"KDC" (space) message & send to 7575

نیا سیاسی منظرنامہ

سپریم کورٹ کا فیصلہ اور ڈان لیکس کی انکوائری رپورٹ کچھ بھی ہو، پاکستان کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو کر رہے گا اور اب موجودہ کرپٹ سیاسی نظام برقرار نہیں رہے گا۔ وزیر اعظم نواز شریف پاناما کیس کے فیصلے اور ڈان لیکس انکوائری رپورٹ میں شاید براہ راست زد میں نہ آئیں لیکن انہوں نے سیاست میںاپنا جانشین مقرر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اب پاناما پیپرز کیس میں الیکشن انکوائری کمیشن رپورٹ کی طرز پر نظریہ ضرورت کے تحت فیصلہ نہیں آئے گا۔ پاناما لیکس کا فیصلہ وزیراعظم نواز شریف کے سیاسی کیریئر کا تعین کرے گا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی صحت بھی ایک ایسا فیکٹر ہے جو ان کے سیاسی کیریئر کے حوالے سے فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے، ان دنوں حکمران عوام کی توجہ ہٹانے کے سلسلہ میں عوامی یا سرکاری اجتماع میں متحرک ہو رہے ہیں، عوام نہ صرف ان کی تقاریر اور باتیں غور سے نہیں سنتے بلکہ ان کی باڈی کی حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم نوازشریف گزشتہ چند دنوں سے اپنی تقاریر میں جوش کا مظاہرہ کر رہے ہیں حالانکہ یہ ان کی شخصیت کے برعکس ہے۔ 23 مارچ کو قومی پریڈ میں ان کے چہرے پر عجیب اثرات دیکھنے میں آئے ، اسی لئے عوام سوچ رہے ہیں کہ نواز شریف‘ سپریم کورٹ کے فیصلے اور ڈان لیکس کی انکوائری رپورٹ کے حوالے سے کیا توقعات رکھ رہے ہیں یا ان کی مستند اطلاعات کیا ہیں کیونکہ انہیں دن کی روشنی میں اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔
سپریم کورٹ نے 22 فروری کو پاناما کیس میں اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا، بعض حلقوں کو یہ توقع تھی کہ یہ فیصلہ مارچ کے دوسرے یا تیسرے ہفتے میں آجائے گا لیکن ایک ماہ سے زائد ہو چکا ہے، سپریم کورٹ کی سماعت کرنے والے پانچ رکنی لارجر بینچ کے معزز ججز صاحبان کا کہنا یہ تھا کہ اس کیس میں کئی ہزار صفحات پر مشتمل دستاویزات جمع کرائی گئی ہیں، ان دستاویزات کا جائزہ لیا جائے گا اور ایسا تفصیلی فیصلہ لکھا جائے گا جو بیس سال تک یاد رکھا جائے گا، ان وجوہ کی بنیاد پر فیصلے میں تاخیر سمجھ میں آتی ہے، دوسری طرف ڈان لیکس کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے اپنی رپورٹ 7 دسمبر 2016 کو جمع کرانا تھی لیکن کمیٹی نے رپورٹ جمع کرانے کی تاریخ میں مزید ایک ماہ کی مہلت حاصل کی اور جنوری 2017 کے وسط میں اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو جمع کرا دی ہے، اس رپورٹ کو منظر عام پر نہ لانے کے اسباب سمجھ سے بالاتر ہیں۔ پانامہ کیس کے فیصلے اور ڈان لیکس انکوائری رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے اسباب اگرچہ مختلف ہیں، لیکن اس تاخیر سے پاکستان کے مقتدر حلقوں ، مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین کو مستقبل کے سیاسی منظر نامے کے بارے میں فیصلے کرنے کی مہلت مل گئی ہے۔ اس دوران کئی جوڑ توڑ اور کئی معاملات طے ہوئے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نام نہاد میثاق جمہوریت کو بنیاد بنا کر ان کے قریب بھی آنا چاہتے ہیں اور عسکری قیادتوں کے ڈان لیکس کے بارے میں تحفظات کو نظر انداز کرنے کا بھی مشورہ دے رہے ہیں۔ اسی طرح ایک ایسی غیر سرکاری تنظیم جو پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کی کنفیڈریشن بنانے میں سرگرم ہے جس کوسکینڈے نیوین ممالک فنانس کر رہے ہیں، اس کی سرگرمیوں کو محدود کرنے اور ان کے فنڈز پر قدغن لگانے کی تجویز حساس ادارے نے وزیراعظم کو بھجوائی تو ان کی حساس رپورٹ کو نظر انداز کر دیا گیا، اسی طرح انٹرنیشنل ری پبلیکن انسٹیٹیوٹ کے سروے رپورٹ اپنے حق میں کروائے گئے اور اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اس کی سرکاری طور پر تشہیر کی گئی ‘حالانکہ انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹیٹیوٹ کو پاکستان گورنمنٹ نے 2008 سے ہی این او سی ہی نہیں جاری کیا اور ان کی سرگرمیاں بھی قانون کی نظر میں مشکوک ہیں، اسی تناظر میں امریکی ادارے انٹرنیشنل فاؤنڈیشن فار الیکٹورل سسٹم کو بھی وزارت داخلہ نے این اوسی جاری نہیں کیا ۔ میں نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو ان کی تشہیری مہم کے دوران خط لکھا تھا کہ آئی آر اے ممنوع تنظیم ہے، اسی طرح الیکشن کمیشن کے حکام کو بھی آئی ایف ایس کے بارے میں کئی بار مطلع کیا تھا اسی طرح بے نظیر انکم سپورٹ کے سہارے سے ایک امریکی ادارہ اپنے سترہ ارب روپے کے پراجیکٹ سے ملک کی سلامتی کے خلاف سروے کروا رہا ہے اور میں نے انکی کی سرگرمیوں کے بارے میں صدر مملکت کو تفصیل سے مطلع کیا، لیکن بد قسمتی سے صدر مملکت اس اہم قومی معاملہ پر خاموش ہیں اور نیشنل سیکورٹی ایڈوائیزر نے بھی چپ سادھ رکھی ہے، ان تمام حقائق کا گہری نظر سے تجزیہ کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاناما پیپرز اور ڈان لیکس کے بارے میں ادارے ایسا درمیانی راستہ نکالنے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس سے سسٹم برقرار رہے اور ملک بھی کرپشن کی آلودگی سے آئندہ محفوظ رہے اور مستقبل کے الیکشن میں شفافیت نظر آئے۔
ان تمام معروضی حالات کو مد نظر رکھا جائے تو یہ اطلاعات
گردش کر رہی ہیں کہ وزیر اعظم سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے آئندہ کچھ دنوں میں علاج کی غرض سے لندن جا سکتے ہیں، و ہ وہاں اسی ہسپتال میں داخل ہو سکتے ہیں جہاں ان کا پہلے بھی آپریشن ہو چکا تھا اور اب ان کا علاج طویل ہو سکتا ہے اور اس دوران قومی اسمبلی میں ان ہاؤس تبدیلی کے ذریعے مسلم لیگ (ن) کے کسی سینئر ترین رکن قومی اسمبلی غالباً چوہدری نثار علی خان کو وزیر اعظم بنایا جا سکتا ہے، ویسے احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی بھی نظریں جمائے ہوئے ہیں اور شیخ آفتاب حسین بھی منتظر ہیں، لیکن چوہدری نثار علی خان کے حامیوں کی تعداد 80 اور 90 کے لگ بھگ ہیں جو ان کی دیانت کے قائل ہیں، یہ بھی تجویز زیر غور ہے کہ عبوری وزیر اعظم آئندہ اکتوبر میں عام انتخابات کرانے کا اعلان کر سکتا ہے! مسلم لیگ (ن) کی سربراہی کی سیاسی جانشینی کی دوڑ میں مریم نواز صاحبہ یا شہباز شریف بھی شامل ہیں!الیکشن کمیشن کے ریکارڈ جولائی 2002 کے مطابق میاں شہباز شریف پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حقیقی وارث
تھے، اور میری معلومات کے مطابق 2009 تک پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف ہی الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں موجود رہے اور وزیر اعظم نواز شریف کی عدم موجودگی میں پاناما کیس کا فیصلہ بھی آسکتا ہے اور ڈان انکوائری رپورٹ بھی منظر عام پر آجائے گی، اسی فیصلے اور رپورٹ کے منظر عام پر آنے میں تاخیر کا سبب بھی لوگوں کی سمجھ میں آجائے گا اس لئے سب سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں کو معاملات طے کرنے کی مہلت بھی مل گئی ہے! سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کی آئینی طاقت کے حوالے سے میں یہاں پر انڈیا کے سابق چیف الیکشن کمشنر مسٹر مورتی کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں ، میں نے ان سے ایک ملاقات کے دوران انڈین وحدت کا راز پوچھا تو انہوں نے بے ساختگی سے جواب دیا کہ جب تک انڈیا کی غیر جانبدار سپریم کورٹ اور الیکشن آف انڈیا موجود رہے گا، انڈیا کی وحدت کو کوئی خطرہ نہیں، اس تناظر میں میرے نگاہ ان دونوں اداروں کی طرف لگی ہوئی ہے کیونکہ وزیراعظم قوم کا ٹرسٹی ہوتا ہے اور جب اعتماد ہی متزلزل ہو جائے تو سسٹم زمین بوس ہو جاتا ہے، اور اس کے اندر کی سلگتی ہوئی چنگاریاں آتش فشاں کا روپ دھار لیتی ہیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں