"KDC" (space) message & send to 7575

تحقیقات اور کاغذات نامزدگی

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے پانامہ کیس میں تحقیقات کا آغاز کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے وزیر اعظم نواز شریف کے 2013 سے 2016 تک کے جمع کرائے گئے گوشواروں کا ریکارڈ حاصل کیا ہے جو وزیر اعظم نواز شریف نے عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی شق 42-A کے تحت قانونی طور پر جمع کرائے تھے، الیکشن کمیشن کا موقف درست ہے کہ اس سے پہلے کے اثاثہ جات پر مبنی گوشوارے ان کے پاس نہیں ہیں کیونکہ عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 42-A سابق صدر پرویز مشرف نے جون 2002 میں متعارف کرائی تھی اور اس وقت نواز شریف جلا وطن تھے، میرا موقف یہ ہے کہ اگرچہ جے آئی ٹی نے الیکشن کمیشن سے 2013 سے لیکر 2016 تک جو گوشوارے شریف فیملی کی طرف سے جمع کرائے گئے تھے ان کا ریکارڈ لیا ہے لیکن کمیشن کے پاس 2008, 1997, 1993, 1990, 1988, 1985 اور 2013 کے کاغذات نامزدگی کا مکمل ریکارڈ موجود ہے کیونکہ کاغذات نامزدگی داخل کرتے وقت امیدواروں کی طرف سے اثاثوں کے بارے میں مکمل تفصیلات فراہم کی جاتی ہیں، یہ درست ہے کہ محترم نواز شریف نے اکتوبر 2002 کے الیکشن میں حصہ نہیں لیا تھا، کیونکہ اس کی دو وجوہ تھی، سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت نے بد نیتی کے تحت الیکشن لاء میں ترمیم کی تھی جس کے تحت امیدواروں کو ذاتی طور پر اپنے کاغذات نامزدگی کے فارم ریٹرننگ آفیسرز کو پیش کرنے کا حکم تھا ، جس کا مقصد بے نظیر بھٹو اور نواز شریف فیملی کو انتخابی دوڑ سے باہر کرناتھا، اس سے پیشتر کوئی بھی امیدوار اپنے اٹارنی کے ذریعے کاغذات نامزدگی جمع کرانے میں آزاد تھا۔
محترم نواز شریف نے 2008ء کے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے کاغذات نامزدگی غالباً حلقہ 117 لاہور سے جمع کرائے تھے جسے ریٹرننگ آفیسر نے ،جن کا تعلق عدلیہ سے تھا، ان کے کاغذات نامزدگی نامنظور کر دیئے تھے کیونکہ اس وقت عدالت کے فیصلہ کی روشنی میں وہ ستر سالہ سزا کے جرم میں مجرم قرار دیئے گئے تھے جو غالباً جسٹس کرامت حسین نے ان کو سنائی تھی، نواز شریف کے وکیل جناب اکرم شیخ نے الیکشن کمیشن کے روبرو اپیل بھی کی تھی جسے الیکشن کمیشن نے اسی بناء پر مسترد کر دیا کیونکہ ریکارڈ اور فیصلہ کے مطابق نواز شریف قانون کی نظر میں مجرم تھے! لہٰذا یہ ریکارڈ بھی الیکشن کمیشن کے پاس موجود ہے۔
انتخابات کی روح کاغذات نامزدگی ہوتے ہیں اور 3 فروری 1997ء کے انتخابات کے موقع پر جو کاغذات نامزدگی کے فارم الیکشن کمیشن نے تیار کئے تھے، اس کے پس منظر میں اس وقت کے صدر فاروق لغاری کا بڑا عمل دخل تھا جو انہوں نے اپنے صدارتی مشیر شاہد حامد کے ذریعے بنوائے تھے اور کاغذات نامزدگی میں یہ شق شامل کرائی تھی کہ امیدوار 1985 ء سے اپنے مالی گوشواروں کی تفصیل فراہم کریں۔ جو بنک یا مالیاتی اداروں کے نادہندہ تھے ان پر الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ شریف فیملی کے معزز ارکان اسی شق کی لپیٹ میں آتے تھے۔ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی تاریخ نزدیک آچکی تھی۔ نواز شریف اور شہباز شریف اس آرڈیننس کے تحت انتخابات میں حصہ لینے کے لئے اہل نہیں تھے کیونکہ شریف فیملی کروڑوں روپے کی نادہندہ تھی، لہٰذا شریف فیملی نے صدر فاروق لغاری سے معاملات ''طے ‘‘کیے انہیں آئندہ صدارت کے مقابلے میں کامیابی کی یقین دہانی کرائی،چنانچہ لغاری صاحب نے صدارتی آرڈیننس واپس لے لیا۔یوں شریف فیملی کے لئے انتخابات میں حصہ لینے کی راہ ہموارہو گئی۔ وفاقی وزیر انصاف و قانون، پارلیمانی امور جسٹس فخر الدین جی ابراہیم نے آرڈی ننس کی واپسی کی مخالفت کی اور استعفا دے دیا۔ان کی جگہ پر شاہد حامد کو وزیر قانون بنایاگیا‘ نگران وزیر اعظم ملک معراج خالد نے نواز فیملی اور صدر فاروق لغاری کے درمیان رابطے کا کام کیا، اس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مشہور صحافی ارشاد حقانی نے صرف خاموش احتجاج کرنے پر ہی گزارا کیا،مرحوم اپنے کالموں میں نواز شریف فیملی کے بارے میں بہت کچھ لکھتے رہے ۔ باور کیا جاتا ہے کہ صدر فاروق لغاری نے ارشاد حقانی کے کالموں سے متاثر ہو کر ہی صدارتی آرڈیننس جاری کیا تھا تاکہ وہ انتخابات کے لئے ہمیشہ کے لئے نا اہل ہو جائیں، شریف فیملی نے ملک معراج خالد مرحوم کے ساتھ ساتھ عابدہ حسین کی بھی خدمات حاصل کی تھیں ۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم موجودہ گوشواروں پرانحصار نہ کرتے ہوئے شریف فیملی کے 1985ء سے کاغذات نامزدگی کا ریکارڈ حاصل کرے، اس طرح انہیں تحقیقات میں آسانی ہو جائے گی۔ بالخصوص 1997ء کے الیکشن کے کاغذات نامزدگی بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ 12 اکتوبر 1999ء کے بعد جنرل پرویز مشرف کے قومی احتساب بیورو کے چیئر مین جنرل امجد نے الیکشن کمیشن سے تمام ارکان اسمبلی کے کاغذات نامزدگی کا ریکارڈ حاصل کر لیا تھا ، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم قومی احتساب بیورو سے بھی اسی نوعیت کا ریکارڈ حاصل کرنے کی سپریم کورٹ کے فیصلے کی رؤ سے مجاز ہے۔
عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 42-A پر من و عن کارروائی سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس ارشاد حسن خان نے شروع کروائی تھی اور ارکان اسمبلی اثاثوں کی تفصیلات کی جانچ پڑتال انہوں نے قومی احتساب بیورو اور ایف آئی اے سے کروانے کے لئے قانون سازی کروانے کے لئے حکومت کو تجاویز بھجوائی تھیں جس کا حکومت نے خاطر خواہ جواب نہ دیا۔ پاناما لیکس کرپشن کی دلدوز اور دلسوز داستان قوم کے سامنے ہے، اس کے علاوہ ملک سے باہر جانے والی اور پاناما لیکس میں سامنے آنے والی کھربوں ڈالر کی رقم کے جو سکینڈل سامنے آ رہے ہیں ،اس حوالے سے اگر عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 42-A اور سینیٹ ایکٹ 74 کی دفعہ 25-A پر عمل اس کے آغاز کار میں سے شروع ہو جاتا تو لوٹ مار کا یہ عالم نہ ہوتا جوآج نظر آرہا ہے، وزیر اعظم نواز شریف یہ نہ فرماتے کہ اگر احتساب کا سلسلہ شروع کر دیا تو ترقیاتی کام رک جائیں گے ۔ پاناما لیکس کی کارروائی آگے بڑھاتے ہوئے جے آئی ٹی مختلف شواہد کے حصول کے لئے ایف بی آر سے تمام ریکارڈ حاصل کر کے جائزہ لے گی، جے آئی ٹی کی موجودہ ٹیم پاکستان کے لئے ہیرے کی مانند ہے ، جس میں خاص طور پر جے آئی ٹی کے رجسٹرار محمد علی ہیں جو پاکستان کے متعدد چیف جسٹس صاحبان کے سیکریٹری رہے ہیں اور الیکشن کے تمام امور کا انہیں گہرا ادراک انہیں مرحوم جسٹس نعیم الدین کے دور میں ہوا تھا، جب محمد علی ان کے با اعتماد سیکریٹری تھے۔ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء اور ارکان عامر عزیز، بلال رسول، عرفان منگی، بریگیڈیر محمد نعمان سعید اور بریگیڈیر کامران خورشید بادی النظر میں درست سمت کی طرف جا رہے ہیں اور ملک کی اکثریت ان کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے، اور میری دانست میں جے آئی ٹی کو قطر کے شہزادے کے خط کی تائید یا تصدیق کے لئے قطر جانے کی ضرورت نہیں۔ جب سپریم کورٹ کے معزز جج حضرات نے قطر کے شہزادے کے خط کو مسترد کر دیا تھا، مسترد شدہ ریکارڈ کی از سر نو جانچ پڑتال کرنے کے بارے میں آئینی ماہرین اپنی رائے دے سکتے ہیں، عام پاکستانی کو یہ منطق سمجھ نہیں آ رہی ۔ اب انتخاب خاندانی و شخصیت سرپرستی کی بجائے عوامی خدمت پر لڑنے کا وقت آن پہنچا ہے اور عوام اپنے کھربوں روپے کا حساب طلب کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہیں ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں