"KDC" (space) message & send to 7575

نومبر میں انتخابات کا اعلان متوقع

چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے عمران خان اور جہانگیر ترین کی عوامی عہدہ کے لئے نا اہلیت سے متعلقہ مقدمہ کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا عندیہ دیا ہے،سپریم کورٹ نے پاکستان کے صف اول کے وکیل اکرم شیخ کی استدعا پر الیکشن کمیشن کو فریق بنانے کی اجازت دے دی ہے اور ضرورت پڑنے پر وزارت داخلہ کو بھی فریق بنانے کی اجازت بھی دے دی ہے۔ حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے اپنے دلائل میں کہا ہے کہ عمران خان نے ٹیکس گوشواروں میں اپنے اثاثوں ، آف شور کمپنیوں کا ذکر نہ کر کے حقائق چھپائے ہیں اور ان پر آرٹیکل 63-62 کا اطلاق ہوتا ہے، مخالف گروپ کا موقف ہے کہ تحریک انصاف بیرونی فنڈنگ سے چل رہی ہے اور عمران خان نے الیکشن کمیشن میں اپنے کاغذات نامزدگی میں غیر ملکی فنڈنگ نہ لینے کا جواب دیتے ہوئے غلط بیانی کی ہے جس کے بعد وہ صادق اور امین نہیں رہے اور اب ان پر آئین کے آرٹیکل 63-62 کا اطلاق ہوتا ہے اور غیرملکی جائیداد ظاہر نہ کرنا بد نیتی ہے اس کی تفصیلات بیان کرنے کے پابند تھے اور یہ کہ عمران خان نے ٹیکس ایمنٹسی سکیم میں بھی لندن کی جائیداد ظاہر نہیں کی۔ سپریم کورٹ میں عمران خان اور جہانگیر ترین کے بارے میں جو سماعت ہو رہی ہے، وہ آئندہ کے لئے پاکستان کی سیاست کا رخ تبدیل کر دے گی اور اس کے ساتھ ساتھ پاناما کیس کی بھی سماعت شروع ہو چکی ہے اور ڈان لیکس کا معاملہ بھی ملکی سلامتی کے حوالے سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ان حالات میں سپریم کورٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف آمنے سامنے کھڑی ہوگئی ہیں، وزیر اعظم نواز شریف کی حکمت عملی کے تحت کردار مختلف ہیں اور عمران خان اور جہانگیر ترین الزمات کی زد میں ہیں، پانامہ کیس دوسرے مگر اہم مرحلے میں داخل ہو گیا ہے، پانامہ پیپرز کی خبر عالمی
نہ ہوتی تو پاکستان میں دبا دی جاتی اور حکومت کے زیراثر میڈیا ہاؤسز کے ذریعے خبر کا رخ ہی موڑ دیا جاتا، دوسرے مرحلے میں سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ نے جو اقدامات کئے اور ریمارکس دیئے اس سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم پر اٹھنے والے اعتراضات اور خدشات اب دور ہو جائیں گے کیونکہ سول اداروں کے ساتھ عسکری ادارے بھی حکومتی میڈیا ٹیم کے ذریعے الزام تراشی کی زد میں آئے اور اب عدالت عظمیٰ نے واضح کر دیا کہ عدلیہ خود نگرانی کرے گی، عدالت کو تمام تحفظات اور خدشات کا اندازہ ہے اور شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات چاہتے ہیں، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں ایسے آفیسران چاہئیں جو ایماندار اور کام میں مہارت رکھتے ہوں۔معزز جسٹس عظمت سعید شیخ نے سخت ریمارکس دیئے اور کہا کہ عدلیہ کے ساتھ کھیل مت کھیلیں! عدلیہ خود ان آفیسران کا انتخاب کرے گی، عدالت عظمیٰ نے گورنر سٹیٹ بنک اور چیئر مین سکیورٹی ایکسچینج کمیشن ظفر حجازی کو بھی عدالت عظمیٰ میں طلب کر لیا۔ عدالت عظمیٰ نے ایف آئی اے ، نیب ، آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نام پر کوئی ریمارکس نہیں دیئے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ عدالت کو ان چاروں اداروں کی طرف سے دیئے گئے ناموں پر اعتراض نہیں۔ ڈان نیوز لیکس کے بارے میں وزارت داخلہ کو کمیٹی کی رپورٹ من و عن شائع کر دینی چاہئے اور نوٹی فیکیشن کا مزید انتظار حکومت کے لئے اچھا شگون نہیں ہے۔
پاکستان کی سیاست کا نیا رخ سامنے آرہا ہے پانامہ کیس اور عمران خان نااہلی کیس میں مشابہت پائی جاتی ہے، پاناما کیس میں مستقبل کے چیف جسٹس صاحبان نے فیصلہ دیا ہے کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے اور تین معزز قابل احترام ججز صاحبان نے مزید جانچ پڑتال کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم مقرر کر دی ہے، اور اب سیاسی معاملہ کسی نئی تبدیلی کی طرف جا رہا ہے اور حکمران جماعت کے وکیل کا دعویٰ ہے کہ عمران خان نے الیکشن کمیشن کے سامنے سچ نہیں بولا! اور عمران خان اور جہانگیر ترین کے کیس کے ہوا کا رخ ان کے مخالف جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور چند مہینوں میں پاکستان کی سیاست میں اہم تبدیلی آئین و قانون اور عدالت عظمیٰ کے ذریعے آئے گی اور جن کا فیصلہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
پاناما کیس، ڈان لیکس کے معاملات ابھی طے ہونے ہیں کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے پراسرار اور مبہم یہ بیان دے کر نواز شریف کو سینیٹ کے الیکشن سے پہلے جانا ہوگاتلاطم کھڑا کر دیا ہے کیونکہ وزیر اعظم نواز شریف کو مارچ 2018 کا انتظار ہے اور وہ مارچ میں سینیٹ میں دو تہائی کی اکثریت حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں تاکہ آنے والی حکومت مفلوج ہو جائے اور وہ ان کے ساتھ سودا بازی کر سکیں، سابق صدر آصف علی زرداری کے اس اہم اشارے کو کسی میڈیا گروپ نے زیادہ اہمیت نہیں دی جب کہ اس کے بین السطور میں پیغام یہ ہے کہ آصف علی زرداری وزیر اعظم نواز شریف کا راستہ روکنے کے لئے صوبائی اسمبلی سندھ کو تحلیل کر دیں گے اور لا محالہ عمران خان کو بھی خیبر پختون خوا کی اسمبلی کو بھی تحلیل کرنا پڑے گا اور اس طرح جب فیڈریشن کے دو یونٹ تحلیل ہو جاتے ہیں تو لا محالہ سینیٹ کے انتخابات موخر کرنے ہوں گے اور وزیر اعظم نواز شریف کو قومی اسمبلی بھی تحلیل کرنا پڑے گی۔ ان معروضات میں یہی نظر آ رہا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کو اکتوبر، نومبر میں قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کو تحلیل کر کے از سر نو انتخابات کا اعلامیہ جاری کرنا پڑے گا اور اس دوران پانامہ کیس ، ڈان لیکس اور عمران خان کی نا اہلی کیس بھی منطقی انجام تک پہنچ چکا ہوگا۔
اس دوران میں افغانستان کی جانب سے چمن میں در اندازی اور گولہ باری سے دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔ کشیدگی کے باعث پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ، نیٹو سپلائی اور سرحد کے آر پار لوگوں کی پیدل آمد و رفت بھی معطل ہے ۔ وطن کے محافظ کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے چوکس ہیں۔ پاک فوج کے ہیلی کاپٹر بھی سرحد کی مسلسل نگرانی کر رہے ہیں۔ باب دوستی چند ماہ قبل بھی کئی ہفتے تک بند رہا۔ تب پاکستانی چیک پوسٹ پر فائرنگ کر کے کئی جوانوں کو شہید کر دیا گیا تھا جس کے بعد صورت حال کشیدہ ہو گئی تھی اور باب دوستی بھی بند کر دیا گیا تھا جس سے دونوں اطراف سینکڑوں ہزاروں ٹرکوں کا قافلہ رک گیا تھا۔ اب کی بار تو انتہا کر دی گئی اور ہمارے درجن بھر شہریوں کو بلا اشتعال فائرنگ کے شہید کر دیا گیا ۔ افغانستان کو سمجھنا ہو گا کہ وہ بھارت کا پٹھو بن کر پاکستان کا امن خراب کرنے سے باز آ جائے وگرنہ پاکستانی فورسز جواب دینا خوب جانتی ہیں۔ بھارت افغانستان کو اپنا آلہ کار بنا کر پاکستان میں انتشار پھیلانا چاہتا ہے اور اس کا یہ خواب کبھی بھی پورا نہیں ہو سکتا۔ ملک اس وقت کئی داخلی مسائل کا شکار ہے۔ پاناما اور ڈان لیکس کی وجہ سے ملکی صورت حال میں تنائو ہے۔ ایسے میں پاک افغان سرحد پر ہر قسم کی کش مکش فوری طور پر ختم ہونی چاہیے۔
حکمران جماعت اور دیگر سیاسی جماعتوں کو ادراک ہونا چاہئے کہ بانی متحدہ قومی موومنٹ کا اثر زائل نہیں ہوا ہے ان کی اہمیت کراچی ، حیدر آباد، میر پور خاص اور سکھر اور رورل ایریا کے مہاجر بیلٹ میں موجود ہے ۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر فاروق ستار اور مہاجر قومی موومنٹ حقیقی کے بانی آفاق خان سے رابطے کے لئے عامر خان کا اثر و رسوخ بروئے کار لانا ہوگا کیونکہ آفاق خان کا زیادہ اثرو رسوخ ملیر اور مشرقی کراچی میں دیکھنے میں آیا ہے، اسی طرح مصطفی کمال کی پاک سر زمین پارٹی کو بھی انہی دونوں فیکٹرز سے اتحاد کرنا پڑے گا، تینوں فورسز ایک ایجنڈا پر متفق ہونے سے ہی پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں سے انتخابی مقابلہ کرنا آسان ہوگا اور تینوں سیاسی قوتوں کو بہ یک آواز ہو کر وزیر اعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ سنجیدگی سے کرنا ہوگا ۔اسی طرح حکمران خاندان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے مؤثر حکمت عملی کا ہتھیار استعمال کرنا ہوگا اور اسی سیاسی ٹرائیکا سے ان کے قدم پنجاب میں جم جائیں گے اور جنوبی پنجاب کے عوام ان کے منتظر رہیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں