو ریاستی اور حکومتی اداروں نے خود ہی متنازعہ تسلیم کر لیا۔ ماضی میں جتنی مردم و خانہ شماری ہوئی ہیں ان پر بھی عوام کا اعتماد نہیںہے کیونکہ سابقہ مردم و خانہ شماری کے نتائج کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ بعض قوتیں اپنی مرضی کے نتائج مرتب کرتی رہی ہیں۔ برٹش انڈیا کے دوران مسلم آبادی کو کم ظاہر کیا گیا اور سی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ پاکستان میں ہر مردم شماری میں پاکستان کے لسانی گروہوں کے بارے میں جو اعداد و شمار دیئے گئے وہ انتہائی غیر منطقی ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک لسانی گروہ کا 1951 کی مردم شماری میں جو تناسب ہو، وہ 1961 میں بہت زیادہ کم ہو جائے اور 1972 میں صدر بھٹو کے دور حکومت میں بہت زیادہ ہو جائے اسی لئے عوام کے مردم شماری کے بارے میں شکوک و شبہات کا جواز بھی موجود ہے، پاکستان کی تشکیل کے بعد یہ فارمولہ دیا گیا تھا کہ 54 فیصد اور 46 فیصد کو برابر تسلیم کر لیا جائے اور شہری اور دیہی آبادی کو بغیر کسی وجہ کے یکساں تصور کر لیا جائے کیونکہ یہ ملک کے عظیم مفاد میں ہے، وہاں مردم و خانہ شماری کے عمل پر شکوک و شبہات کا پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ مشاہدہ میں آیا ہے کہ ہر صوبہ اور آبادی کا ہر گروہ اپنی آبادی بڑھانے کے لئے کوئی نہ کوئی حربہ استعمال کرتا ہے، پاکستان میں بین الصوبائی، علاقائی، سیاسی، لسانی و نسلی، قومی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم بہت گہری ہے، اس تقسیم کے باعث مرد م و خانہ شماری ایک انتہائی مسئلہ رہا ہے، اس حساسیت اور درست اعداد و شمار سے بعض قوتوں کے خوف کے پیش نظر 2010 کے بعد مردم شماری نہیں ہوئی، اب اگر اس کے نتائج متنازعہ یا بعض حلقوں کے لئے ناقابل قبول ہوئے تو نہ صرف داخلی طور پر محاذ آرائی اور شکوک و شبہات میں اضافہ ہوگا بلکہ پاک چین اقتصادی راہداری کی وجہ سے پاکستان کی دنیا میں بڑھتی ہوئی اہمیت متاثر ہو سکتی ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی متنازعہ مردم شماری کی وجہ سے حلقہ بندیاں کرانے سے گریز کرے گا، پاکستان موجودہ حالات میں اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ 19 سال بعد ہونے والی مردم شماری متنازعہ ہو جائے۔ مردم شماری سے وفاقی حکومت خائف ہے کیونکہ اس کی وجہ سے صوبائی حکومتیں نئی حلقہ بندیوں کے گرداب میں پھنس جائے گی اور انتخابی تناؤ بڑھتا جائے گا۔ غیر جانبدارانہ مردم شماری کے نتائج میں دیہی اور شہری آبادی میں فرق واضح ہو جائے گا۔موجودہ حکومت آبادی میں اضافے سے پارٹی سیاست پر پڑنے والے نتائج کے بارے میں فکر مند ہے کیونکہ اس کی وجہ سے انتخابی حلقوں کی از سر نو حد بندیاں ہونی ہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں