"KDC" (space) message & send to 7575

بیجنگ معاہدہ سامنے لایا جائے!

امریکہ اور مغربی طاقتوں کی جانب سے اپنے سیاسی‘ اقتصادی اور استحصالی مفادات کے لئے طاقت کے بل پر دوسرے ملکوں پر بالادستی قائم کرنے کی پرانی روش کے برخلاف چین نے مختلف براعظموں کو بری، بحری اور فضائی کوریڈور کے ذریعے ایک دوسرے کے قریب لانے کی جو راہ دکھائی ہے‘ بیجنگ میں ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے تحت ہونے والی عالمی تعاون اجلاس میں دنیا کے 130 ملکوں نے پُرزور حمایت کرکے اس کی افادیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ یہ دشمنی کے بجائے تعاون کی راہ ہے جس پر پاک چین اقتصادی راہداری کے نام سے سفر کا آغاز ہو چکا ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ(اوبور)، اسی کی توسیع شدہ شکل ہے جس کا مقصد ایشیا، یورپ اور افریقہ کو آپس میں ملانا اور چینی صدر شی چن پنگ کے الفاظ میں آزاد تجارت اور جامعیت کے ساتھ امن کی راہیں متعین کرنا ہے‘ جس پر عمل درآمد سے دنیا کی آدھی آبادی آپس میں منسلک ہو جائے گی۔ چین نے اوبور‘ جسے نئی شاہراہ ریشم کا نام دیا جا رہا ہے، کے لئے 124 ارب ڈالر یا تقریباً 130 کھرب روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے دنیا میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی، مخاصمت اور طاقت کی سفارت کاری کے پرانے طریقوں کو ختم کیا جا سکے گا اور عالمی اقتصادیات کو فروغ دینے کے لئے شفاف اور معقول بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری کے اصولوں پر مبنی نظام کی حوصلہ افزائی کرنا ممکن ہو گا۔ اب ''دشمنی نہیں تعاون‘‘ کے چینی فلسفے کی قبولیت کا وقت ہے۔ دنیا بہت جنگیں دیکھ چکی‘ اب اسے امن کی طرف آنا چاہئے۔ یہ چینی نیو ورلڈ آرڈر، انسانیت کی فلاح کا ضامن ہوگا۔ پاکستان اس منصوبے میں اپنے سٹریٹیجک محل وقوع کی وجہ سے مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ اسے نتیجہ خیز بنائے کے لئے اندرونی استحکام بہت ضروری ہے اور اس پس منظر میں وزیر اعظم نواز شریف کو پانامہ پیپرز کی تحقیقات کے دوران مکمل شفافیت، غیر جانبدارانہ طرز عمل دکھانا ہو گا، تاکہ قوم پانامہ کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے نتیجہ پر مطمئن ہو کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو جائے اور معکوسی خطرات سے محفوظ رہے۔ آئندہ انتخابات افواج پاکستان کی نگرانی میں کرانے ہوں گے تاکہ ہنگامہ آرائی، انتشار اور اضطراب کا سدباب ہو سکے۔
تصویر کا دوسرا رخ بھی سامنے رکھیں تاکہ تلخ حقائق کا تجزیہ کیا جا سکے۔ اوبور اپنی افادیت کے باعث کوہ ہمالیہ کی بلند چوٹیوں پر نظر آرہا ہے‘ لیکن فنڈز، بھاری قرضے اور بڑھتے خطرات کا بھی سامنا ہے جسے شاید ہماری حکومت مسلسل نظر اندازکرتی جا رہی ہے۔ میرے خیال میں چین کی جانب سے کھربوں ڈالرز مالیت سے تعمیر کی جانے والی جدید ترین شاہراہ ریشم دراصل قرضوں کا ایک وسیع پروگرام ہے جس کے تحت بندرگاہیں اور ریلوے لنک تعمیر کئے جائیں گے لیکن چند بینکوں حتیٰ کہ کچھ ملکوں پر منفی اثرات ہوں گے۔ چین کے سینٹرل بینک کے گورنر ژوژآف چوان نے خبر دار کیا ہے کہ سستے قرضوں پر انحصار سے خطرات اور مسائل جنم لے سکتے ہیں اور اس میں اخلاقی مسائل کے ساتھ عدم استحکام کے ایشوز بھی شامل ہیں۔ اس پورے پروگرام میں قرضے جاری کرنے والے اداروں میں سرفہرست چین کے دو بڑے ادارے ہیں۔ چین کے یہ بنک ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں 200 ارب ڈالرز کے قرضے جاری کر چکے ہیں‘ اور بیلٹ اینڈ روڈ اجلاس کے موقع پر کئے جانے والے اعلان کے مطابق یہ دونوں بینک مزید 55 ارب ڈالرز کے قرضے جاری کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ چینی صدر کے مطابق ان دونوں بینکوں نے کام کی شروعات میں درپیش مشکلات کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا، لیکن ماہرین اور مبصرین کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ پر کام بڑھے گا ویسے ویسے کمرشل قرضے جاری کرنے والوں، قرض داروں، پالیسی بینکوں اور اس پروجیکٹ سے منسلک تمام ملکوں اور اداروں کے لئے چیلنجز بڑھتے جائیں گے۔ ایگزم کا کہنا ہے کہ اس نے قرضوں کے حوالے سے خطرات کی نشاندہی کر لی ہے اور وہ ہر ملک کے لئے قرضے کی زیادہ سے زیادہ حد (ڈیبٹ سیلنگ) کا تعین کرے گا۔ ایگزم بینک کے نائب گورنر سون پنگ کا کہنا تھا کہ اگر چین کسی ملک کو بہت زیادہ قرضے دے دیتا ہے تو اس کے اپنے قرضہ جات کا استحکام خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انفراسٹرکچر کے حوالے سے قرضہ جات فی الحال حکومتی سطح پر طے ہو رہے ہیں، جس میں سود کی شرح کمرشل بینکوں کے مقابلے میں کم ہے اور ان کی ادائیگی کا شیڈول بھی طویل ہے، مثلاً انڈونیشیا میں سی ڈی پی نے 40 سال کے لئے رعایتی قرضے جاری کئے ہیں جس میں حکومت سے کسی بھی طرح کی ضمانت طلب نہیں کی گئی۔ یہ قرضے جکارتہ میں 29.5 ارب ڈالرز مالیت میں جدید ترین اور تیز رفتار ریلوے پروجیکٹ تعمیر کرنے کے لئے خرچ کئے جائیں گے۔ اس قرضے میں 10 سال کی اضافی رعایت بھی دی گئی ہے۔ قرضے کا ساٹھ فیصد حصہ امریکی ڈالرز میں ہے جس پر دو فیصد شرح سود مقرر کی گئی ہے باقی 40 فیصد حصہ چینی کرنسی یو آن میں مقرر کی گئی ہے جس پر 4.3 فیصد شرح سود ہے۔ بینک کے نائب صدر ڈنگ ذیان چنگ کا کہنا ہے کہ چین کا سب سے بڑا بینک ہونے کی حیثیت سے ادارہ زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لئے ایسا نہیں کر رہا۔ بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹس میں حصہ لینے کے لئے چین کے ذیلی اور سرکاری 102 بینکوں نے شمولیت اختیار کرنے کی پیش کش کی۔ صرف کمیونیکیشن گروپ نے 10 ہزار 320 کلومیٹر سڑکیں تعمیر کرنے کے لئے 40 ارب ڈالرز کا پروجیکٹ حاصل کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ 95 گہرے پانیوں کی بندرگاہیں، 10 ائیرپورٹس، 152 پل اور 2080 ریلوے بیلٹ تعمیر کرے گا۔ حیرانی اس امر کی ہے جس پر حکومت پاکستان اور افواج پاکستان کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ چین کے سنٹرل بینک کے گورنر ژوژ آؤ چو آن خبردار کر رہے ہیں کہ سستے قرضوں پر انحصار سے خطرات اور مسائل جنم لے سکتے ہیں اور اس میں اخلاقی مسائل کے ساتھ عدم استحکام کے مسائل بھی شامل ہیں۔
پانامہ لیکس اور ڈان لیکس اور اس سے پیشتر ملک میں احتجاجی تحاریک میں ہمارے سیاستدانوں اور میڈیا نے زیادہ توجہ انہی کرپشن زدہ مسائل کی طرف مبذول کرا رکھی ہے لیکن چین کے ساتھ جو ون بیلٹ ون روڈ کا تصور سامنے آ رہا ہے‘ میرے خیال میں اس کے منفی اثرات سے ملک کی جغرافیائی سرحدیں ہی تحلیل ہوتی اور اپنی ثقافت، تہذیب، مذہب اور ریاست کا تصور دھندلا ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ بھارت اگرچہ وقتی طور پر علیحدہ ہوا ہے لیکن اس کے چانکیہ زدہ تھنک ٹینک نے پاکستان اقتصادی راہداری کا نام تبدیل کرنے کی شرط پر اس میں شمولیت اختیار کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے‘ جبکہ میری اطلاع کے مطابق چین نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر بھارتی تحفظات کو دور کرنے اور منصوبے کا نام تبدیل کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔ بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ نئی دھلی میں چینی سفیر لوژ ہوئی نے بھارت سے تعلقات کے تناظر میں کہا ہے کہ چین سی پیک منصوبے کے ذریعے اقتصادی تعاون کو روغ دینا چاہتا ہے اس کا پاکستان اور بھارت کے درمیان خود مختاری اور علاقائی تنازعات میں مداخلت کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سی پیک سے علاقائی خود مختاری کے معاملات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور اسی پس منظر میں اس منصوبے کا نام تبدیل کرنے پر غور کیا جا سکتا ہے۔ انڈیا میں مقیم چین کے سفیر نے کہا ہے کہ چین ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے پر بھارت کے ساتھ تعاون کرنے میں سنجیدہ ہے۔ افواج پاکستان سی پیک کی کامیابی کے لئے پُرعزم ہے۔ سول حکومت بھی اس کھربوں روپے کے پروجیکٹ کے لئے پُرعزم ہے؛ تاہم ایک اخبار کی ظاہر کردہ سی پیک کی بنیادی دستاویز ہماری نہیں، چینیوں کی تحریر کردہ ہے۔ سی پیک کا احتیاط سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ وفاقی حکومت اور افواجِ پاکستان کو اس کے مظمرات کا گہرائی تک غورکرنا ہو گا۔ اپوزیشن کو ون بیلٹ ون روڈ پر اظہار خیال کے لئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانا چاہئے تاکہ اس کے فوائد، مضمرات کے دونوں پہلو سامنے لائے جا سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں