"KDC" (space) message & send to 7575

بجٹ اجلاس‘ اقتدار اور وزیراعظم

مشترکہ انکوائری ٹیم چیف جسٹس پاکستان کی نگرانی میں تشکیل پانے کے باعث جوڈیشل کمیشن کے مقابلے میں طاقتور اور با اختیار ہوگی۔ وہ انکوائری ٹیم کی رپورٹ کے نتائج کی روشنی میں وزیر اعظم نواز شریف کو آئین کے آرٹیکل 63(1)F کے تحت نا اہل قرار دے سکتی ہے۔ اگر1956 ایکٹ کے تحت جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جاتا جس کی طرف سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے بھی اشارہ کیا اورجس کے ارکان سپریم کورٹ کے نامزد نہ ہوتے تو حکومت انہیں تابع بنا لیتی اور جوڈیشل کمیشن کے پاس مکمل اور حتمی اختیارات نہ ہونے کی وجہ وہ سرکاری مشنری سے کچھ بھی کروا سکتے۔ اگر جوڈیشل کمیشن کسی نتیجہ پر پہنچ کر وزیر اعظم کو بد دیانت قرار دے دیتا تو ایسی صورت میں وہ سفارش ہی پیش کر سکتا تھا اور اس کے فیصلے کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی کسی بھی عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا تھا، حیرانگی ہے کہ سابق چیف جسٹس نے ان تمام کمزور پہلوؤں پر غور ہی نہیں کیا ؛ البتہ ان کے ارادے کو عمران خان نے مسترد کر دیا اور جسٹس انور ظہیر جمالی نے بنچ ہی تحلیل کر دیا حالانکہ ابھی ان کے ریٹائرمنٹ کے 25 دن باقی تھے۔ اب معزز ججز حضرات نے عمل درآمد بنچ کی تشکیل کا حکم دیا جس کے پاس وسیع اختیارات ہوں گے وہ کسی بھی موقع پر انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے بعد وزیر اعظم کو نا اہل قرار دے سکتا ہے، جے آئی ٹی کے ارکان کو نہ صرف پاناما کیس کا فیصلہ سنانے والا پانچ رکنی بنچ مقرر کرے گا بلکہ یہ ارکان سپریم کورٹ کے عمل درآمد بنچ کے روبرو پیش بھی ہوں گے۔ سب سے پہلے یہ کہ ان افسران پراثر انداز ہونا ممکن نہ ہوگا، ان کی نگرانی کے لئے آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سینئر نمائندے ان کی کارروائی کو مانیٹرنگ بھی کرتے رہیں گے، اگر کسی اہل کار نے نواز خاندان کو کسی طرح کی رعائت دینے کی کوشش کی تو وہ سامنے آ جائے گی، سب سے اہم بات یہ ہے کہ تحقیقات کے دوران جے آئی ٹی کے کسی
رکن نے شکایت کی کہ اس سے حکومتی وزیر یا حکومت کے فرنٹ مینوں نے رابطہ کیا ہے تو اسی دن اس پر سخت ایکشن لیا جائے گا۔ عمل درآمد بنچ کے ججز سپریم کورٹ کے ججز ہوں گے اور ان کے پاس مقدمہ کی سماعت کے لئے وہی اختیارات ہوں گے جو آئین کے تحت سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو حاصل ہوتے ہیں، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ارکان قابل، لائق، ایماندار اور انتہائی پیشہ ور افسران ہوں گے لیکن کسی گاڈ فادر کے اشارے پر اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانا نہ گیا تو تحقیقاتی ٹیم کی کوشش اور محنت بے کار جائے گی اور پھر میڈیا اور عوام کے بھرپور احتجاج شروع ہو جائیں گے جس سے سارے سسٹم کے بساط ہی لپیٹ دیئے جانے کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایک اہم اور پر اثر پیراگراف کو ہمارے میڈیا نے نظر انداز کر دیا ہے جو یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا عمل درآمد بنچ تحقیقاتی ٹیم کی ابتدائی رپورٹس کے بعد ہی اور حتمی رپورٹ کا انتظار کئے بغیر ہی وزیر اعظم کو نا اہل قرار دینے پر غور کر سکتا ہے اور یہ پیرا سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے پاناما کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے متفقہ طور پر منظور کیا ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے سنائے جانے والے فیصلے میں آرڈر آف کورٹ جس پر پانچوں ججوں نے دستخط کئے ہیں اس کے پیرا نمبر چار میں لکھا ہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی ہفتہ وار یا پھر حتمی رپورٹس موصول ہونے کے بعد وزیر اعظم کی نا اہلیت کے معاملے پر غور کیا جائے گا اور ضروری ہوا تو وزیر اعظم کو طلب کر کے ان سے وضاحت بھی لی جا سکتی ہے، اسی طرح معزز ججز حضرات نے متفقہ طور پر حدیبیہ پیپر ملز کے کیس کی دوبارہ تحقیقات کی اجازت دی ہے۔ آرڈر آف دی کورٹ کے پیرا نمبر تین میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی، ایف آئی اے اور نیب کے پاس دستیاب ان تمام شواہد اور مواد کا جائزہ لے گی جو مذکورہ فلیٹوں یا پھر مالی وسائل اور ان سے وابستہ اثاثوں کے ساتھ کسی بھی طرح سے منسلک ہیں یا ان سے تعلق رکھتے ہیں، یہاں قابل ذکر پہلو یہ کے کہ حسین نواز و دیگر اپنے انٹرویوز
میں فلیٹوں اور گھر کی ملکیت کے بارے میں اعتراف کر چکے ہیں لہٰذا جے آئی ٹی کی ٹیم جوں جوں آگے بڑھتی جائے گی، اسحاق ڈار و دیگر کے ساتھ ساتھ شہباز شریف بھی لپیٹ میں آ جائیں گے اور اگر ممکن ہوا تو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم احتساب بیورو کے سابق چیئر مین جنرل شاہد عزیز اور ایڈمرل فصیح بخاری کے تجربات سے بھی استفادہ اٹھا سکتے ہیں۔
ایف آئی اے کے پاس شریف خاندان کے لندن کے فلیٹوں اور جائیدادوں کے ساتھ مالی تعلق کا ریکارڈ موجود ہے۔ آرڈر آف دی کورٹ کے پیرا نمبر تین میں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ نیا تشکیل دیا جانے والا عمل درآمد بنچ آئین کے آرٹیکل 187, 183(3) اور 190 کے تحت حاصل اختیارات اور دائرہ کار کے تحت کوئی بھی حکم جاری کر سکتا ہے اور ساتھ ہی نیب کو حکم جاری کر سکتا ہے کہ وزیر اعظم یا ان سے وابستہ افراد کے خلاف کرپشن کا ریفرنس دائر کیا جائے۔ لہذا قوم مطمئن رہے۔ تحقیقاتی ٹیم کی پہلی دو رپورٹیں عمل در آمد بنچ میں پیش ہونے کے بعد آئندہ مئی میں ہی وزیر اعظم کی نا اہلی کا سبب بن جائیں گی۔ بنچ کے تمام پانچوں ججوں نے اس نکتے پر اتفاق کر لیا ہے کہ وزیر اعظم نا اہل ہونے کے قریب ہیں اور ضابطہ کی کارروائی مکمل کرنے کے لئے 60 دن کی مہلت دی گئی ہے۔
ہمارے ہاں بیوروکریسی کو اجرتی کاموں کے لئے استعمال کرنے کا سلسلہ 1985ء سے نواز حکومت نے شروع کیا اور جو نرسری 1985ء میں لگائی گئی تھی وہ اب قدآور درختوں کی مانند کھڑی ہو گئی ہے اور ہر ادارے کو ان کی نرسری کے بیوروکریٹس نے مفلوج بنا کر رکھ دیا ہے۔ 1985ء میں گورنر جیلانی نے جو فارمولا وزیر اعلیٰ نواز شریف کو دیا تھا، اسی وجہ سے آج پنجاب پویس، عدلیہ اور آئینی اداروں میں چلے آئے ہیں اس پر پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پانامہ کیس کی سماعت کرنے والے بنچ نے عدم اعتماد کر دیا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے نے معیشت کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ 26 مئی کو پیش ہونے والے بجٹ کے بعد ملک مزید دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ جائے گا اور 90 کھرب کے قرضے ہمارے سروں پر منڈلارہے ہیں۔ جن کے گہرے اثرات سے ملک کی بنیادیں ہی ہل گئی ہیں، عدالتی نظام کی کمزوری سے ڈان لیکس کمیٹی کے سربراہ جسٹس عامر رضا متفقہ فیصلے کا انتظار کرتے رہے، ان حالات میں قوم توقع کر رہی ہے کہ پاناما کیس شفافیت کی طرف سنجیدگی سے پیش قدمی کرے ۔ 
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم قانونی طور پر لا محدود اختیارات کی حامل ہوگی، جے آئی ٹی صرف فوجداری نوعیت کے سنگین جرائم کی تفتیش کے لئے بنائی جاتی ہے، جے آئی ٹی کو ایس ایچ او کے تمام اختیارات حاصل ہوتے ہیں، مختلف اداروں کے نمائندوں کو شامل کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے تا کہ موثر انداز میں تفتیش مکمل ہو سکے اور ہر ممبر اپنے ادارے کے حاصل اختیارات استعمال کرتا ہے، لہٰذا تفتیش کے حوالے سے جے آئی ٹی کے اختیارات کی کوئی حد نہیں ہے، اگر تفتیش کا عمل دیئے گئے یا قانون میں لکھے گئے بروقت مکمل نہ ہو سکے تو وقت میں توسیع کی درخواست تفتیشی ادارہ دے سکتا ہے، پاناما کیس کی جے آئی ٹی کی رپورٹ عدالت میں جمع ہونے کے بعد عدالت سرسری سماعت کر کے فیصلہ سنا سکتی ہے۔ واضح رہے جے آئی ٹی کو پہلی بار انسداد دہشت گردی کے قانون مجریہ 1997 میں متعارف کرایا اور انسداد دہشت گردی کے تمام مقدمات کی تفتیش جے آئی ٹی کرتی ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ ملک کا وزیر اعظم اپنے خاندان کے افراد کو لیکر اسی کمیٹی کے رو برو پیش ہوگا جو مجرموں کے لئے بنائی گئی تھی۔ ان تمام پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ وزیر اعظم جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہونے سے پیشتر ہی اقتدار سے دستبردار ہو جائیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں