"KDC" (space) message & send to 7575

سیاسی قوتیں ہوشمندی کا مظاہرہ کریں

کہا جا رہا تھا کہ 20 اپریل کو پاکستان کی کامیابی کا سورج طلوع ہونے کے امکانات ہیں، فیصلے سے عوامی اضطراب کی لہریں اٹھیں گی، بڑے اور اہم فیصلے اب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ہی آئین کے آرٹیکل 62-63 کے مطابق کرنا ہوں گے تاہم فیصلے کے بعد صورت حال میں انقلابی تبدیلی دیکھنے کو نظر نہیں آ رہی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آئینی طور پر نا اہلیت کے فیصلے الیکشن کمیشن کو ہی کرنے ہوں گے۔نتائج حکومت کی مشکلات کم یا بڑھا بھی سکتے ہیں۔ یہ کہا جا رہا تھا کہ یہ فیصلہ موجود ہ سیاست کا رخ بدل دے گا اور یہ فیصلہ 2018 کے انتخابات پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے، اب جب کہ فیصلہ آ چکا ہے تو تمام تجزیہ نگار اس فیصلے میں آئینہ دیکھ سکتے ہیں۔ عن قریب سول عسکری تعلقات کے حوالے سے نیوز لیکس کی انکوائری رپورٹ کے حوالے سے خطرناک حقائق سامنے آ رہے ہیں ۔ وزیر اعظم اور ان کے قریبی رفقا اپنے آفیسروں کی نا اہلی کی وجہ سے شکنجے میں آ سکتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ بھی ہونے والا ہے۔ ڈان لیکس کے حوالے سے البتہ اس بات کی نشاندہی ہو گئی ہے کہ عسکری قیادت سول قیادت سے فاصلے پر ہے۔پاناماکا معاملہ اس لئے بھی اہم ہے کہ گزشتہ ایک سال سے ملک کی سیاست پانامہ کے گرد گھوم رہی ہے۔
پاناما کیس کے فیصلے کے بعد ہی پاکستان کے معاشی مستقبل کے بارے میں راہ متعین ہو جائے گی۔ دیکھا جائے تو عوام کو سماجی اور معاشی انصاف کی فراہمی ختم ہو چکی ہے، عوام کا حکومتی اداروں پر سے اعتماد ختم ہو چکا ہے،ایک بڑے نجی تعلیمی ادارے کے ایک اہل کار نے پانامہ کیس کے پس منظر میں کرائے گئے سروے میں وزیر اعظم کی ذات کو ایماندار اور پاک قرار دے دیا، ایسے سروے جو ڈرائنگ رومز میں لیپ ٹاپ کی مدد سے تیار کئے جاتے ہیں، پاکستان کے بیس کروڑ عوام پر مسلط نہیں کئے جا سکتے۔ اس حوالے سے قومی مفاد کا خیال کرتے ہوئے ہمارے اداروں کو ایسے پراسرار
سرویز کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے کیونکہ مختلف نوعیت کے سروے کرانے اور پھر ان کی تشہیر پر جو کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں ، سروے کی خوشنما تشہیر کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم ہاؤس کے سٹاف کو چار ماہ کی تنخواہ کے مساوی بونس دیا گیا ہے، یہ ایک غیر معمولی بات ہے کیونکہ عام طور پر بونس اور تنخواہوں میں اضافے مالی سال کے اختتام پر دیئے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم فیصلے سے قبل پریشان نظر آئے کہ پاناما کیس کا فیصلہ انہیں کسی بھی وقت ا ن کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا باعث بن سکتا ہے چنانچہ وہ رسمی معاملات نمٹاتے نظر آئے، پاک چین اقتصادی راہداری، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی طرف سے تجارتی خسارے اور پاکستان کی معیشت کے لئے خطرے کی گھنٹیاں اب بھی بج رہی ہیں۔حکومت نے 90 کھرب سے زائد کا قرضہ قوم کو تحفے میں دیا ہے، حکومت نے انتخابات کی تیاری زور شور سے شروع کر دی ہے ۔ ووٹرز کو راغب کرنے کے لئے سرکاری ملازمتوں پر لگی پابندی اٹھا لی گئی ہے اور پچاس ہزار سرکاری ملازموں کو مستقل کر دیا گیا ہے، بے گھر افراد کے لئے رہائشی سکیموں کا اعلان اور نئے گیس کنکشن پر عائد پابندی ہٹا لی گئی ہے۔ نرم حج پالیسی کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ پاناما کیس کا فیصلہ مختلف سیاسی جماعتوں کا مستقبل کا تعین کر دے گا ۔ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اگلے عام انتخابات زیادہ منظم اور غیر متنازع ہوں گے اور لہٰذا آئندہ انتخابات نومبر 1993 ء کی روایت کے مطابق براہ راست افواج پاکستان کی نگرانی میں ہی ہوں گے، انتخابی اصلاحات کسی نتیجہ پر نہ پہنچیں اس سے فرق نہیں پڑے گا، موجودہ الیکشن قوانین انتخابی دھاندلیوں کے تدارک کے لئے کافی ہیں بشرطیکہ الیکشن کمیشن کی پشت پر سپریم کورٹ اور افواج پاکستان کھڑی ہو۔
حکومت ملک میں حقیقی جمہوریت قائم کرنے کی دعوے دار ہے جب کہ اپوزیشن کی جدوجہد بھی ملک میں جمہوریت کا قیام ہے، دونوں اس نقطے پر متفق ہونے کے باوجود برداشت سے عار ی ہیں، جب کہ برداشت جمہوریت کی روح ہے، فریقین میں عدم برداشت کا رویہ جمہوریت کے لئے ہی نہیں ملک کے لئے بھی نقصان دہ ہے، اگرچہ ماضی کی طرح اپوزیشن اور حکومت ، دونوں نے اپنے اپنے موقف کو وقار کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ ملک کی موجودہ بدلتی ہوئی صورت حال کے تناظر میں پیپلز پارٹی کی حکمت عملی کو دیکھنا چاہئے، پیپلز پارٹی نے سندھ میں احتجاجی سیاست کا آغاز کر دیا ہے اور اس کے ساتھ ہی پراسرایت پر مبنی یہ سوال پیدا ہوگیا ہے کہ عوام کے مسائل تو پورے ملک میں ہیں، پیپلز پارٹی صرف سندھ میں اس پالیسی پر کیوں گامزن ہے، حالانکہ پیپلز پارٹی اپنے آپ کو ایک وفاقی جماعت کہتی ہے۔ صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں نواب لغاری، اشفاق لغاری اور غلام قادر مری کی پراسرار گمشدگی اور لیاری کے عزیر بلوچ کے جے آئی ٹی میں بیانات بھی آصف علی زرداری کی اس حکمت عملی کا ایک سبب ہو سکتے ہیں، یہ کوئی معمولی واقعات نہیں ہیں، عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ تقریباً آٹھ ماہ پہلے جمع کرادی گئی تھی اور اسی وقت ہی اس رپورٹ میں سفارش کی گئی تھی کہ عزیر بلوچ کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلایا جائے، اس سفارش پر کارروائی اب ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے بیانات سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ تینوں رہنما بعض اداروں کی تحویل میں ہیں، پیپلز پارٹی جو پنجاب اور دوسرے صوبوں میں سیاسی پیش رفت میں مصروف تھی، ان واقعات کے بعد سندھ میں جارحانہ سیاست کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہو گئی ہے، عزیر بلوچ، نواب لغاری، اشفاق لغاری اور غلام قادر مری کے اعترافی بیانات سے آصف علی زرداری کے لئے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، اسی وجہ سے پیپلز پارٹی سندھ کارڈ پر واپس آرہی ہے، جس کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ اگر ان کی مخالف قوتوں کے پاس ایک آپشن ہے تو پیپلز پارٹی کے پاس دوسرا ا ٓپشن ہے۔سندھ اس وقت مرحوم عبدالحفیظ پیرزادہ، ممتاز بھٹو، عطا اللہ مینگل اور دیگر سندھی قوم پرست رہنماؤں کی تھیوری کے مطابق کنفیڈریشن کی طرف جا رہا ہے۔ڈاکٹر عاصم حسین نے جنرل راحیل شریف کے دور عسکریت میں اپنے اوپر لگنے والے کرپشن اور دہشت گردوں کی مدد کے سنگین الزامات کا اعتراف اور اقرار کیا اور صوبائی حکومت نے کرپشن اور دہشت گردی کو ناکام بنایا۔ شنید ہے کہ چند ایسی شخصیات کو آرمی ایکٹ 51 کے تحت گرفتار کیا جائے گا جو بعد میں وعدہ معاف گواہ بن کر نواز حکومت کو نقصان پہنچا سکتی ہیں ۔
علاقائی صورتِ حال پاکستان کے حق میں نہیں اور حالات ڈرامائی انداز اختیار کرتے جا رہے ہیں، فیصلہ چاہے کچھ بھی ہو نواز شریف کی حکومت کے لئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں،ا س تناظر میں پاکستان کی داخلی صورت حال کوئی زیادہ اچھی نہیں ہے کیونکہ آئندہ عام انتخابات سے پہلے پاکستان میں بہت سی ملکی اور غیر ملکی قوتوں کا عمل دخل بڑھ رہا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت بد نیتی پر مبنی ریڈ کلف ایوارڈ کے ذریعے گورداس پور، جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی بھارت میں شامل کر دیا گیا ، اب پاک چین اقتصادی راہداری کی آڑ میں پاکستان کو گوادر سے 40 سال کے لئے محرو م کیا جا رہا ہے۔گوادر کو جو، سر فیروز خان نون وزیر اعظم پاکستان نے 15 اکتوبر 1957 کو عمان سے دس لاکھ پونڈ میں خریدا تھا اور پاکستان کی فیڈریشن کا مزید حصہ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے لاکھوں ایکڑ زمین حاصل کر کے پاکستان کو زرعی طور پر مفلو ج کر دیا ہے۔
ان حالات میں پاکستان کے بے کس عوام کی نظریں قومی اداروں پر لگی ہیں، ان کا مستقبل محفوظ بنانے کے لئے حکمرانوں‘ اپوزیشن اور اداروں کو اپنا اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرنا چاہیے۔ کرپشن کا خاتمہ ملک کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ پاناما فیصلے میں سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا ہے جو آئندہ دو ماہ میں سپریم کورٹ کی زیرنگرانی تفتیش کرے گی۔ امید ہے کہ جے آئی ٹی میں شامل ارکان غیر جانبداری سے کام لیں گے ‘ وہ میرٹ کا خیال رکھتے ہوئے کسی دبائو یا لالچ میں آئے بغیر تفتیش کریں گے اور کسی ایک فریق کی حمایت کی بجائے ملک وقوم کے مفادمیں کام کریں گے۔بصورت دیگر ملک میں ایسا ہیجان برپا ہو جائے گا جس کا نقصان عوام کے ساتھ ساتھ تمام سٹیک ہولڈرز کوبھی ہوسکتا ہے۔پاناما فیصلے میں دو ججوں نے کہا ہے کہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے۔ عمران خان اسی بنیاد پر وزیراعظم سے استعفیٰ مانگ رہے ہیں۔ تمام سیاسی قوتوں کو چاہیے کہ وہ انتشار اور آپس میں دست و گریباں ہونے کی بجائے ہوشمندی کا مظاہرہ کریں اور کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے ملک میں انتشار یا اضطراب کی کیفیت پیدا ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں