"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابات کے لیے مشاورت

بھارت میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا تجربہ ناکام ہو چکا ہے۔ یہ بائیومیٹرک سسٹم ہوتا ہے‘ جس میں انگوٹھے کے نشان کے ذریعے ووٹ کاسٹ کیا جاتا ہے۔ بھارت کی بعض ہائی کورٹس میں اس سسٹم کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہیں۔ دہلی صوبے میں وزیر اعظم مودی کی حکومت نہیں، وہاں عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے جس نے اپنی صوبائی اسمبلی میں سرکاری طور پر چیلنج کیا ہے کہ بائیومیٹرک سسٹم میں ہیر پھیر کی جا سکتی ہے۔ عام آدمی پارٹی کے رہنما نے چیلنج کیا کہ مودی حکومت کی خواہش یہ تھی کہ اس کے حامی امیدواروں کو زیادہ ووٹ پڑیں۔ گزشتہ الیکشن میں بھی ان مشینوں کو ایسے سیٹ کیا گیا تھا کہ پہلے دو گھنٹے عوام کی مرضی‘ اور اس کے بعد مشین کے پروگرام کے تحت مخصوص پارٹی کو ووٹ جاتے رہیں۔ بھارت کی کسی صوبائی اسمبلی میں پہلی بار بائیومیٹرک سسٹم کی حقیقت کو چیلنج کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ بھی اسی طرح کامیابی سے ہمکنار ہوئے تھے۔ 
پاکستان میں بھی 2018ء کے انتخابات بائیومیٹرک نظام کے تحت کرانے کی 32 تجاویز آ چکی ہیں۔ یہ مشین جس ملک سے چاہے امپورٹ کریں‘ اس میں ہیرا پھیری کے امکانات موجود ہیں۔ الیکشن میں دھاندلی روکنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ انتخابات آرمی کی نگرانی میں ہوں، پولنگ سٹیشن کے اندر اور باہر فوجی اہل کار تعینات ہوں اور ریٹرننگ آفیسر کو انتخابی دھاندلی ہونے پر جواب دہ بنایاجائے۔ اس کو آئین کے آرٹیکل 218 سے انحراف کرنے پر قانون کے تحت سزا دی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں انٹرا پارٹی الیکشن میں شفافیت ہونی چاہئے اور نامزگیوں کے سلسلے کو قانونی طور پر ممنوع قرار دیا جائے۔ علاوہ ازیں سیاسی پارٹیوں کو اپنے الیکشن ایجنٹوں اور پولنگ ایجنٹوں کو تربیت دے کر پولنگ سٹیشنوں پر تعینات کرنا چاہیے‘ تاکہ دھاندلیوں کا ازالہ ہو سکے اور ان کی فہرست الیکشن کمیشن کے مقرر کردہ ریٹرننگ افسران کو فراہم کی جائے، تاکہ الیکشن کے عمل میں زیادہ سے زیادہ شفافیت پیدا کی جا سکے۔ 
ان ساری باتوں کے باوجود میں یہی کہوں گا کہ بائیومیٹرک نظام میں گڑ بڑ کے امکانات موجود ہیں اور یہ نظام لانے سے کسی بہتری کی امید نہیں ہے! راقم الحروف جون 2010ء میں بھارت گیا تھا۔ مجھے انڈین الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بارے میں ایک گھنٹہ بریفنگ دی تھی۔ چونکہ انڈین الیکشن کمیشن کی خواہش تھی کہ ہم ان کے ملک کی تیار کردہ مشینوں سے استفادہ کریں‘ اسی لئے مجھے بنگلور جانے کی بھی دعوت دی گئی تھی تاکہ ان کی مشینوں کی کارکردگی جانچنے میں آسانی رہے، لیکن میں نے بنگلور جانے کی پیش کش قبول کرنے سے معذرت کر لی۔ بعد ازاں اس وقت وہاں پاکستان کے ہائی کمشنر شاہد ملک نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی افادیت اور غیر افادیت کے بارے میں بھارت کی بعض سول سوسائٹیوں کی مرتب کردہ دستاویزات دی تھیں‘ جن سے ثابت ہوتا تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین نظام میں اپنی منشا کے مطابق نتائج تبدیل کرائے جا سکتے ہیں۔ اس پر میں نے جامع رپورٹ تیار کرکے اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری، چیف الیکشن کمشنر حامد علی مرزا، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سمیت تمام صوبائی وزرائے اعلیٰ کو بھجوائی اور ان پر واضح کیا کہ مشینی نظام میں دھاندلی کے بہت زیادہ اندیشے موجود ہیں اور یہ کہ اسی طریق کار کو اپناتے ہوئے بھارت میں 2009ء کے انتخابات میں ٹمپرنگ ہوئی تھی‘ جب بھارتی سرمایہ کاروں نے بی جے پی کو اقتدار میں لانے کی سازش کی تھی‘ اور نریندر مودی کو بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے کارنامے کے تحت اقتدار میں لایا گیا۔ 
انتخابی اصلاحات کی ذیلی کمیٹی نے کاغذاتِ نامزدگی سے متعلق الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تحفظات مسترد کر دیے۔ ممبر ذیلی کمیٹی نوید قمر کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیارات چیلنج نہیں کر سکتا۔ انہوں نے اپنی نئی منطق دیتے ہوئے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن کاغذات نامزدگی سے متعلق قانون سازی سے پارلیمنٹ کو روکنا چاہتا ہے تو اس کا قانونی جواز دے، تمام الیکشن فارمز کے خدوخال پارلیمنٹ طے کرے گی۔ ممبر کمیٹی انوشہ رحمان نے بتایا کہ سیاستدانوں کو ماضی میں سیاست سے باہر رکھنے کے لئے غیر ضروری مواد نامزدگی فارم میں شامل کی گیا تھا۔ واضح رہے کہ کاغذاتِ نامزدگی فارم الیکشن کے تمام مراحل سے گزرنے والے امیدواروں کے لئے اہم ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن اس روح کو خارج کرکے امیدواروں کو مادر پدر آزاد بنانے کی خواہاں ہیں۔ حکومتی اور اپوزیشن کے فاضل ارکان کے دلائل انتہائی کمزور اور کاغذات نامزدگی کی روح سے انحراف ہے۔ اگر کاغذات نامزدگی سے ان تمام شقوں کو خارج کر دیا جائے تو آرٹیکل 62-63 غیر ضروری ہو جائے گا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان آئین کے آرٹیکل 218 کے تحت صاف شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانے کا آئینی طور پر پابند ہے، لہٰذا الیکشن کمیشن اسی آرٹیکل کے تحت انتخابی اصلاحات کمیٹی کے نوید قمر اور انوشہ رحمن کو طلب کر کے ان سے وضاحت طلب کر سکتا ہے۔ 
پاکستان کا آئین 1973ء میں مغربی سرمایہ دارانہ نظامِ جمہوریت سے ہنگامی حالات اور سول مارشل لا کے تحت اخذ کیا گیا جس کے ضابطے نظام تشریک کے نظریہ تثلیث کے مطابق نظام حکومت پر بنائے گئے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ پاکستان کی 1972ء کی آئین ساز اسمبلی اقلیت میں تھی اور اکثریتی حصے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ڈھاکہ میں اپنا علیحدہ آئین ساز اسمبلی کا اجلاس کر رہا تھا‘ اور عبوری صدر ذوالفقار علی بھٹو نے 13 اپریل 1972 ء کے آئین ساز اسمبلی میں خطاب کے دوران قوم سے وعدہ کیا تھا کہ مشرقی پاکستان کی اکثریت کی خالی نشستیں اس وقت خالی رہے گی جب تک ناراض ارکان اسمبلی میں واپس اپنی نشستوں پر نہیں آ جاتے‘ گویا انہوں نے ان کی غیر حاضری کو آئینی طور پر تسلیم کر لیا تھا۔
صدر ذوالفقار علی بھٹو، فیلڈ مارشل ایوب خان کے وحدانی نظام جمہوریت Unitary Democracy کے خلاف اشتراکیت (Socialism) کا نعرہ لگا کر حکومت تک پہنچے تھے۔ بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو اشتراکیت اور جمہوریت سے مخلص نہیں تھے۔ جمعیت علمائے پاکستان کے مولانا نورانی اور جمعیت علمائے اسلام کے مولانا مفتی محمود نے 1973ء کے آئین پر متفق کرنے کے لئے قرارداد پاکستان کو آئین کے دیباچہ میں درج کرا دیا کہ آئین کی شقوں کو جلد از جلد اسلامی بنا دیا جائے گا اور 5 جولائی 1977ء کے بعد جنرل ضیاء الحق نے 8ویں ترمیم میں قرارداد پاکستان کو آئین کا حصہ بناتے ہوئے اسے 2-A میں نمایاں جگہ دے کر اسے آئین کی روح بنا دیا۔
14 اگست 1973ء کو نیا آئین نافذ کر دیا گیا اور آئین کو اسلامی رنگ دینے کے لئے پاکستان کے ممتاز روحانی بزرگ حضرت بابا ذہن شاہ تاجی سے خصوصی دعا کروائی گئی جو اب بھی قومی اسمبلی کے ریکارڈ میں موجود ہونی چاہئے کیونکہ راقم الحروف حضرت بابا ذہین شاہ تاجی کا سرکاری پروٹول آفیسر تھا۔ اب اس آئین کے تحت تین ادارے مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ طاقت کے ستون قرار پائے۔
اکیس سال کے مارشل لا میں جنرل ضیاء الحق یا جنرل مشرف نے آئینی ترمیم میں فوج کا آئینی کردار کی شق نہیں رکھی، ذاتی آمریت کے لئے کئی ترامیم کیں اور 1973ء کے آئین سے کماحقہ ذاتی فائدہ اٹھایا۔ اس وقت فوج 73ء کے آئین کے مطابق وزارتِ دفاع کے ماتحت ہے، جو تین اداروں پر مشتمل ہے، بری، بحری، فضائی۔ یہ تینوں ادارے چیئرمین جوائنٹ چیف آف آرمی سٹاف کمیٹی کے ماتحت ہیں۔ آئینی طور پر چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف سیکرٹری دفاع کے ماتحت اور وزیر دفاع وزیر اعظم کے ماتحت ہے اور 1973ء کے آئین کی بدولت وزیر اعظم ان سب کا تقرر اپنی ذاتی حاکمیت کی ضروریات اور پسند‘ ناپسند سے پاکستان کے آئین کے عین مطابق کرتے آئے ہیں۔
پاکستان کے اینکر پرسنز، میڈیا پرسنز، سیاستدان، دانشور، مفکرین ہر معاملے میں جنرل قمر جاوید باجوہ چیف آف آرمی سٹاف کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ میری ان سے گزارش ہے آئین کا مطالعہ کریں اور پھر چیف آف آرمی سٹاف کی طرف رخ کریں تاکہ ملک سے جاری بدعنوانیوں، اقربا پروری اور رشوت ستانی جیسی برائیوں سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل کی جا سکے۔ 2018ء کے انتخابات آرمی کی نگرانی میں کرانا ملکی مفاد میں ہے اور نگران وزیر اعظم کے تقرر میں آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان سے مشاورت ملکی مفاد میں ہو سکتی ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں