"KDC" (space) message & send to 7575

مسئلہ حل ہو گیا؟

نیوز لیکس کے تناظر میں وزیر اعظم کی عسکری قیادت کی ملاقات کے بعد نیوز لیکس کا معاملہ طے پا گیا ۔ مسلح افواج کی طرف سے جاری شدہ ٹویٹ واپس لے لیا گیا۔قبل ازیں وزیر اعظم کی چیف آف آرمی سٹاف سے ملاقات ہوئی۔ جس کے بعد سول قیادت کے موقف کو تسلیم کر لیا گیا قبل ازیں بالکل 20 دسمبر 1971 ء کی صورت حال پیدا ہو گئی تھی۔ جب عسکری قیادت نے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر تسلیم کر لیا تھا اور اسی طرح ڈان لیکس کے بارے میں جو سرکاری پریس نوٹ جاری ہوا وہ اسی طرز کا نظر آیا جس کا 16 دسمبر 1971 ء کے پریس نوٹ سے موازنہ کیا جا سکتا ہے جس کی رو سے انڈیا کے ساتھ تمام معاملات "طے " ہو گئے تھے۔ اس میں بھی لفظ "طے " پر زیادہ زور دیا گیا تھا جو سرینڈر کے زمرے میں آتا تھا۔ ڈان نیوز لیکس پر سفارشات وزیر اعظم ہاؤس کا اعلامیہ ہی اب تک کی واحد دستاویزات ہے، اسی اعلامیہ پر عسکری قیادت رضا مند ہوگئی ؛ البتہ سفارشات میں صرف ایک اضافہ کیا گیا کہ سابق دفعات میں جن وجوہ کا حوالہ دیا گیا، حکومت سینیٹر پرویز رشید کے خلاف پہلے ہی کارروائی کر چکی ہے، وزارت داخلہ کی پریس ریلیز میں کچھ الفاظ اور مختصر جملے بھی شامل کئے گئے ہیں جو 29 اپریل کی سرکاری سمری میں شامل نہیں تھے۔ سول اور عسکری قیادت کے درمیان مفاہمت پر وزیر اعظم کے سیاسی حریفوں کو شدید مایوسی اور پشیمانی ہوئی ۔ وزیر اعظم نواز شریف کے سیاسی حریفوں کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ سات ماہ طویل ڈان لیکس کے معاملات طے ہونے کے بعد حکومت کسی کو بچانے میں کامیاب ہو گئی ہے، حکومت کے ناقدین چاہے کچھ بھی کہیں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ شخصیت جن کی طرف اپوزیشن اشارے کر رہی ہے۔ ان الزامات سے بری ہو چکی ہیں اور آئندہ کے انتخابات میں لاہور سے الیکشن میں حصہ لینے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی جانب سے وزیر اعظم کے عہدے کے لئے مضبوط امید وار ہوں گی اور اُنہیں حب الوطنی کا سر ٹیفکیٹ دے دیا گیا ہے!
افواج پاکستان نے اپنے ٹویٹ کے ذریعے آئینی حدود کو کراس نہیں کیا تھا، کیونکہ ڈان نیوز لیکس قومی مفاد کا اہم کیس تھا جس پر وزیر اعظم آفس نے معمول کی کارروائی پر مبنی نوٹیفکیشن جاری کرا دیا ۔جس پر ردعمل یہ ہوا کہ سرکاری حلقوں کے دانشوروں نے ''ٹویٹ‘‘ کو انتہائی متنازع بنا دیا ۔ وزیر اعظم کی مخالف سیاسی جماعتیں بھی اس مسئلے پر کوئی واضح پالیسی نہ اختیار کر سکیں؛ تاہم فوج نے ٹویٹ کو واپس لے لیا اورکہا کہ ڈان لیکس کا معاملہ طے ہو گیا ۔ ٹویٹ کی واپسی کے باعث وزیر اعظم کے لئے آئندہ انتخابات میں کامیابی کی راہ نکل آئی ہے، بہرحال ڈان نیوز لیکس کی رپورٹ کو من و عن شائع کرنے کی نوبت نہیں آئے گی جس پر قوم کے ایک حصے کو مایوسی ہوئی ہے۔ ڈان لیکس کے معاملہ میں اپوزیشن جماعتوں نے بھی قوم کو مایوس کیا ہے۔ اسی مایوسی میں پاکستان اب تیزی سے کنفیڈریشن کی طرف جا رہا ہے جو غیر ملکی ایجنڈا ہے۔ چونکہ اب وزیراعظم کی صاحبزادی مستقبل کی پرائم منسٹر کی مضبوط امیدوار بن کر سامنے آرہی ہیں ہے لہٰذا انہیں اپنے آپ کو غیر متنازع بنانے کے لئے تمام سوشل گروپس اور میڈیا ٹیم سے کناراکش ہو جانا چاہئے۔
حکومت کی کامیاب حکمت عملی کے تحت عمران خان اپنی نا اہلیت کے کیس کے گرداب میں پھنس چکے ہیں اور بنی گالہ کی عمران خان کی عمارت کی تعمیر غیر قانونی قرارپائی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے بنی گالہ کے گھر کو بھی حکومت نے غیر قانونی قرار دیکر عمران خان کو بنی گالہ کے قلعے میں محصور کر دیا ہے، الیکشن کمیشن نے عمران خان کی نااہلی کی لگام اپنے ہاتھ میں رکھ لی ہے۔ عوام نے اپنے اظہار کی قوت سے ریاست کے دونوں اہم اداروں کی کارروائی کو بقائے باہمی پر سمجھوتہ ہوتے ہوئے دیکھ لیا ہے اسی طرز پر کلبھوشن کیس بھی "طے" ہو جائے گا ۔ 
وزیر اعظم آفس‘ وزارت داخلہ اور ادارے نیوز رپورٹ کے مندرجات کو گمراہ کن قرار دیتے رہے، مگر یہ بات بہرحال تشویش ناک تھی کہ وزیر اعظم آفس کے حوالے سے کی گئی گفتگو کی رپورٹ خواہ وہ درست تھی یا گمراہ کن، میڈیا تک کس طرح پہنچی یا پہنچائی گئی جب کہ اس خبر کے مندرجات ایسے تھے جن کے ذریعے پاکستان دشمن قوتوں کو قومی سلامتی کے ذمہ دار ادارے کے خلاف پروپیگنڈے کا موقع ملا۔ راجپوت گھرانے کے چشم و چراغ چوہدری نثار علی خان کہتے ہیں کہ میڈیا نے دراصل ڈان لیکس کو افسانہ بنا دیا! ان کے موقف میں کمزوری پوشیدہ ہے کیونکہ اگر کوئی بات ہی نہیں تھی تو راز کے فاش ہوتے ہی پرویز رشید کو وزارت سے سبکدوش کیوں کیا گیا اورطارق فاطمی اور رائو تحسین کو اپنے اپنے عہدوں سے فارغ کرنے کی ضرورت کیا تھی۔ حقیقت کے بر عکس، ڈان میں ایک ایسی خبر چھپوائی گئی جسے فوجی قیادت اور کور کمانڈر کانفرنس نے سکیورٹی شگاف قرار دیا۔ اس طرح کی سوچ، منفی کارروائی اور فوج کا امیج خراب کرنے کی سازشیں کرنے والے عناصر ابھی بھی حکومت کے حلقوں میں نمایاں پوزیشن میں موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ڈان اخبار کو یہ خبر کس نے دی ۔ معاملے کی چھان بین کرنے کیلئے جو کمیٹی بنائی گئی تھی اُس میں وزیر اعلیٰ پنجاب ‘ سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد ، طارق فاطمی، جنرل راحیل اور آئی ایس آئی کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل رضوان اختر اور غالباً وزیر اعظم کے دست راست فواد حسن فواد شامل تھے۔ ارکان کے درمیان جو قومی معاملات زیر بحث آئے تھے وہ قومی راز کے زمرے میں آ تے ہیں جس کا افشا غداری ہے۔ اگر اہم پالیسی امور وزیر اعظم کی صدارت میں ہونے والی میٹنگ میں زیر بحث نہیں آئے تو ڈان کی خبر من گھڑت تھی، جس کے مضمرات نہایت خطرناک ہیں کہ یہ خبر کیوں اور کس محرک کے تحت لگوائی گئی، یہ گھناؤنی سازش کس نے کی اور کس نے پاکستان کی افواج اور سیکورٹی ایجنسیوں کے امیج کو داغدار کرنے کی مذموم سازش کی۔ اس طرح یہ معاملہ صرف سنجیدہ اور خطرناک ہی نہیں بلکہ سنگین غداری کے زمرے میں آتا ہے، ڈان سے پہلے وہ کونسی پراسرار شخصیت تھی جس نے ایک اور گروپ سے بھی رابطہ رکھا اور اس نے خبر کی اشاعت سے معذوری کا اظہار کیا، روز نامہ ڈان نے جو قائد اعظم کے فرمودات کا امین ہے خبر ایک دن روکے رکھی اور دوبارہ کارروائی مکمل کر کے 6 اکتوبر کو شائع کی۔ اس لئے وفاقی وزیر داخلہ کا یہ مشورہ کہ کوئی بات تھی ہی نہیں‘ درست نظر نہیں آتا ۔سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے ایک مخصوص شخصیت کو تنقید کا ہدف بنایا ۔ انہوں نے تو برملا اس شخصیت کا نام بھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ظاہر کر دیا ۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت نے اس شخصیت کو محفوظ راستہ دینے کے لئے تین شخصیات کو فارغ کر دیا۔ اگرچہ ڈان نیوز لیکس کا مسئلہ بظاہر فی الحال طے ہو گیا ہے لیکن ریاست کے مفاد میں یہ ہے کہ اس سازش کی تہہ تک پہنچا جائے۔ ذمہ داروں کو عبرت ناک سزا دینا ضروری ہے۔ آئین کے آرٹیکل 2-A کے تحت ووٹ دے کر حکمران بنانے والے ووٹروں کویہ حق ہے کہ وہ ڈان لیکس کمیشن کی اصلی اور مکمل رپورٹ خود پڑھیں اور اس پر تبصرہ کریں، کیونکہ اس رپورٹ میں کوئی قومی راز پوشیدہ نہیں ۔ حکومت نے رپورٹ کو عوام تک رسائی نہیں دی ۔ جس پر عوام سمجھنے لگے ہیں کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ اسی طرح کا واقعہ 1962 ء میں شام میں ہوا، شام کی بعث پارٹی میں ایک اسرائیلی جاسوس نے ایسی جگہ بنالی تھی کہ وہ نائب صدر کے عہدے تک پہنچ گیا تھا جب اس کا راز افشا ہوا تو اسے شام کی نوری اسماعیل کی حکومت نے سر عام پھانسی دی اور اس ضمن میں امریکی حکومت کے دبائو اور صدر آئزن ہاور کی درخواست کو بھی مسترد کر دیا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں