"KDC" (space) message & send to 7575

ڈان لیکس کا معاملہ اور سیاست

ملکی سلامتی کے لئے حساس قرار دیا جانے والا نیوز لیکس کا معاملہ متقاضی تھا کہ اس بارے میں احتیاط کے تمام پہلوؤں کو ہر سطح پر ملحوظ رکھا جاتا تاکہ کسی قسم کی کوئی بدمزگی پیدا نہ ہوتی‘ مگر محسوس ہوتا ہے کہ رپورٹ سے متعلق نوٹی فکیشن جاری کرتے وقت اس پہلو پر مناسب توجہ نہیں دی گئی‘ کوئی احتیاط نہیں برتی گئی اور مخصوص حکمت عملی کے تحت عسکری قیادت کے تحفظات کو نظر انداز کرکے مبہم سا ایگزیکٹو آرڈر جاری کرا دیا گیا۔ یہ سوال اہمیت کا حامل تھا کہ ایسی گفتگو‘ جس میں ملی‘ قومی اور بین الاقوامی نوعیت کے اہم امور زیر غور لائے گئے‘ کے بارے میں رپورٹ کس ذریعے سے روزنامہ ڈان میں شائع ہو گئی۔ یہی پتہ چلانا تھا‘ لیکن اسی سوال کا جواب تلاش نہیں کیا جا سکا۔ حکومت کی جانب سے مذکورہ رپورٹ کی تحقیقات کے لئے ایک کمیٹی قائم کی گئی اور ابتدائی تحقیقات کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کو ان کے عہدے سے سبکدوش کر دیا گیا‘ جبکہ 29 اپریل کو تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات کی باقاعدہ منظوری کے بعد جو سرکاری احکامات جاری کیے گئے‘ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پرویز رشید کو تو کلین چٹ دے دی گئی ہے‘ جبکہ طارق فاطمی کو وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اور پریس انفارمیشن کے پریس آفیسر تحسین علی کے خلاف محکمانہ کارروائی کا عندیہ دیا گیا‘ تاکہ وہ حکومت کی کمزور دلیل کا سہارا لے کر کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کر سکیں۔ ڈان اخبار کے ایڈیٹر اور رپورٹر سرل المیڈا کے خلاف ضابطہ اخلاق سے انحراف کا معاملہ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے حوالے کر دیا گیا کہ وہ اس بارے میں فیصلہ کرے۔ میرے خیال میں یہ نوٹیفکیشن نہایت مبہم اور غیر واضح تھا۔ حکومت کو اس وقت دھچکا لگا‘ جب آرمی چیف کی طرف سے آنے والے بیان میں ڈان نیوز لیکس سے متعلق وزیر اعظم کے نوٹیفکیشن کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ رپورٹ نامکمل ہے اور جاری کردہ نوٹیفکیشن انکوائری رپورٹ کی سفارشات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ میرا خیال ہے کہ اس بارے میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا اور سیکرٹری کے ذریعے نوٹیفکیشن جاری کرا دیا گیا‘ جو رولز آف بزنس سے صریحاً انحراف ہے۔ اس نوٹی فکیشن میں انکوائری رپورٹ کی روح کو بالکل نکال ہی دیا گیا۔ حیرانی ہے کہ ڈان لیکس کے حوالے سے سب سے بڑے کردار اور اس معاملے کے اہم ترین فریق وزارتِ دفاع اور جی ایچ کیو کو نوٹیفکیشن کی کاپی بھیجنے کا بھی تکلف نہیں کیا گیا۔ ان ساری غلطیوں اور تیزیوں کی وجہ سے نہ صرف یہ بحران زیادہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے‘ بلکہ ملک میں سیاسی بے چینی میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ سماجی معاملات بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ عسکری قیادت کے ٹویٹ سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ انکوائری کمیٹی کی سفارشات کچھ اور تھیں‘ اور حکومت نے ان پر کارروائی کچھ اور کی‘ لہٰذا نتیجہ بھی کچھ اور ہی نکلا‘ جس سے اسٹیبلشمنٹ مطمئن نظر نہیں آتی۔ اس کی جانب سے نوٹی فکیشن دو ٹوک الفاظ میں مسترد کرنے سے یہ تاثر ابھرا کہ معاملات ویسے نہیں جیسے نظر آتے ہیں۔ حکومت نے تین اشخاص کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہے‘ لیکن اس سے بات نہیں بنے گی‘ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ افواج پاکستان میں شدید تشویش اور اضطراب اسی طرح پھیل گیا ہے‘ جیسے 2012ء میں بھارتی فوج میں پھیلا تھا۔ انڈین آرمی چیف کی خواہش کے برعکس جب چندی گڑھ میں ایک کنال کا پلاٹ الاٹ کیا گیا تو آرمی چیف نے وزارتِ ڈیفنس سے استدعا کی چونکہ ان کی اہلیہ دمہ کی مریضہ ہے‘ لہٰذا انہیں کارنر پلاٹ دیا
جائے تاکہ ان کی اہلیہ کو تازہ ہوا کے جھونکے ملتے رہیں۔ اس پر ڈیفنس منسٹری نے ان کی درخواست کو مسترد کر دیا اور پارلیمنٹ میں بھی آرمی چیف کا مذاق اڑایا گیا۔ بھارتی آرمی چیف نے سپریم کورٹ آف انڈیا سے رجوع کیا تو وہاں بھی ان کی شنوائی نہ ہوئی۔ بھارتی حکومت کے تنخواہ دار میڈیا پرسنز اور اینکر پرسنز نے آرمی چیف کا مذاق اڑایا تو 14 لاکھ انڈین آرمی میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ یہ بات بین الاقوامی میڈیا کے ریکارڈ میں موجود ہے کہ آرمی اپنے ادارے کی حرمت کو بچانے کے لئے حرکت میں آ گئی اور روہتک، جھانسی گڑگاؤں کی چھائونیوں سے کئی بٹالین فوج دہلی کی طرف روانہ ہو گئی۔ یہ ساری صورتحال دیکھ کر انڈین پارلیمنٹ کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ جب سی این این، بی بی سی نے بریکنگ نیوز دینی شروع کی کہ چند گھنٹوں میں انڈین جمہوریت کا جنازہ نکل جائے گا تو پوری بھارتی حکومت ہل کر رہ گئی۔ اسی رات ہنگامی بنیادوں پر ڈیفنس منسٹری نے آرمی چیف کی درخواست منظور کرتے ہوئے ان کی خواہش کے مطابق پلاٹ بھی الاٹ کر دیا، اور پارلیمنٹ نے افواج ہند کے حق میں قرارداد بھی منظور کی! میں نے اس واقعے کے بعد روزنامہ ''دنیا‘‘ میں کئی کالم لکھے جو ریکارڈ پر موجود ہیں۔
ڈان لیکس کے نئے بحران کے ساتھ ساتھ پاناما کیس کے فیصلے کے بعد حکومت کی مخالفت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ وکلا برادری نے بھی پاناما کیس کے فیصلے کے بعد وزیر اعظم پر استعفیٰ کے لئے دباؤ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ ملک میں اپنے طور پر سیاسی تحریک کا رخ متعین کر سکتا ہے اور تحریکِ انصاف اور پیپلز پارٹی کی حکمت عملیوں کو متاثر بھی کر سکتا ہے۔ ملک بھر میں وکلا کی ایک خاصی بڑی تعداد وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کے مطالبے پر متحد ہے اور اس حوالے سے حکومت پر دبائو بڑھتا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل نے پہلے ہی لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے موقف کی حمایت کر دی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ اس طرح یہ مطالبہ اب شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
دوسری جانب یہ چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ حکومت اپنے ہم خیال وکلا کے ذریعے رائے عامہ ہموار کرنے کی مہم پر نکل رہی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 243(1) کو استعمال کرتے ہوئے پوری فوجی کمانڈ کو مکمل طور پر وزیر اعظم کے ماتحت کر دیا جائے۔ میرے خیال میں تو موجودہ صورتحال میں کوئی حکومت ایسا نہیں سوچ سکتی‘ لیکن اگر حکومت ایسا سوچ رہی ہے تو اس سے اسے کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ الٹا بحران کو دور کرنے کے بجائے‘ اس کی شدت میں اضافہ ہو جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت کو بین الاقوامی ایجنڈے کے ذریعے نگران حکومت کے توسط سے اقتدار میں لایا گیا‘ جو آر او زدہ ہے۔ وزیر اعظم کے اس انٹرویو کا بار بار خیال آتا ہے‘ جو انہوں نے غالباً 7 مئی 2013ء کو انڈین ٹیلی ویژن کو دیا تھا‘ اور جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد کارگل کمیشن کی تشکیل کی جائے گی‘ جس میں انڈین آرمی چیف کو بھی رسائی دی جائے گی‘ اور یہ کہ فوج کو از سر نو منظم کیا جائے گا۔ بعد ازاں اقتدار میں آنے کے چند مہینوں کے بعد لاہور میں انڈین صحافیوں کی ایک تنظیم کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ جغرافیائی بارڈر معمولی سی لکیر ہے وہ کسی بھی وقت پھلانگ کر ادھر ادھر ہو سکتے ہیں‘ اور یہ کہ دونوں ممالک کا کلچر ایک جیسا ہے‘ وہ بھی آلو پالک کھاتے ہیں اور ہم بھی آلو پالک کھاتے ہیں۔ مزید فرمایا کہ صدر مشرف نے کارگل پر حملہ کرکے ان کی کمر میں چھرا گھونپا تھا۔ شاید اسی ایجنڈے کو آگے لانے کے لئے اب آئین کے آرٹیکل 243(1) کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ واللہ اعلم۔
ڈان نیوز لیکس کی رپورٹ کا معاملہ اس وقت سارے قومی معاملات اور پورے ملک کی سیاست کے افق پر چھایا ہوا ہے۔ عجلت میں جو ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا گیا‘ اس کی وجہ سے سول ملٹری تعلقات اب پہلے جیسے نظر نہیں آتے۔ نیوز لیکس کا معاملہ فوج کے لئے بہت اہم ہے۔ حکمرانوں کو احساس ہونا چاہئے کہ یہ کوئی عام معاملہ نہیں بلکہ عسکری ادارے کی ساکھ کا معاملہ ہے۔ یہ آگے جا کر مزید شدت اختیارات کرتے ہوئے حکومتی رٹ پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اس لئے مناسب ہے کہ اس ایشو کو جلد از جلد حل کیا جائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں