"KDC" (space) message & send to 7575

متفرق معاملات

سابق امریکی صدر بش کا نظریہ نیو ورلڈ آرڈر صدر ٹرمپ کے آنے کے بعد ختم ہو گیا‘ اور اب دنیا میں نئی صف بندی ہو رہی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ چین، روس اور پاکستان مل کر ایک نیا بلاک بنا رہے ہیں۔ پاکستان امریکی بلاک سے نکل رہا ہے۔ لہٰذا اب جمہوریت مضبوط کرنے کے لئے پاناما کیس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت اور سیاسی استحکام چین اور روس کی ضرورت ہے، جن کا مفاد پاک چین اقتصادی راہداری سے وابستہ ہے۔ ان حالات میں چین اور سی پیک سے منسلک دیگر عالمی طاقتیں پاکستان میں جمہوریت اور ایسی جمہوری شخصیت کی حفاظت کریں گی جو بھارت کے ساتھ دوستی کا خواہاں ہو گی۔ بھارتی سرمایہ کار ایک ایسی غیر سرکاری تنظیم کی فنڈنگ کر رہے ہیں جو پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش کی کنفیڈریشن بنانے کی خواہاں ہے۔ ہماری بعض اداروں نے اس غیر سرکاری تنظیم کے معاملات کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کرائی تھی‘ مگر یہ کوشش بے سود رہی۔ پاک چین اقتصادی راہداری سے بھارت اگلے برسوں میں استفادہ کر سکتا ہے‘ جب مودی دوسری ٹرم میں بھی بھارت کے وزیر اعظم ہوں گے۔ وزیر اعظم مودی امریکی حصار سے نکل کر روس کے ایما پر چین سے مفاہمت کرکے اسے اپنی منڈیوں تک رسائی دینے پر آمادہ ہو جائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان میں سی پیک کے نام پر جو شاہراہیں اور موٹر ویز بنوائی جا رہی ہیں‘ ان پر بھارت کے چلتے ہوئے کنٹینرز کو قوم حیرت سے دیکھے گی؛ تاہم یہ مستقبل بعید کی باتیں ہیں۔ فی الحال عدلیہ نے سیاستدانوں کو آئندہ انتخابات کا دروازہ یہ کہہ دکھایا ہے کہ پاناما کیس کے پانچوں معزز ججز نے وزیر اعظم کو جھوٹا نہیں کہا۔ فیصلے کی غلط تشریح کرنے والے لیڈر نے جھوٹ بولا ہے‘ گمراہ کیا ہے۔ کچھ لوگ سمارٹ بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاناما کیس ابھی زیر التوا ہے، اس پر حتمی فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ آسمان و زمین گرنے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے کرنا ہے، ایسے ریمارکس 1991ء میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افضل ظلہ نے بھی دیئے تھے۔ ایسے ریمارکس سے بعض لوگوں نے ایک رائے متعین کر لی‘ کیونکہ جے آئی ٹی کے سوالات کے جوابات بلاشبہ وہی ہوں گے‘ جو سپریم کورٹ کے روبرو دیے جا چکے۔ تحقیقات کے لئے غیر ملکی حکام سے مراسلت دو طرفہ اور بین الاقوامی سمجھوتوں کے تحت ہی ہو گی اور برطانوی حکومت وہی طرز عمل اختیار کرے گی جو اس نے الطاف حسین کے بارے میں رکھا ہوا تھا۔ قائد اعظم نے 11 اگست 1947 ء کو آئین ساز اسمبلی کے خطاب میں صوبائیت، کرپشن، رشوت خوری و اقربا پروری، سفارش، ذخیرہ اندوزی، منافع خوری، مذہبی منافرت، فضول خرچی اور قومی وسائل کے زیاں، حکمرانوں کی شان و شوکت اور عوام سے دوری کے خلاف وارننگ دی تھی۔ حکمرانوں کا رویہ اس کے برعکس ہے۔ 
ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کی گزشتہ روز کی پریس کانفرنس کے نتیجے میں ڈان لیکس کا معاملہ طے ہوتا نظر آرہا ہے؛ تاہم سجن جندال کی آمد پر افواج پاکستان میں سخت موقف رکھنے والے اعلیٰ ترین افسران کا رد عمل کافی سخت نظر آ رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھارت سے خوشگوار تعلق کا سلسلہ حکمران خاندان نے 1977 سے ہی شروع کر دیا تھا۔ وزیر اعظم بھٹو کے خلاف جو تحریک 1977 میں شروع ہوئی تھی، میرے خیال میں اس کے پس پردہ بھی بھارتی عزائم تھے۔ آزاد جموں و کشمیر کے سابق صدر سردار عبدالقیوم خان نے تحریک کے آخری دنوں میں وزیر اعظم بھٹو سے ملنے کے خواہش مند تھے‘ اور راؤ عبدالرشید خان ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو کی سفارش کے باوجود مسٹر بھٹو نے اپنی مصروفیات کی وجہ سے ملاقات سے گریز کیا۔ بعد ازاں راؤ عبدالرشید خان نے میرے ساتھ ایک ملاقات میں بتایا کہ سردار عبدالقیوم خان وزیر اعظم بھٹو کو بھارتی سہولت کاروں کی فہرست پیش کرنا چاہتے تھے جو پاکستان میں ان کی حکومت کے خلاف محرکین کو مالی سہولتیں فراہم کر رہے تھے۔ اسی طرح پاکستان کے صاف اول کے ممتاز مذہبی، سیاسی، صحافی مفکر آغا مرتضیٰ پویا بھی اپنے موقف پر قائم ہیں کہ حکمران خاندان کے بھارت سے 1977ء سے گہرے تعلق چلے آرہے ہیں۔ انہوں نے کچھ اور باتیں بھی مجھے بتائیں‘ جن کا میں یہاں ذکر کرنے سے قاصر ہوں۔
ہم اپنا زر مبادلہ خرچ کرکے ہندوستانی اشیا خرید رہے ہیں‘ جبکہ پاکستان کی کوئی شے ہندوستان میں فروخت نہیں ہو رہی ہے۔ ہماری معیشت دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑی ہے‘ کیونکہ زرداری حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور میں 22 ارب ڈالرز قرضے لئے تھے جب کہ موجودہ حکومت‘ جو معیشت بہتر کرنے کے دعوے کر رہی ہے‘ نے اپنے چار سالہ دور میں اس سے زیادہ قرضے لیے‘ وہ بھی آئی ایم ایف کی اپنی شرائط پر۔ آئی ایم ایف نے بھی بدنیتی کرتے ہوئے پاکستانی قوم کو مالیاتی بحران کے بارے میں آگاہ نہیں کیا۔ اب تہذیب و تمدن بھی داؤ پر لگ چکا ہے کیونکہ حکمران نظریہ پاکستان کی تشریح اپنے انداز میں کر رہے ہیں۔ مہنگائی اور پچاس لاکھ سے زائد بے روزگاروں کی وجہ سے مایوسی پھیل چکی ہے۔ بے روزگاری کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ ماہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جونیئر افسروں کی 16 کے لگ بھگ اسامیوں کی تشہیر کی گئی تو اس کے نتیجہ میں تقریباً 60 ہزار درخواستیں الیکشن کمیشن کو موصول ہوئیں۔ حکومت کو ان معاملات کو درست کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ فی الحال تو پوری قوم کی توجہ عمل درآمد کمیشن پر مرتکز ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں